جی جی چوہدری صاحب!

''چوہدری صاحب‘‘ محض اک ٹائٹل نہیں بلکہ یہ استعارہ ہے رعب و رعونت ‘ جاہ و جلال ‘ شان و شوکت ‘ بودوباش اور تمکنت کا۔ یہ طاقت و اختیارات اور اثر و رسوخ کی علامت ہے تو خوف اور دھونس کا علمبردار بھی ہے۔ اگر آپ کا تعلق پاکستان کے دیہی علاقے سے ہے یا بالخصوص پنجاب کے کسی گائوں میں پلے بڑھے ہیں تو پھر ''چوہدری صاحب‘‘ کی اصطلاح سے یقینا آپ خوب واقف ہوں گے۔ عام طور پر گائوں میں ایک بڑا چوہدری ہوا کرتا ہے جس کی زمینیں دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کے مال و زر کے اسباب‘ زرعی آلات‘ ٹیوب ویل‘ وسیع و عریض ڈیرہ اور رہائش کیلئے پرشکوہ حویلی اسے پورے گائوں میں ممتاز حیثیت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پورے گائوں میں وہ بلاشرکتِ غیرے حکمرانی کرتا ہے اور اس کے کامے اس کی اطاعت و فرمانبرداری اپنے لئے سعادت گردانتے ہیں۔ وہ دوسروں کو ''کمی کمین ‘‘سمجھ کر حقارت سے پکارتا ہے اور ان کے نام بگاڑ کر اپنی مرضی کے نام سے پکارتا ہے ۔لوگ اسی میں اپنی عزت سمجھ کر ''جی جی چوہدری صاحب‘‘ کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ یہی گامے‘ احمے اور رحمے اس کی رعونت کو چار چاند لگاتے ہیں اور پورے گائوں میں چوہدری صاحب کا سکہ جمانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چوہدری صاحب کو کوئی شخص ان کے اصلی نام سے مخاطب نہیں کر سکتا۔ ان کے ذاتی نوکر چاکر بات بات پر 'جی جی چوہدری صاحب ‘ کہتے ہیں جبکہ چھوٹے زمیندار 'جی چوہدری صاحب‘ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔ اس کے ہم پلہ اور برابر حیثیت کے صاحبان اسے ''چوہدری صاحب‘‘ کہنے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ ہاں اگر گائوں میں ایک سے زیادہ چوہدری ہوں تو طاقت کا توازن دو طاقتور دھڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
چوہدری کو محض خوشامد‘ غیر مشروط فرمانبر داری اور جی حضوری پسند ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی عام شخص اس کے سامنے ناں نہیں کہہ سکتا اور اگر کوئی بدنصیب اس ''گناہِ کبیرہ‘‘ کا ارتکاب کر بیٹھے تو پھر اس کی شامت آجانا لازم ٹھہر تا ہے۔ اس کے اپنے بندے اس ''گستاخ‘‘ کی جی بھر کے ''پھینٹی‘‘ لگاتے ہیں ۔ یہ پھینٹی یا چھترول دراصل چوہدری صاحب کی اطاعت اور سکہ شاہی کو ہرخاص و عام میں رائج کرنے کیلئے ضروری ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کی مقدار اور شدت حسبِ ضرورت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ صورتحال اس وقت گمبھیرہو جاتی ہے جب ایک چوہدری کا بندہ دوسرے چوہدری کے زیرِ اثر کسی شخص کے ساتھ تو تکرار کر بیٹھے یا معاملہ لڑائی جھگڑے تک جاپہنچے تو ان حالات میں وہ مظلوم بن کر داد رسی کیلئے اپنے چوہدری کے سامنے بات بڑھا چڑھا کر اپنی داستانِ غم بیان کرتے کرتے اس گستاخ سے ایسے الفاظ منسوب کردیتا ہے جن میں چوہدری صاحب کی شان میں گستاخی نمایاں ہوتی ہے۔ اس مبالغہ آرائی کا مقصد چوہدری صاحب کواشتعال دینا ہوتا ہے‘ جس جال میں وہ اکثر پھنس جاتا ہے اور اپنے چند خاص بندے بھیج کر دوسرے چوہدری کے اس بندے کی خوب ٹھکائی کرواتا ہے تا کہ وہ آئندہ ایسی حرکت کا خیال بھی دل میں نہ لائے۔ معاملات یہاں سے آگے بھی بڑھ جاتے ہیں اور مزید تنائو کی کیفیت میں کئی کئی بار دونوں چوہدری ایک دوسرے کے ذاتی نوکروں کو پھینٹی بھی لگواتے رہتے ہیں اور یوں یہ پراکسی وار دو بڑے چوہدریوں کی سرد جنگ کا عرصہ دراز کر دیتی ہے۔ کئی کئی سال پورے گائوں میں تنائو کی کیفیت رہتی ہے اور دونوں متحارب چوہدریوں کے ڈیروں پر ان کے اپنے بندے مخالف فریق کی بدخوئی‘ جاسوسی اور برائی پر مبنی قصے بیان کرتے رہتے ہیں اور چوہدری صاحب اپنی مونچھوں کو تائو دے کر حقے کے کش لگاتے پر اعتماد نظر آتے ہیں۔
مگر کچھ جہاندیدہ‘ زیرک اور سیانے چوہدری براہ راست مخاصمت اور لڑائی جھگڑے کے بجائے اپنے ''لمبے ہاتھوں‘‘ کو استعمال میں لا کر اس گستاخ کو مقامی تھانے میں جھوٹے مقدمات میں الجھا دیتے ہیںاور تھانے کچہری کے چکروں میں پھنسا کر اس کم بخت کو سبق سکھایا جاتا ہے۔ بات اس سے بھی آگے بڑھ جائے تو اس کی قیمتی گائے‘ بھینس یا گھوڑی کسی اپنے زیر سرپرستی چور کے ذریعے چوری کروالی جاتی ہے اور وہ بے چارہ ساری زندگی کیلئے اپنی اس بیش قیمت دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ تھانے کچہری میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے چوہدری صاحب اکثر مقامی سیاست میں بطور ناظم‘ چیئر مین یا کونسلر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو موزوں ترین امیدوار سمجھ کر دوسروں سے ووٹ اور سپورٹ کی غیر مشروط یقین دہانی مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی شوق مزید پختہ ہو کر انہیں ایم پی اے اور ایم این اے بننے کی طرف مائل کرتا ہے اور پھر وہ طاقت و اختیارات کے بڑے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں مال و زر‘ دولت‘ گرانٹس‘ ٹھیکے‘ پرمٹ اور نوکریاں ان کے چار سو منڈلاتی نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پارلیمان میں آج بھی اکثریت زمینداروں‘ جاگیرداروں‘ سرمایہ کاروں‘ وڈیروں‘ قبائلی سرداروں اور صاحب ِجاہ و حشمت افراد کی ہے جو عوامی خدمت کے جذبے سے ''سرشار‘‘ ہو کر کروڑوں روپے کے اخراجات پر مبنی اپنی الیکشن کیمپین کامیابی سے چلا کر منتخب ہو جاتے ہیں اور صوبائی اور قومی سیاست میں سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ تقریباً یہی طرزِ سیاست ہمیں عالمی سطح پر بھی ملتا ہے اور لگ بھگ طاقت کے توازن کے یہی اصول و ضوابط ہمیں بین الاقوامی سیاست کے ایوانوں میں رائج نظر آتے ہیں۔ اگر آپ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو دنیا دو بڑے چوہدریوں میں تقسیم نظر آئے گی جس میں مغرب کی قیادت‘ وہاں کے سب سے بڑے چوہدری نے ازخود اپنے ہاتھ میں لے کر پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ‘ عالمی امن ِ عامہ کی پائیدار تشکیل اور انسانی حقوق کی علانیہ علمبرداری کے نعرے لگائے اور اس منشور کو طول و عرض میں عام کرنے کیلئے اپنے ہم خیال ممالک کو اپنے ساتھ ملایا اور اپنی اطاعت‘ فرمانبرداری اور غلامی کیلئے کئی چھوٹے ممالک کو قائل یا مجبور کر کے دنیا میں اپنی حکمرانی کو ثبت کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ دوسری طرف مشرق میں دوسرے بڑے چوہدری نے کمیونزم کا نعرہ بلند کر کے سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفے کو للکارا اور سیاسی‘ معاشی اور عسکری تمام شعبوں میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے ''اپنے خاص بندوں‘‘اور حلیف ممالک کی دل کھول کر امداد کی۔ یوں 1945ء میں شروع ہونے والی دو بڑے چوہدریوں کے درمیان اس سرد جنگ کے نتیجے میں دنیا بھرمیں بالواسطہ درجنوں خونریز لڑائیاں ہوئیں‘ قیمتی جانی و مالی نقصان ہوا‘ لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بنے‘ جنگیں ہوئیں اور بالآخر فیصلہ کن معرکہ افغانستان میں لڑا گیا جس کے نتیجے میں 1990ء میں مشرقی چوہدری نے سفید جھنڈا لہرا کر مغربی طاقت کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال کر دنیا میں اسے واحد سپر پاور تسلیم کر لیا۔ یوں وہ ایک اکیلا چوہدری پوری دنیا کے ممالک کو اپنا رحما‘ گاما‘ احما سمجھ کر ایک ہی لاٹھی سے ہانکتا رہا اور سیاسی و معاشی طور پر کمزور دیگر ممالک اس کے سامنے دست بستہ ''جی جی چوہدری صاحب‘‘ کہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے رہے۔ جس کسی نے اس کی اطاعت‘ غیر مشروط فرمانبرداری اور علانیہ تابعداری میں تامل برتا‘ غفلت کی یا گستاخی کا ارتکاب کیا ‘اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔
22 اور 23 مارچ کوا سلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی پاکستان نے کی جو یقینا پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان اب دنیا کے واحد ''چوہدری صاحب‘‘ کی جی حضوری سے نکل کر مشرق میں اپنے حلیف تلاش کر رہا ہے‘ جس میں اسے اپنے ایک ہمدم ِدیرینہ کی اعانت حاصل ہے جو غیر محسوس طریقے سے خود ایک ''وڈاچوہدری ‘‘بن چکا ہے۔ اب اس نئی شیرازہ بندی میں دو بڑے چوہدریوں کے درمیان ٹھن گئی ہے اور عالمی سیاسی نظام میں دوبارہ سرد جنگ نمایاں نظر آرہی ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان نے اسی بڑی مغربی طاقت کے سامنے ''جی جی چوہدری صاحب‘‘ کی بجائے ''ہر گز نہیں‘‘ کے الفاظ بھی کہہ ڈالے۔ میرے محسن و مربی دانشور پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی یہ کہتے ہیں کہ اس ''گستاخی ‘‘کے سبب پاکستان سے ''وڈا چوہدری ‘‘ ناراض ہے اور اس کی ناراضگی کی کچھ علامات نمایاں ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ باقی واللہ اعلم !

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں