کچھ تو اِدھر بھی!

گزشتہ برس کے اوائل میں ایک صبح میں اپنے دفتر میں محکمانہ امور کی انجام دہی میں مصروف تھا کہ میرے سٹاف آفیسر نے بتایا کہ خوشاب سے ایک نوٹس سرور ملاقات کیلئے آیا ہے۔ میں نے فوراً اسے بلا بھیجا۔ آفس میں داخل ہوتے ہی وہ انتہائی جذباتی انداز میں اپنا قصۂ غم بیان کرنے لگا۔ اس نے بات شرو ع کی تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ کہنے لگا کہ وہ پانچ سال قبل لاہور سے اپنے آبائی ضلع میں اس لیے تعینات ہوا کہ لاہور میں مہنگائی کے سبب محدود وسائل میں گزارہ کرنا مشکل تھا۔ خوشاب میں آبائی گھر موجود تھا‘ سوچا کہ یہاں زندگی نسبتاً آسان ہو جائے گی مگر پورے ضلع پر مبنی یونٹ کے طویل و عریض علاقے میں نوٹس تقسیم کرنا اور سکیسرسے لے کر قائد آباد اور شاہ پور تک پھیلے علاقوں میں وہ اپنی ذاتی موٹر سائیکل میں اپنی جیب سے پٹرول ڈلوا کر اپنے فرائضِ منصبی انجام دیتا ہے جس کے سبب آدھی سے زائد تنخواہ کارِ سرکار میں خرچ ہو جاتی ہے۔اس نے مزید بتایا کہ روزانہ دشوار گزار اور سنگلاخ علاقوں میں سفر کی وجہ سے اس کی ذاتی موٹر سائیکل بھی ناکارہ ہونے کے قریب ہے مگر محکمے کی طرف سے اسے کوئی سہولت میسر نہیں۔ اس نے استدعا کی کہ میں بطور کمشنر اس کے دکھوں کا مداوا کروں اور سرکاری فرائض کی انجام دہی اس کے لیے آسان بنائوں۔ میں نے ڈی سی ہیڈ کوارٹر زسے اس سلسلے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ نوٹس سرور کے لیے پٹرول کی مد میں مالی وسائل انتہائی محدود ہیں لہٰذا میں اُس نوٹس سرور کی داستانِ غم پر محض کفِ تاسّف ملنے اور اک جھوٹی تسلی دینے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔ یہ کہانی صرف خوشاب کے ایک نوٹس سرور کی نہیں بلکہ یہ محکمے کے افسران اور ملازمین کی کسمپرسی، قلتِ وسائل اور صبر آزما قسم کی مشکلات پر مبنی تصویر کا وہ رخ ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
ایف بی آر کے گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنرز مقابلے کے امتحان میں محض چند نمبروں کے فرق سے پولیس، پاکستان ایڈ منسٹریٹو سروس اور فارن سروس میں منتخب نہیں ہو پاتے مگر ایک ہی سول سروسز اکیڈمی میں زیرِ تربیت رہتے ہیں اور تمام گروپس کے ساتھ کامن ٹریننگ کے مراحل مکمل کرنے کے بعد اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور ملازمت کا آغاز کرتے ہیں۔ عمومی تاثر کے برعکس بدقسمتی سے عملی زندگی کے آغاز میں ہی انہیں سہولتوں اور وسائل کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان میں سے بیشتر احساسِ محرومی کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب جبکہ صوبائی افسران نے پنجاب بھر میں تنخواہ کے علاوہ 150فیصد ایگزیکٹو الائونس منظور کرا لیا ہے، بالکل اسی طرز پر وفاق کے کئی ادارے‘ جن میں نیب، ایف آئی اے، سیکرٹریٹ گروپ، قومی اسمبلی، سینیٹ، وزیراعظیم سیکرٹریٹ کے علاوہ کئی دیگر محکمے شامل ہیں‘ بھی اپنے لیے بنیادی تنخواہ کے علاوہ 100 فیصد سے 150 فیصد تک اضافی الائونس منظور کرا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ایف بی آر کو دیا جانے والا پرفارمنس الائونس 2015ء میں فریز کر دیا گیا تھا جو اب بنیادی تنخواہ کا 20سے 22فیصد رہ گیا ہے جس کی وجہ سے ادارے کے افسران اور ملازمین میں بد دلی، بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
تنخواہوں اور سہولتوں میں پائے جانے والے عدم توازن کے حوالے سے جونیئر افسران اور ملازمین کی بے چینی میں اضافہ ہوا تو چیئر مین ایف بی آر اور دیگر اعلیٰ افسران نے بروقت مداخلت کی اور اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر اٹھانے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد ملازمین نئے جوش و جذبے سے اپنی سرکاری ذمہ داریاں انجام دینے لگے۔ ہمیشہ کی طرح محکمہ جون کے آخری دنوں میں اپنے مقررکردہ سالانہ اہداف کے تعاقب میں دن رات ایک کر کے ملک کیلئے محصولات جمع کرتا ہے اور اس سال بھی ایک خطیر ہدف کے حصول کو یقینی بنانے اور ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹیکس محصولات جمع کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی کوتاہی یا لاپروائی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ جونیئرافسران کے ایک نمائندہ وفد نے چیئر مین سے ملاقات میں ملنے والی یقین دہانی اور تسلی کے باعث پورے انہماک اور دلجمعی سے دن رات ایک کر کے سالانہ ریونیو ٹارگٹ کے حصول کو ممکن بنانے کی ٹھان لی۔اس طرح پوری لگن اور تندہی سے 30 جون کی شام 6.1 ٹریلین روپے سے زائد ٹیکس جمع کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا گیا۔ یاد رہے کہ مالی سال 2021-22ء کیلئے مقرر کیا جانے والا ابتدائی ریونیو ٹارگٹ 5829ارب روپے تھا جو 30جون سے ایک ہفتہ قبل ہی حاصل کر لیا تھا اور پھر آخری چند دنوں میں مزید محنت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نظر ثانی شدہ ٹیکس ٹارگٹ بھی حاصل کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔
جون کے آخری ہفتے میں چیئر مین ایف بی آر کی طرف سے وفاقی وزیرِ خزانہ کو ایک سمری ارسال کی گئی جس میں محکمے کے ساتھ جاری ناروا سلوک کے خاتمے اوردیگر وفاقی اداروں کی طرز پر 150فیصد سپیشل الائونس کی منظوری کی استدعا کی گئی۔ 30جون کی شام وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل، وزیرِ مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ ایف بی آر دفتر میں تشریف لائے اور چیئر مین اور دیگر اعلیٰ افسران کو شاندار کارکردگی پر دادِ تحسین دی۔ چیئر مین ایف بی آر کی یاد دہانی کے جواب میں وزیر خزانہ نے ایک مرتبہ پھرجائز مطالبات کی منظوری کو یقینی بنانے کیلئے اپنی پھرپور حمایت کا یقین دلایا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملکی معیشت کی مضبوطی اور استحکام کیلئے محکمے کی خدمات کے پیش نظر ادارے کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ یہاں پر اس امر کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے ٹیکس قوانین پر عملداری یقینی بنانے کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کیے ہیں۔ ایک طرف ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر ٹیکس نظام کو شفاف، خود کار اور قابلِ اعتبار بنایا گیا ہے تو دوسری طرف ٹیکس محصولات پر مامور افسران اور ملازمین کے معاشی تحفظ اور مالی آسودگی کے لئے بھی ضروری اقدامات کیے گئے ہیں تا کہ کرپشن اور دیگر منفی اقدار سے پاک ایک عوام دوست سروس کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں سالانہ ٹیکس محصولات کا پانچ سے چھ فیصد ٹیکس کولیکشن پر اٹھنے والے اخراجات کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ٹیکس جمع کرنے والے اخراجات کی شرح 2سے 3فیصد ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ ادارہ بھی محدود وسائل اور سہولتوں کی قلت کا شکار ہے اور محض 0.55فیصد سالانہ اخراجات کے باوجود قومی معیشت میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
ایف بی آر وطنِ عزیز کا ٹیکس جمع کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔وقت کی ضرورت ہے کہ اس کی ورک فورس کی تنخواہوں، سہولتوں اور دیگر مراعات کو اگر دوسرے وفاقی اور صوبائی محکموں سے بہتر نہیں تو کم از کم اُن کے ہم پلہ ضرور کیا جائے۔ اس ادارے سے روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک ملازمین اور افسران میں اضطراب کا باعث بن رہا ہے جس کے ازالے کے لیے اربابِ اختیار کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ محمد رفیع سودا ؔکا یہ شعر ادارے کے ملازمین کے جذبات کی خوبصورت انداز میں ترجمانی کرتا نظر آتا ہے:
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں