ہوم ورک

بچے دنیا کی رونق ہیں۔ ان کی خوبصورتی کی وجہ ان کی معصوم باتیں‘بے ساختہ حرکات اور شرارتیں ہیں۔ گھروں میں شور شرابہ، چھوٹی چھوٹی لڑائیاںاور کھیل کود میں مصروف‘ خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرتے بچوں کی تعلیم و تربیت بہت نازک اور نہایت مشکل کام ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ مشترکہ خاندانی نظام میں بچے اپنے بڑوں سے غیر محسوس طریقے سے آدابِ گفتگو، معاشرتی اقدار، میل جول اور رکھ رکھائو سیکھ لیتے تھے اور خود بخود اس سانچے میں ڈھلتے جاتے تھے۔ بیرونی دنیا میں بھی ان اقدار اور روایات کی پاسداری کا رواج تھا۔ بہت کم ایسا دیکھنے کو ملتا کہ کسی گھر میں بے جا سختی اور روک ٹوک کے سبب بچوں میں اضطراب، بے قراری یا متلون مزاجی دیکھنے کو ملے۔ بدلتے زمانے اور اس کی مجموعی کیفیات کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم و تربیت مزید حساس اور سنجیدہ معاملہ بن گئی۔ اب ترجیحات بدل گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سچائی، سادگی اور فطرت کی جگہ مصنوعی طرزِ حیات سے سامنا ہو گیا۔ بلاشبہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ گھر میں رہنے والے افراد، ان کے رویے، عادات و معمولات بچے پر براہِ راست اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر بچہ پر سکون ماحول میں بہتر نشو و نما پائے گا تو اس کی جسمانی ساخت، ذہنی و نفسیاتی صحت بہتر ہو گی۔ اس میں خود اعتمادی، خوشی، بے ساختگی اور خلوص جیسے اوصاف پنپ سکیں گے۔اس کے طرزِ عمل میں فطری سادگی اور سچائی نمایاں ہو گی۔ وہ خوف اور دبائو سے آزاد ہو گا تو اس کی اہلیت اور قابلیت بڑھے گی۔ خوف اور دبائو میں بچے سوچنے سمجھنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ خوفزدہ بچہ کبھی آزادی سے اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کر سکتا۔ اس کو خود پر یقین نہیں ہوتا۔ مسائل کے حل کیلئے فیصلہ لینے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ بچہ ماں باپ‘ دونوں کو یکجا دیکھتا ہے۔ اگر والدین میں جھگڑا ہوتا ہو‘ مار پیٹ، چیخنا چلانا، بدتمیزی، گالی اور غیر مہذب زبان کا استعمال ہوگا تو بچہ کنفیوژن کا شکار ہو کر عدم تحفظ اور تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔ احساسِ محرومی اوراحساسِ کمتری کے سبب والدین سے بھی دور ہو جائے گا۔ بچوں کا کبھی بھی آپس میں یا خاندان کے دیگر بچوں یا کلاس فیلوز اور دوستوں سے موازنہ نہ کریںاور نہ نمبروں کی دوڑ میں رٹا نہ لگا سکنے پر زیرِ عتاب لائیں۔ ہر بچہ ایک جیتا جاگتا حساس فرد ہے۔ اس کی الگ پہچان، شناخت اور خصوصیات ہیں جو اسے دیگر بچوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اساتذہ ہوں یا والدین، فیملی ہو یا معاشرہ‘ بحیثیت مجموعی اپنی ذمہ داری نبھانے سے ہی ایک بچہ محفوظ اور نارمل انسان بن سکتا ہے۔
بچوں کی زندگی میں سکول کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے جو انہیں سحر خیز، نظم و ضبط، وقت کی پابندی ،چست وچوبند اور ذمہ دار بناتا ہے۔ وہ مختلف مہارتیں، زبانیں اور مضامین سیکھتے ہیں۔ تقریباً دس مہینے بھرپور تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اچانک گرمیوں کی چھٹیوں کا وقفہ آ جاتا ہے تو زندگی ڈگر سے اتر جاتی ہے۔ چھٹیاں اور ہوم ورک‘ دو متضاد الفاظ ہیں۔ جب چھٹیاں ہیں پھر ہوم ورک کیسا؟ اوپر سے والدین کا پریشر کہ ''کام کر لو‘‘۔ زمانہ بدلا تو ہوم ورک کے انداز بھی بدل گئے۔ ایک چیز جو تبدیل ہو گئی ہے اور بڑی نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے‘ وہ ہمارا طبقاتی نظامِ تعلیم اور سکول کا کلچر ہے۔ اگر کسی مہنگے سکول کی چین میں بچہ داخل کروانے کی استطاعت ہو گی تو اس کی تعلیمی و تربیتی اور تفریحی سرگرمیوں کا دائرہ کار بھی وسیع اور گہرا ہو گا۔ ان سکولوں میں سمر کیمپس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ بچوں کو سرگرمیوں اور کھیل کھیل میں مختلف چیزیں سکھانے کیلئے اساتذہ ہوم ورک پلان کرتے ہیں۔ ورک شیٹس اور ایکٹوٹی بکس بازار میں دستیاب ہیں اور ساتھ میں مینوئل بھی میسر ہیں۔ کورونا کے دنوں میں والدین بھی ٹیچر بن گئے تھے۔ بچوں کا نصاب مائوں کو بھی سمجھ میں آگیا اور سکولوں کے ساتھ ان کا رابطہ بھی گہرا ہوا۔ کمپیوٹنگ، مختلف ایپس، مشین لینگویج اور میکانزم کو سمجھنے میں بھی والدین اور اساتذہ باہم جڑے رہے۔ کچھ سرگرمیاں متاثر بھی ہوئی تھیں جو اس سال سے دوبارہ ممکن ہوگئی ہیں۔ سوئمنگ، مارشل آرٹس کے ساتھ میوزیم اور تفریحی مقامات کے وزٹس بھی سمر کیمپس کا حصہ ہوتے ہیں۔ بیڈمنٹن، کرکٹ اور ٹیبل ٹینس وغیرہ کی پریکٹس کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔
سمر کیمپس اٹھارہویں صدی میں امریکا میں شروع ہوئے تھے۔ مقصد بچوں کو اپنی تہذیب اور ثقافت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ یہ کیمپس ریذیڈینشل ہوتے ہیں۔ ہفتے‘ دس دن کے لیے بچے گھر سے باہر رہ کر خود کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی بنیادی مہارتیں مثلاً صفائی، فرسٹ ایڈ، کھانا پکانا، برتن صاف کرنا، دوسروں کے مسائل کو سمجھنا، محسوس کرنا، مدد فراہم کرنا اور اپنے اندر کی کمزوریوں اور فوبیا وغیرہ پر قابو پانے کی کوشش کرتے تھے۔ بعدازاں دیگر ممالک نے اس تصور کو اپنے اپنے علاقوں اور تمدن کے مطابق اپنایا۔ پاکستان میں ایسا کم ہی نظر آتا ہے۔ اکثریت اس قسم کی سہولتوں سے محروم ہے کیونکہ سرکاری اور دوسرے‘ تیسرے درجے کے پرائیویٹ ادارے روایتی انداز ہی میں تعلیم و تدریس مہیا کررہے ہیں۔ وہاں ابھی تک طرح بچوں کو لکھنے اور زبانی یاد کرنے کا ہوم ورک دیا جاتا ہے جو بچوں کی ساری چھٹیوں کے دوران انہیں دبائو میں رکھتا ہے۔
جب ہوم ورک پلان کیا جائے تو اس بات کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غیر روایتی ہو۔ نصاب وغیرہ کو لکھنے اور یاد کرنے کی افادیت اپنی جگہ مگر والدین بچوں کا جینا عذاب نہ کریں۔ ہوم ورک کا خوف ان سے چھٹیوں کی خوشیاں نہ چھین لے۔ ایک طرف بھاری فیسوں کے ساتھ پر کشش سمر کیمپ پلانز گھروں میں بھیج دیے جاتے ہیں اور بچہ سکول جانے کی روٹین ہی میںرہتا ہے۔ دوسری طرف سرکاری اداروں میں روایتی انداز میں درسی کتب سے دیکھ کر لکھنے کا کام دے دیا جاتاہے۔ اب تو مختلف گائیڈز اور ماڈل پیپرز بنا کر ہوم ورک کو اتنا بے مقصد بنا دیا گیا ہے کہ بچے کو سوچنے سمجھنے ، مشاہدہ کرنے اور تحقیق و جستجو کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اگر مختلف غیر روایتی طریقوں سے بچوں کو سیکھنے کی آگاہی دی جائے تو وہ اسے بوجھ نہیں سمجھیں گے اور دانستہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر غور و فکر کریں گے اور اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کرنے کے قابل ہوں گے۔ بچوں کو سائنس‘ ریاضی اور جغرافیہ کے ماڈلز بنانے کا کام دیں۔ اسلامی تاریخ اور قرآن پاک ناظرہ و ترجمہ کو روزانہ لازم کریں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ جنرل نالج اور روز مرہ کے مسائل‘ چاہے ملکی ہوں یا بین الاقوامی‘ کے حل سے متعلق تجاویز بچوں سے لازمی لکھوائیں۔ کلاسوں میں بحث کروائیں۔ رٹے رٹائے جملوں کے بجائے بچوں کو جملہ سازی کی مشق اور اصول سکھائیں تا کہ وہ مستقبل میں خود شناس اور پر اعتماد ہو سکیں۔ والدین کو بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھنا چاہیے، ان کو موبائل فون اور کمپیوٹر گیمز سے بچائیں۔ صرف ایسی ایپس‘ جو تعلیم و تحقیق اور سیکھنے میں مددگار ہوں‘ کو استعمال میں لائیں۔ بچوں کے ساتھ بیٹھیں اور مختلف موضوعات پر گفتگو کریں‘ انہیں سنیں اور سمجھیں۔ ان کی جائز خواہشات کو ضرور پورا کریں مگر سادگی اور صبر کی بھی تلقین کریں۔
میں کالم کی آخری سطور لکھ رہا تھا کہ اچانک میرے روحانی پیشوا پروفیسر رحمت علی اپنے ہونہار شاگرد جیدی میاں کے ہمراہ تشریف لائے اور کالم کے موضوع کے بارے استفسار کیا۔ عرض کی: ''ہوم ورک‘‘ پر لکھ رہا ہوں۔ فرمانے لگے کہ اگر ہم اپنے بچوں کے ہوم ورک کے نصاب میں محض لکھنے پڑھنے اور رٹا لگانے کے بجائے فکری پختگی، روحانی بالیدگی، اور اخلاقی اقدار کو شامل کر لیں تو ہم انہیں اچھے طلبہ کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی بنا سکتے ہیں۔ ہم نے ہوم ورک کے مفہوم کو آج تک اس کے اجمالی پہلوئوں میں سمجھا ہی نہیں۔ وہ اچھے طالب علم تو بن گئے‘ اپنے شعبوں میں ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، اکائونٹنٹ، سرکاری افسر اور کاروباری شخصیت کے طور پر بھی اپنی پہچان بنا گئے مگر اچھے شہری نہیں بن پائے جس کی وجہ سے آج معاشرے میں حرص و ہوس کا بازار گرم ہے۔ لوٹ کھسوٹ ہے اور اخلاقی پستی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ اسد میاں! اصل ہوم ورک زمانہ طالب علمی کے بجائے عملی زندگی میں شروع ہوتا ہے جس کا حساب کتاب ہمارے خالق نے ہم سب سے لینا ہے۔ کیا اُس ''ہوم ورک‘‘ کی بھی کسی کو فکر ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں