قدرتی حسن کے محافظ

تھکا دینے والی شہری اور مصروف زندگی سے تنگ لوگ وقت ملتے ہی دوستوں اور فیملیز کے ساتھ سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ فرصت کے لمحات کو بامقصد اور خوشگوار بنانا بھی ایک آرٹ ہے۔ لانگ ویک اینڈ ہو یا کسی تہوار کے باعث تعطیلات‘ پر فضا شمالی علاقوں میں سیاح جوق در جوق امڈ آتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے یہ رجحان کافی بڑھا ہے۔ سوشل میڈیا اور سڑکوں کی تعمیر و ترقی کے باعث سفری آسانیاں بھی نسبتاً بہتر ہوئی ہیں۔ بلاشبہ صاف شفاف اورآلودگی سے پاک فضا میں تازہ آکسیجن سانسوں کی تازگی اور فرحت کا ذریعہ بنتی ہے۔ بل کھاتی لہراتی سڑکوں پر تیز رفتار گاڑیوں میں لگتا ہے درخت‘ پہاڑ اور راستے پیچھے کو چل رہے ہوں۔ بچپن میں یہ راستے اور بھی اچھے لگتے ہیں۔ سیاحت، کھیل اور ثقافتی سرگرمیاں دراصل علاقوں‘ لوگوں اور مقامات کو قریب لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ سفر میں مختلف علاقوں کی تہذیب و تمدن، ثقافت، موسیقی، دستکاری، مصنوعات اور مقامی افراد کی مجموعی سوچ اور معاشی حالات کو قریب سے مشاہدہ کرنے‘ سمجھنے‘ محسوس کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ سادگی، محنت اور جفا کشی فطری طور پر پہاڑی علاقے کے لوگوں کے مزاج اور ان کی زندگیوں کا جزوِ لازم ہوتی ہے۔ جب بھی پہاڑوں کی سیر پر جانے کا فیصلہ کریں،وہاں کے موسموں، لوگوں، مشہور سوغاتوں، غذا اور طرزِ تعمیر پر ضرور غور کریں۔ اس سے تفریح کے ساتھ ساتھ سیکھنے، پرکھنے اور معاشرتی ہم آہنگی، میل جول بڑھانے اور قومی یکجہتی کا مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے۔
شمالی علاقوں کے علاوہ بلوچستان میں کوئٹہ، زیارت اور پیر کوہ منفرد قبائلی ثقافت، پھلوں کے باغات اور نایاب ہزاروں سال پرانے صنوبر کے جنگلات، سنگلاخ پہاڑوں اور چٹانوں میں بہتے قدرتی شفاف چشمے، جھرنے، آبشاریں اور انٹرنیشنل پانیوں میں گوادر پورٹ کی اہمیت مسلمہ حقیقت ہیں۔ لاکھ شکوہ کریں مگر قدرت نے دل کھول کر پاکستان کو حسن اور خوبصورتی سے نوازا ہے۔ یہ ملک بجا طور پر سیاحوں کی جنت کہلانے کا حقدار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیاحت کو صنعت کادرجہ دیں‘ سیاحتی مقامات کی تشہیر‘ رہائشی سہولتوں، محفوظ اور پُر امن ماحول کی فراہمی، حادثے اور ایمرجنسی کی صورت میں طبعی امداد اور ریسکیو ٹیموں کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔ سیاحوں اور کنزیومرز کے حقوق اور مفادات کیلئے تنظیموں کا قیام بھی ضروری ہے۔ قدرتی آفات اور اچانک بدلتی موسمی صورتحال سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل اور نظم و ضبط کی پابندی کرانے کیلئے مقامی اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین بھی اہمیت کا حامل ہے۔ موسم سرما میں مری میں برفانی طوفان سے پیش آئے سانحے سے ہم سب کو سیکھنا چاہئے۔ یوں تو ملکی آبادی کا 5سے 7فیصد طبقہ ہی سیاحت اور تفریحی سرگرمیوں کو اپنی زندگی کی ترجیحات میں جگہ دیتا ہے جبکہ دیگر اس کو لازمی نہیں سمجھتے۔ سبب کچھ بھی ہو، اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جنہوں نے اپنی پوری زندگی سیر و سیاحت کی غرض سے ایک آدھ ہی سفر کیا ہو گا۔ ترقی یافتہ اقوام جہاں محنت اور تحقیق و جستجو کو اہمیت دیتی ہیں‘ وہاں وہ یکسانیت اور جمود کو پسند نہیں کرتیں۔چھٹیاں گزارنے کیلئے وہ وسائل کو بروئے کار لاتی ہیں اور ہر سال نئی منزلیں اور مسافتیں ان کا مقصود ٹھہرتی ہیں۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ رویوں کا ہے۔ مجموعی طور پر ایک ڈسپلنڈ قوم کا تاثر اور مظاہرہ کرنے میں ہم اب تک ناکام رہے ہیں۔
ہم شمالی علاقوں کے حسن اور خوبصورتی کے دلدادہ ضرور ہیں۔ سرسبز وادیاں، گھنے قدرتی جنگلات،مبہوت کر دینے والی وادیاں اور باغات دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر دیتے ہیں۔قدرت کے نظارے اور دلکش مناظر حیران کر دیتے ہیں۔ اس بیش قیمت قدرتی حسن کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھنا اور اس کے تحفظ کی خاطر تمام اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن ہم اپنی عادات و اطوار کے باعث جانے انجانے میں خود ہی اسے تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ پہاڑ ہوں یا دریا، جھیلیں ہوں یا جھرنے، آبشاریں ہوں یا چشمے، پلاسٹک کی بوتلیں، شاپنگ بیگز، چیزوں کے ریپرزاور بچوں کے ڈائپرز وغیرہ ہر جگہ آلودگی اور گندگی کا سبب بن کر ہمارا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کے بعد باقیات کو ڈسٹ بن میں ڈالنا معلوم نہیں ہمارے لیے کیوں دشوار ہو جاتا ہے۔ جھیل سیف الملوک ہو یا لولوسر، بنجوسہ جھیل ہو یا دریائے نیلم، جہلم، کنہار،سوات یا کوئی بھی ندی، نالہ ہو‘ آلودگی سے کچھ بھی بچا ہوا نہیں ہے۔ ساحلوں کو دیکھیں یا تفریحی پارکس کو، انسان اپنے ہاتھوں ہی اپنے ماحول کو خراب اور تباہ کر رہا ہے۔ اہم مسئلہ بھیڑ چال ہے، سب ایک ہی طرف دیکھا دیکھی چل پڑتے ہیں۔ نئی اور نسبتاً کم رش والی جگہوں کا انتخاب کیا جائے تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ انتہائی پڑھے لکھے،خاص طور پر ہنزہ کے رہائشی اپنی زندگی اور علاقے کی ثقافت اور منفرد تہذیب کیلئے فکر مند ہیں۔ بے شمار گاڑیاں جب پہاڑی علاقے میں داخل ہوتی ہیں تو فطرت کا توازن اور درجہ حرارت تبدیل کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیرز پگھلنے لگتے ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی کیفیت آبادیوں کو خطرات سے دو چار کرتی ہے۔ غیر منظم ٹریفک کے ساتھ‘ ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز کی بے ہنگم تعمیرات بھی قدرتی ماحول کو لاحق خطرات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ روایتی لکڑی کے جھروکوں کی جگہ کنکریٹ، لوہے اور سیمنٹ سے بنائی جانے والی بے شمار عمارات نے لے کر دریائوں کے کنارے آلودہ اور خشک کر دیے ہیں۔مقامی ہوٹلوں اور آبادیوں کے سیوریج کا پانی دریائوں کو آلودہ کر رہا ہے۔ محکمہ جنگلات کی ناک کے نیچے درخت کاٹ کر انسانوں کے جنگل آباد ہو رہے ہیں۔
اگر سیاحت کو صنعت کا درجہ دے کر اس کیلئے جامع حکمتِ عملی بنائی جائے تو شمالی علاقوں کے لوگوں کے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ زرِ مبادلہ کی صلاحیت بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ ہمارے ملک میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیاں ہیں جنہیں سر کرنے سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہ پہاڑی سلسلے دنیا بھرکے کوہ پیمائوں کیلئے کشش کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں بلکہ سینکڑوں تاریخی قلعے۔ دراوڑ، لاہور، روہتاس، اٹک، خپلو، شگر، منرو‘ عباس فورٹ وغیرہ۔ اگر خپلو اور شگر فورٹس کی طرح دیگر قلعے بھی پرائیویٹ ہوٹلز کولیز پر دیے جائیں تو سیاحوں کو رہائش اور دیگر آرام دہ سہولتیں میسر آئیں گی جبکہ قلعے کی تعمیر و مرمت اور دیکھ بھال کے علاوہ رابطہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر بھی اپنی مدد آپ کے تحت یقینی ہوجائے گی۔ سعودی عرب،ایران، عراق اور شام مذہبی اور مقدس مقامات کی سیروسیاحت سے کثیر زرِ مبادلہ کما رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں سکھوں کے تین مقدس ترین مقامات موجود ہیں۔ ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب اور کرتارپور صاحب‘ اس کے علاوہ کٹاس راج کے مندراور سوات میں بدھ ازم کی یادگاروں سے ہم ملکی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔ اسی طرح گندھارا تہذیب کے آثارِ قدیمہ، سوات، پشاور، ٹیکسلا اور وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب‘ ٹھٹھہ اور موہنجو دڑو کو سیاحوں کیلئے پرکشش بنایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو ملک گیر سطح اور سوشل میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر مہم چلانا ہو گی۔ آبی آلودگی ہو یا ایکو سسٹم کے مسائل‘ غیر قانونی اور بے ہنگم تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کو سمجھنا اور ان کے حل کے لیے لانگ ٹرم، شارٹ ٹرم اصلاحات متعارف کروانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ سیاحت کے اصول و ضوابط، ذاتی تحفظ اور موسموں کی شدت،درجہ حرارت اور امن و امان کیلئے عوام کو متعلقہ ادارے ذرائع ابلاغ کے ذریعے بروقت آگاہ کریںتاکہ نہ صرف عوام میں ذمہ دارانہ رویوں اور اجتماعی شعور کو اجاگر کیا جا سکے بلکہ سیر و سیاحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ اپنے تفریحی مقامات کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ موسم گرما کی تعطیلات شروع ہونے کو ہیں۔ کیا آپ اس مرتبہ قدرتی حسن سے مالامال شمالی علاقوں کی سفر کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کیا آپ قدرتی حسن کے محافظ بن کر بطورِ ذمہ دار شہری اس اجتماعی قومی شعور کی تحریک کو آگے بڑھانا پسند فرمائیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں