ملت کے مقدر کا ستارہ

پچھلے دو‘ ڈھائی برسوں میں کووِڈ 19 نے پوری دنیا کو تنہائی، جدائی اور یکسانیت کے ساتھ ساتھ خوف، بیماری اور موت سے لڑ کر جینا بھی سکھا دیا۔ ہر خطے اور ملک کا معاشی اور سماجی رابطہ باقی دنیا سے کٹ گیا تھا۔ ہر شخص کورونا وائرس سے اذیتناک اور بھیانک موت کے خوف سے ذہنی اور نفسیاتی طور پر الجھن میں مبتلا رہا۔ خوف و ہراس کے سائے ہر طرف چھائے رہے۔ دنیا بیروزگاری اور اقتصادی بحران میں مبتلا ہو کر مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں تعطل سے پریشان رہی۔ ترقی یافتہ معاشرے بھی‘ جہاں کی اقتصادی حالت مستحکم اور سماجی خدمت کے ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بہت مربوط ہیں‘ اس ناگہانی صورتحال سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہوئے۔ ہمارے جیسے کم وسائل رکھنے والے ممالک کیلئے بھی چیلنجز بہت گمبھیر اور پیچیدہ تھے۔ ویکسین کی فراہمی اور خریداری تو ایک طرف‘ معاشرتی اقدار، روایات اور بے بنیاد افواہوں کے توڑ کیلئے بھی ہمیں سوشل ورکرز، میڈیا، مذہبی اور سماجی تنظیموں سے مدد درکار رہی۔ قوموں کی زندگیوں میں جب کوئی بڑی مشکل آتی ہے تو لوگوں کو مشکلات حل کرنے اور ان کو قابو میں لانے کیلئے بھی آگاہی دی جاتی ہے۔ دنیا آج کل انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا آیا ہو کہ کوئی خوشگوار خبر میسر رہی ہو۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی مثبت اور حوصلہ افزا بات سنائی دے جو پاکستانی قوم کے لیے فخر کا باعث ہو اور قوموں کی برادری میں پاکستان کی عزت و تکریم اور وقار میں اضافہ کرے تو ایسی کیفیت پیاسی دھرتی کے جھلستے صحرا پہ بارش کی ٹھنڈی بوندوں کی طرح ہے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں قدرتی وسائل، حسین و دلکش فطرت سے نوازا ہے، یہاں کے لوگ بھی انتہائی ذہین اور صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ خاص طور پر تیس برس سے کم عمر نوجوانوں کی تعداد مجموعی ملکی آبادی کا 35فیصد ہے۔ ایسے میں اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ ابتدا ہی سے طلبہ و طالبات کو تعلیمی، ادبی اور سائنسی علوم و فنون کی تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع مہیا کیے جائیں۔ اکیسویں صدی کی مہارتیں مثلاً مؤثر طرزِ تکلم، سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت، تخلیق و جستجو، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی مہارت اور دیگر زبانوں کو سیکھنے اور سکھانے کی اہمیت کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ دنیا سمٹ کراب مزید قریب آگئی ہے۔ اب ترقی یافتہ ممالک پوری دنیا سے بہترین دماغ اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں اور نت نئے اچھوتے نظریات اور تصورات سے استفادہ کرنے کیلئے پوری دنیا‘ خا ص طور پر تھرڈورلڈ اور کم مالی سہولتوں والے ملکوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو مدد فراہم کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے پلیٹ فارم اور وسائل دستیاب کرتے ہیں۔
فوربزمیگزین ہر سال تیس برس سے کم عمر کے کامیاب افراد کی فہرست شائع کرتا ہے جس میں لکھاری، سوشل ورکرز، ڈیزائنرز اور کاروبار کے فروغ کیلئے منفرد انداز میں خدمات دینے والے افراد شامل ہیں۔ اس سال بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے اس فہرست میں اپنی جگہ بنائی اور اپنے اپنے شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بین الاقوامی سطح پر منوایا۔ دُرِ عزیز آمنہ ایک پاکستان نژاد امریکی مسلمان ہیں جن کی زندگی امریکی ریاست اوریگن کے ایک دیہی علاقے میں گزری۔ انہوں نے 'امریکن فارایور‘ کے نام سے ایک ناول تحریر کیا جس میں اپنی اور دوسروں کی زندگی کے تجربات کو بہت عمدہ انداز سے بیان کیا۔ اس کی ریلیز کا وقت اگست میں مقرر ہوا۔ الجزیرہ‘ نیو یارک ٹائمز اور فنانشل ٹائمز میں اس کو بھرپور پذیرائی ملی۔ ایک اور ہونہار نوجوان زین احمد نے پاکستانی وسائل اور ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی سٹریٹ ویئر فیشن کو راستہ کے لیبل سے متعارف کرایا۔ ان کے تخلیق کردہ ڈیزائنز کو کئی فیشن آئیکون بشمول بالی وُڈ سٹار کرن جوہر اور آسکر جیتنے والے پاکستانی نژاد امریکی اداکار رِض خان نے دل کھول کر داد دی۔ تیسرے نوجوان محمد سلمان نے ایک ٹیگ سٹارٹ کی بنیاد رکھی جو مینو فیکچررز اور برآمدن کنندگان کو ٹرکوں اور نجی بحری جہازوں کے برج لنکس اَپ کے ذریعے جوڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کار گو سیفٹی کے ساتھ بروقت پک اپ کو یقینی بناتا ہے۔ فوربز کے مطابق اس نے اپنے آغاز کے بعدصرف نوماہ میں دس ملین ڈالر کا ریونیو کمایا۔ اسی طرح شوانہ شاہ نے سوشل ورکر کی حیثیت سے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جس کا مقصد ایسی عورتوں، بچوں، نوجوان لڑکیوں اور ٹرانس جینڈرز کو‘ جو صنفی اور جنسی بنیاد پر تشدد کا شکار رہیں‘ سماجی، معاشرتی اور معاشی مدد فراہم کرنا ہے۔ 2016ء میں شوانہ کو محمد علی ہیو مینٹی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ پہلی ایشیائی خاتون ہیں جو اس ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں۔ فوربزکی ویب سائٹ کے مطابق پالیسی اصلاحات کی وکالت کرنے والی خواتین ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے بارے میں لٹریسی ورکشاپس اور ٹیلی کونسلنگ کی میزبانی بھی کرتی رہیں۔ خدمت کے جذبے سے سرشار اس قابلِ فخر بیٹی نے خواتین میں حفظانِ صحت کی کٹس بھی تقسیم کیں۔
ان ہونہار نوجوانوں نے اپنے اپنے شعبوں میں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے ان کی افادیت ان کے مادرِ وطن کے علاوہ دیگر معاشروں کیلئے بھی مفید، قابلِ عمل اور آزمودہ ہے۔ اس طرح کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوان ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں جو مختلف تخلیقی، ادبی، فنون لطیفہ، آرٹس اور کمپیوٹر ایکسپرٹس ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں مواقع فراہم کیے جائیں اور کیریئر کونسلنگ پروگرام متعارف کرانے کا انتظام ہو تاکہ بچے جدید دور کے تقاضوں (انٹرپنیورشپ) کو سمجھ سکیں اور چین، انڈیا، ملائیشیا، سنگاپور اور دیگر ممالک کی طرح اسے سمجھ سکیں۔ وہ روایتی تعلیمی نظریات اور شعبہ جات سے ہٹ کر‘ نئے تصورات سے متعلق آئوٹ آف دی باکس سوچیں اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی مشق کریں۔ رسک لیں، خول کو توڑ کر اپنے اندر جھانکیں‘ نہ صرف خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کریں بلکہ خود شناسی، خود اعتمادی اور خود اعتباری کے سفر کو نکلیں۔ دنیا ان کے کام کو سراہے گی اور یہ دمکتے ستارے اس ضو فشانی سے اپنی زندگی کو نکھارنے کے ساتھ اہلِ وطن کی عزت و تکریم اور نام کو بھی روشن کریں گے۔
بلاشبہ ہم ایک زرعی ملک ہیں مگر بدقسمتی سے اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اس میں ناکام ہیں۔ روایتی انداز کی کاشتکاری اور سوچ نے ہمیں سبزیوں، پھلوں کی جدید اقسام، عمدہ و معیاری بیجوں اور مائیکروایریگیشن سسٹم کی آگاہی سے کوسوں دور رکھا ہے۔ کھادوں کی فراہمی، کیڑے مار ادویات کے استعمال سے مؤثر جدید زراعت کو فروغ مل سکتا ہے۔ ہمارے دیہات میں بسنے والے بچے‘ جو کسی سبب روایتی تعلیم سے آراستہ نہیں ہو پاتے‘ انہیں جدید زراعت کے شارٹ کورسز کرائے جائیں۔ چھوٹی چھوٹی مزدوری کرنے اور خلیجی ممالک میں جان توڑ محنت کے بجائے ہمارے نوجوان اپنی زمینوں پہ نقد آور فصلیں اگا کر اچھا خاصا منافع کما سکتے ہیں۔ وہ منڈیوں تک خود رسائی حاصل کریں، اجناس کو آڑھتی کے ہاتھوں بیچنے کے بجائے سبزیاں، پھل اور اناج خود برآمد کریں۔ اسی کو انٹر پنیورشپ کہتے ہیں۔ خود انحصاری کے ساتھ اور اپنے ساتھ دیگر لوگوں کے روزگار کا بھی ذریعہ بنیں۔ ملکِ عزیز میں آج خالص دودھ کا حصول خواب بن چکا ہے۔ اسی طرح گوشت‘ خالص دیسی غذا ‘ دودھ وغیرہ کی پیداوار کے علاوہ پیکنگ اور سپلائی چھوٹے پیمانے پر شروع کر کے اپنے اپنے علاقوں میں مہیا کرنے کا کام کریں۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے دو یا تین دن کی میعاد کی پیکنگ میں ڈیری مصنوعات محفوظ رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ہم وہ ماڈل فالو کر سکتے ہیں۔ ہر چیز میں حکومت پر انحصار کا نہ سوچیں۔ آگے بڑھیں‘ یہی اپنی صلاحیتوں اور قسمت کو آزمانے کا وقت ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو فلک پر روشن ستارے بن کر چمکنا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے 'ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘ کی بات کی ہے۔ پاکستان میں بے پناہ جذبہ، بصیرت، بصارت اور محنت کش نوجوان نسل موجود ہے۔ ضرورت صرف اسے راستہ دینے اور موقع فراہم کرنے کی ہے تاکہ ان کی سرپرستی کر کے انہیں ملت کے مقدر کا ستارہ بنایا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں