حصارِ ذات سے آگے

فطری طور پر انسان اپنے آپ کو احترام کے لائق سمجھتا ہے کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے توقع کرتا ہے کہ حرمتِ ذات کا احساس اور خیال رکھا جائے۔ نازیبا، توہین آمیز اور متکبر رویے کوئی برداشت نہیں کرتا۔ زندگی ایک قیمتی تحفہ ہے۔ سادہ، پاکیزہ اور اخلاقی قدروں کی بنیاد پر استوار باعزت زندگی ہم سب کا خواب ہے۔ اگر معیارِ زندگی بہتر ہو تو لوگوں میں خود اعتمادی بڑھے گی۔ خود اعتمادی وہ قدر ہے جو افراد اور ان کی صلاحیتوں سے منسوب ہوتی ہے اور فردِ کامل کا جوہر بھی خود اعتمادی اور خود شناسی میں پوشیدہ ہے۔ ہم سب کی اپنی رائے ہوتی ہے اور اولین خواہش بھی کہ لوگ ہماری بات کو سنیں، سمجھیں اور سراہیں۔ ہمیں ہر موضوع پر‘ چاہے سیاست ہو یا ریاست، قومی و بین الاقوامی مسائل ہوں، عالمی تعلقات‘ یا دنیا کے دیگر مسائل، رائے زنی کا شوق ہوتا ہے۔سننے کے بجائے اپنا موقف بیان کرنا ہماری اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم خود کو کتنا سمجھ پاتے ہیں ؟ اپنی قدر کو پہچاننے کی ضرورت ایسے ہی ہے جیسے سانس لینے کیلئے آکسیجن کی۔ سر اٹھا کر جینے کیلئے ضروری ہے کہ ہم خود کو کیا اور کس حیثیت کا مالک سمجھتے ہیں۔ اپنی نگاہوں میں ہماری اپنی وقعت کیا ہے؟ ہم خود کو کتنے پانی میں سمجھتے ہیں؟ ہماری اپنے بارے میں کیا رائے ہے؟ ہمارے پاس اپنی ذات کی قدر جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟ دراصل یہی عزتِ نفس اور خود شناسی ہے۔ کامیابی اور عزتِ نفس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ ماہر نفسیات اور جدید سائنسی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ سر اٹھا کر خود اعتمادی سے جینے میں ہی کامیابی اور خوشی کا راز پوشیدہ ہے۔ بلاشبہ زندگی ہم سب کو بے حد عزیز ہے اور اس کے تحفظ اور نشو و نما کے لیے ہم سارے وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔ لیکن اگر عزتِ نفس مجروح ہونے کا اندیشہ ہو تو کوئی بھی شخص اس پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔اپنے احترام کی خواہش ہو تو دوسروں کے احترام کا خیال رکھنا لازم ہے۔ باوقار ہونے کیلئے دوسروں کے وقار اور مرتبے کو سمجھنا اور ماننا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے طور پر مغرور، خود پسند، انا پرست، بے حس اور اکھڑ ہو گا تو دوسروں سے عزت و تکریم کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ گزرتے وقت کے ساتھ مادہ پرستی کے غلبے نے معاشرے کو بدل دیا ہے۔ وقار اور عزت کی وجہ معاشی اور معاشرتی مرتبہ بن گیا ہے۔ محنت کشی، سچائی، انسانی عظمت و توقیر، خودداری اور دیانت کے بجائے دولت اور طاقت وجۂ عزت و تکریم بن گئی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ شرافت اور خودداری بہترین اقدار تصور ہوتی تھیں۔ گرتی ہوئی اخلاقی اور تہذیبی اقدار کی وجہ بے اعتدالی اور غیر متوازن رویے ہیں۔ مال و زر کمانے کے ذرائع جائز ہوں یا ناجائز، دولت ہی واحد مقصد ِ زندگی کیا بنا‘ شرافت، رکھ رکھائو، تعظیمِ انسانیت اور قرابت داروں کے حقوق جیسے معاشرتی جذبے اور قدریں دم توڑتے نظر آتے ہیں۔ گھریلو ملازمین، محنت کش مزدور، ریڑھی بان، گارڈ یا چوک میں ٹریفک کنٹرول کرنے والا سپاہی اور اسی طرح کے ہنر مند جن کی شبانہ روز خدمات کے باعث ہم پر تعیش اور بے فکر زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کی ذات کی قدر اور عزت ِ نفس کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم نفس کے غلام بن چکے ہیں نہ کہ فطرت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے سب کو فطرتِ سلیم پر پیدا کیا ہے۔ ہمارے والدین، خاندان، معاشرہ اور معروضی حالات و واقعات ہمارے رویوں کو بنانے اور بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سب کا الگ الگ ماضی، حال اور مستقبل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم باطل راستوں کی مسافت پر اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ ہماری عادات و اطوار میں نفسِ امارہ کی جھلک نمایاں ہو جاتی ہے۔ یہ نفسِ امارہ ہی ہے جس کے تزکیے کی ضرورت ہے۔ ہم آج جھوٹ، بخل، حرص، لالچ، طمع، حسد، کینہ، غفلت، کاہلی، غصہ، غضب اور غرور و تکبر کا شکار ہیں۔
مولانا روم نے ایک حکایت بیان کر کے اس موضوع کی تفہیم آسان کر دی ہے۔ ''اے بندے !تیری عمر گزر گئی عبادات و اعمال کرتے، نیکی اور بھلائی کے راستے پر چلتے ہوئے۔ کچھ تواثر ہوتا تیری طبیعت پر، اخلاق کے سنورنے پر‘ سجدے کرتے کرتے تیری پیشانی پر نشان پڑ گیا۔ سختی نرمی میں بدلی کیا؟ تجھ میں جو دو سخا، صدق اور اخلاص آیا؟ یا مرتبے کی طلب گھٹی؟ یا ''میں‘‘ ہی بڑھتی رہی؟ زبان میں چاشنی آئی؟ خیر کا چشمہ پھوٹا؟ اے بندے! اپنی عمر کا حساب کر، اگر ریزہ ریزہ بھی جمع کرتا تو آج تجھ میں عفوودرگزر ہوتا، تیری زبان سے کوئی دل دکھی نہ ہوتا۔ کبھی سوچا ایسا کیوں ہے؟ وجہ کیا ہے؟ تیرے نفس کے اندر ایک چوہا ہے جو تیری نیکیوں کا جمع شدہ اناج کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہے۔ تیرے من کے اندر بہت قسم کے چوہے ہیں، لالچ کے، حرص کے، انا کے، ضد اور تکبر، غیبت و کدورت کے بھی چوہے ہیں۔ کسی کے من کے اندر کوئی چوہا ہے اورکسی کے کوئی‘‘۔
ہماری زندگیوں میں رزقِ حلال کی بڑی اہمیت اور افادیت ہے۔ خورونوش کی اشیا کو دیکھیں‘ ہر شے ٹھنڈی، گرم یا معتدل، اپنی تاثیر رکھتی ہے۔ ہم جو سوچتے ہیں، پڑھتے ہیں، ناول ہو، کلامِ الٰہی ہو یا سائنسی موضوعات پر ریسرچ‘ ہماری سوچ، نظریے اور نفس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کریم نے حلال اور طیب رزق کو ہمارے لیے پسند فرمایا۔ اگر کبھی سمت غلط ہو جاتی ہے تو ہم اپنا تزکیہ نفس کر کے سنور سکتے ہیں۔ انسانی عقل کبھی بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتی ہے اور سارے جہان کی سیر پر اکساتی ہے۔ اجنبی جہانوں کی طرف اشارہ کرتی ہے مگر انسانی رشتے اور زمین سے تعلق کسی مقناطیسی قوت کی طرح کام کرتے ہیں۔ کششِ ثقل کی صورت، مٹی سے بدن اور روح کے رشتے کو مضبوطی سے جکڑے رکھتے ہیں۔ ہم معاشرتی اقدار اور اصولوں کی پاسداری میں انسانی حقوق و فرائض اور رسم و رواج کی ترویج کے اصول طے کرتے ہیں۔ عدل و انصاف، مساوات اور توازن جسے اعلیٰ و ارفع مقاصد کا تعین کرتے ہیں مگر عملی طور پر ہم ابھی انسانی زندگی کے بنیادی فلسفۂ حیات اور فلسفۂ خودی سے بھی آگاہ نہیں۔
حضرت شیخ سعدی شیرازی ؒ اپنی حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک فقیہ کا بازار سے گزر ہوا، اس نے ایک نوجوان کو شراب کے نشے میں نہایت بری حالت میں زمین پر گرے ہوا دیکھا۔ فقیہ نے نفرت سے منہ موڑ لیا۔ نوجوان بہت دکھی ہوا اور بولا ''اے نیک شخص! تو اللہ کا شکر ادا کر کہ تیری حالت میرے جیسی نہیں ہے۔ نیکی کو اپنا کارنامہ نہ جان اور نہ ہی مغرور ہو۔ اگر قیدی کو دیکھے تو اس کو برا نہ سمجھ بلکہ اپنی آزادی کی قدر کر۔ اے نیک شخص اگر تجھے ایمان کی دولت نصیب ہوئی ہے تو اسے کمال نہ سمجھ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ نیکی میں انسان کا کوئی کمال نہیں بلکہ اللہ کی تجھ پر خاص عنایت ہے کہ تیری بھلائی اور نیکی کی جانب رہنمائی فرمائی۔ اللہ مغروروں اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ سعدی شیرازی نے درست سمت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ کسی کو اس کے رنگ، نسل، لباس، وضع قطع، جسمانی ساخت اور کسی عیب کی بنا پر یا مجبوری کی وجہ سے حقیر سمجھنا انتہائی ناپسندیدہ اور غیر فطری فعل ہے۔
ہم سب کو عزتِ نفس کی ضرورت ہے۔ چاہے بڑے عہدوں پر فائز صاحب ِاختیار ہوں یا کم مالی وسائل کے حامل۔لہٰذا قناعت پسندی اور اعتدال کی راہ پر چلیں، چادر دیکھ کر پائوں پھیلائیں۔ دوسروں سے بے جا حاجت روائی کی امید نہ رکھیں۔ اپنے وسائل میں جینا سیکھیں۔ بزدل اور بے وقوف ہے وہ شخص جو اپنی غلطیاں دوسروں کے دامن میں ڈال کر مطمئن ہو جائے اور کم فہموں کی طرح محرومیوں کے قصے سنائے۔ بہادروں کی طرح اپنی اصلاح کریں۔ غلطیاں سب سے سرزد ہوتی ہیں۔ معافی مانگتے اور معاف کرتے رہیں۔ خوشی اور سکون کا ذریعہ اور وسیلہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی اور دوسروں کی عزتِ نفس، خودداری، خود اعتمادی اور ذات کے بھرم کو نہ توڑیں، اسے زک نہ پہنچائیں۔ دلِ نازک آبگینے کی طرح ہوتے ہیں، ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ محبت کیجئے! لیکن محبت میں تو عزتِ نفس ختم ہو جاتی ہے مگر پھر بھی محبت والے کم ظرف نہیں ہوتے! وہ حصارِ ذات کی سب زنجیریں توڑ کر تکریمِ آدمیت کو اپنی اولین ترجیح بنا لیتے ہیں۔ آپ بھی حصارِ ذات سے باہر نکل کر سوچیں !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں