قابلِ فخر پاکستانی

وطن کی محبت سب محبتوں سے بلند اور ارفع ہوتی ہے۔ سرزمین ِوطن ماں کے دامن اور گود جیسی ہوتی ہے۔ اس کی وسعتوں کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ آزادی اور وطن دو ایسے الفاظ اور تصورات ہیں جو باہم لازم و ملزوم ہیں۔ کسی بھی قوم کو مخصوص علاقے میں خود مختار حیثیت حاصل کرنے کیلئے اقتدار اعلیٰ کی ضرورت اور اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ بر صغیر ِپاک و ہند کا جغرافیہ‘ موسم اور زرخیز سرسبز میدان‘ پہاڑ ‘دریا ‘وادیاں ‘لہلہاتے کھیت‘ فصلیں اور قدرتی حسن بیرونی حملہ آوروں کے لیے باعث کشش رہاہے۔ برصغیر کی تاریخ اور تمدن قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔یہی وجہ ہے کہ مختلف بیرونی طاقتوں نے برصغیر کی دولت و ثروت کے ساتھ ساتھ یہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی غرض سے مختلف ادوار میں متعدد مقامی اقوام کو شکست دے کر ہزاروں سال حکومت کی۔ ایرانی‘ یونانی‘ پرتگالی ‘ ولندیزی ‘افغان ‘مغل اور انگریز یہاں حاکم رہے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے اختتام پر مغل دور کا مکمل خاتمہ ہو گیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک یہاں حکومت کی مگر ہندو رعایا کو کبھی زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے لیے نہیں کہا۔یہ حقائق ان خیالات کی نفی کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا اور محمد بن قاسم فاتح ِسندھ نے ہندوستان میں دین ِاسلام کی تبلیغ بزور شمشیر کی تھی۔ نبی کریمﷺ کی بعثت سے پہلے سے عرب تاجر مال ِتجارت سرہند‘ مالابار‘جاوا‘ سماٹرا ‘چین اور سندھ کے ساحلوں پر لاتے اور ادھر کی مصنوعات یہاں سے لے جاتے تھے۔ کچھ نے تو انہی علاقوں کو اپنا وطن بھی بنا لیا اور یہاں کے مقامی لوگوں میں اپنے اچھی ساکھ اور لین دین میں دیانت کے سبب اعلیٰ مقام حاصل کر لیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی حیات ِ طیبہ ہی میں مالابار میں کافی تعداد میں لوگ اسلام لا چکے تھے۔ مالابار کے راجہ دھورن نے اسلام قبول کیا اور اس نے شق القمر کے واقعے کو اپنے روزنامچے میں سرکاری طور پر درج کروایا تھا ۔ اس نے تحقیق و تفتیش کروائی تو معلوم ہوا کہ یہ عرب میں اللہ کے نبی محمد ﷺ کا معجزہ ہے تو آپ کی زیارت کے لیے رختِ سفر باندھ لیا مگر راستے ہی میں وفات پا گیا۔ عہدِ فاروقی میں ہندوستان میں دین ِاسلام تیزی سے پھیلا۔ ابن ِ بطوطہ نے اپنی تصنیف 'سفرِ ہند‘ میں لکھا کہ جب وہ سراندیپ گیاتو وہاں کا راجہ اسلام قبول کر چکا تھا ۔وہاں کے بزرگوں سے ملا اور جاٹ اپنا آبائی دھرم چھوڑ کر مسلمان ہو چکے تھے اورہندوستان میں جا بجا مساجد تعمیر ہو چکی تھیں۔ یہی علیحدہ قومی تشخص دو قومی نظریہ کی بنیاد بنا۔
18مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے علی گڑھ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان تو اسی دن معرض ِوجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان کے پہلے فرد نے دینِ حق اسلام قبول کیا تھا۔فروری 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کونسل کا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا جس میں مسلمانوں کی الگ حیثیت اور قومی تشخص کے باعث ایک خود مختار ریاست کے تصور اور حصول کی ضرورت اور اہمیت پر اتفاق ہوا ۔اس اجلاس کے بعد قائد اعظم وائسرائے ہند سے ملاقات کو چلے گئے اور اس بات کی وضاحت کی کہ مسلم لیگ کوئی بھی ایسا آئین قبول نہیں کرے گی جو برطانوی پارلیمنٹ کی طرز کا ہوگا کیونکہ وہاںیک رنگی موجود ہے اور اکثریت کی حکومت کا تصور ہے جبکہ ہندوستان میں متعدد اقوام بستی ہیں جن کے حقوق کی حفاظت ‘ملی تشخص کو قائم رکھنا اور ان کے حقوق چاہے سیاسی ہوں یا سماجی‘ معاشی ہوں یا سیاسی و مذہبی یا علیحدہ ملی تشخص ان کی بقا کی ضمانت کی یقین دہانی ضروری ہے۔ 23مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کی الگ خود مختار ریاست کے تصور کا مطالبہ کر دیا گیا جو سات برس کے مختصر عرصے میں شرمندۂ تعمیر ہو گیا۔ 23مارچ کے دن بانی ٔپاکستان نے اڑھائی گھنٹے کی طویل تقریر میں فرمایا کہ مسلمان سماجی عادات‘ رسم و رواج‘ مذہبی عقیدے اور کھانے پینے کے اطوار میں ہندوئوں سے جدا ہیں۔ مسلمان کسی بھی فلسفہ کے لحاظ سے الگ قوم ہیں‘ لہٰذا الگ وطن کے حصول کی کوشش کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ تحریک ِ پاکستان گرم سرد بہت سے ادوار سے گزری۔ سر سید احمد خان سے لے کر علیگڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اکابرین اور رہنمائوں کی انتھک محنت اور لگن اور جذبہ کے سامنے ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہوگئی۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان کا وجود اُبھرا جس کی تکلیف بھارت اور دیگر سامراجی قوتوں کو ہے۔
پاکستان کی 75سالہ زندگی میں متعدد ابواب اور عہد نمایاں ہیں ۔ ابتدائی مشکلات‘ مالی مسائل اور وسائل کی کمی ‘ پڑھے لکھے‘ تربیت یافتہ اور ہنرمند افراد کی کمی‘ مہاجرین کی آبادکاری‘ زمینوںجائیدادوں کی بندربانٹ ‘ بھارت کی طرف سے کشمیر کا غیر قانونی الحاق اور بعد ازاں فوجی قبضہ‘ یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے نوزائیدہ ملک کی بنیاد میں ذاتی حرص اور لالچ کی وہ فصل بوئی جس کا خمیازہ آج تک کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ پاکستان کا بن جانا کسی معجزہ سے کم نہ تھالیکن اصل معاملہ امورِ مملکت چلانے کا تھا اور ابھی تک ہے۔ جن اکابرین نے تحریک ِپاکستان اور آزادی کی جدوجہد میں انتھک محنت کی تھی ان کی اکثریت کو ریاستی امور چلانے کا تجربہ اور تربیت نہیں تھی اور باقی ماندہ کو دلچسپی نہ تھی۔ بانی ٔپاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی علالت اور وفات سے پاکستان کو ناقا بلِ تلافی نقصان پہنچا۔ ہم قائد کے بتائے ہوئے اصولوں کو بھول کر ذاتی فائدے اور لالچ میں بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن گئے۔ بلاشبہ قوموں کی زندگی میں 75 برس لمبا عرصہ نہیں ہوتا اور خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جس کو تاریخ کے مختصر عرصے میں تین بڑی جنگوں اور دیگر نامساعد حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم سب سر جوڑ کر بیٹھتے‘ غورو فکر کرتے اور اندرونی کمزریوں اور مسائل کا تنقیدی جائزہ لے کر ہر پہلو سے چانچتے‘ پرکھتے اور منصوبہ بندی کرتے ‘ معاملات کی حساسیت کو سمجھتے اور وہ فیصلے لیتے جو علاقائیت‘ رنگ ونسل ‘ جذ باتیت اور فرقوں سے بالاتر ہو کر ملکی اور قومی یکجہتی ‘ یکسوئی اور یگاگت جیسے عمدہ اوصاف لئے ہوئے ہوتے۔ مگر ہم نفرت ‘ نسلی تعصب‘ صوبائیت‘ لسانیت اورتفرقہ بندیوں میں بٹتے چلے گئے نتیجتاً ہم میں محبت ‘قومی یکجہتی اور اتفاق اور اتحاد کمزور ہوتا چلا گیا۔
ذاتی مفاد اوردولت کا حصول ہماری اولین ترجیح بن گیا اور بین الاقوامی سامراجی قوتوں کے زیر ِ اثر نادیدہ طاقتیں ہماری سوچوں کے دھارے تبدیل کرنے میں اس طرح اثر انداز ہوئیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمار ی ترجیحات کا محور قومی مفاد سے میلوں دور چلا گیا۔ سوچیں زہر آلودہ ہوگئیں اور نوجوان نسل منشیات کی لعنت اور دہشت گردوں کے شکنجے میں پھنس گئی۔ مذہبی رواداری‘ صبر وتحمل اور برداشت کا کلچر تیزی سے تبدیل ہوا اور عدم برداشت ہمارے مزاجوں میں اس طرح سرایت کر گئی کہ اس کے زہر کی تاثیر روحو ں میں اُتر گئی۔ہمارے ملک میں ابن الوقت ‘ موقع پرست اور ذاتی مفاد کے متلاشی مصلح بن کر زہر ِہلاہل کو قند ثابت کرنے میں ہمہ وقت مصروفِ عمل نظر آئے۔ قومیں غربت اور بھوک سے کمزور نہیں ہوتیں بلکہ بے حسی اور رہبر و راہزن کی تفریق کرنے کی صلاحیت کھودینے سے کمزور ہوتی ہیں۔ تعلیم و تربیت کے فقدان نے گہرائی سے سوچنے اور غور و فکر کے بعد فیصلے لینے کی صلاحیت چھین لی۔ ہم وقتی فائدے کی خاطر ناسمجھی اور لالچ کے باعث مادرِ وطن کی عزت و حرمت کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔ مسائل کی نشاندہی اہم ہے اور اس بات کو بھی مان لینا چاہیے کہ مسائل کی وجہ بھی ہم ہیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جائے‘ یہ فیصلہ بھی ہمی نے کرنا ہے۔ ہمیں مسائل کے حل میں سنجیدہ رویہ اپنانا ہوگا۔ مال کی حرص اور ذاتی لالچ اور ملاوٹ جیسے گھنائونے جرائم سے توبہ کریں اور نفع و نقصان کی فکر کیے بغیر اللہ کی رحمت اور رزقِ حلال میں برکت کی تمنا کریں اور اسے اپنی اولین ترجیح بنا ئیں۔اگلے سال 23 مارچ سے پہلے اپنا محاسبہ کریں اور انفرادی سطح پر کچھ مختلف کر کے دکھائیں۔ پہلا قدم اٹھائیں گے تو ہی سفر کٹے گا اور منزل کے نشاں ہمارے بڑھتے ہوئے قدموں کی آہٹ سن پائیں گے۔ہر قابلِ فخر پاکستانی ملک و ملت کے مقدر کا ستارہ بننے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں