انسان چاہے جتنا ہی دلیر، مضبوط اور طاقتور کیوں نہ ہو، اکیلا نہیں رہ سکتا کیونکہ زندگی کے تمام معاملات میں وہ بااختیار نہیں ہے۔ انسان بنیادی طور پر معاشرتی حیوان ہے اور اسے چودھراہٹ چاہئے۔ انسانی سماج اور معاشرتی زندگی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ لوگ جب مل جل کر ایک سماج میں رہتے ہیں تو مختلف بندھنوں اور ضرورتوں کیلئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک آزاد اور خود مختار طرزِ زندگی اور سماجی رابطے کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے اخلاقیات، قواعد و ضوابط، روایات اور اقدار کی پاسداری لازم ٹھہرتی ہے۔ ان کے بغیر سماج کا ڈھانچا برقرار نہیں رہ سکتا۔ ہم سب اپنی علیحدہ اور الگ پہچان رکھنے کے باوجود اپنی بقا اور سلامتی کو برقرار رکھنے کیلئے اجتماعی معاشرے کے مرہونِ منت ہیں۔ انسانوں کے آپس کے تعلقات میں ہم آہنگی اور اخلاقی و تہذیبی قدروں سے ایک خوبصورت اور متوازن سماج تشکیل پاتا ہے جو ہم سب کی اجتماعی سوچ، خواہشات کا آئینہ دار اور ہمارے خوابوں اور ان کی عملی تعبیر کا عکاس ہوتا ہے۔ انسانی زندگی اور سماج صاف بہتے پانی کے چشمے جیسی ہوتے ہیں۔ جتنے ندی نالے اس آبشار میں گرتے ہیں‘ سب اس کے اندر سمٹ جاتے ہیں، جذب ہو کر جز سے کُل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ قدرتی عمل اور نظامِ فطرت ہے۔ ہوا، ریت، کنکر اور پتھر پانی کو صاف رکھتے ہیں۔ مختلف آلودگیوں اور کثافتوں سے پاک، قابلِ استعمال بنا کر زندگی کی بقا اور سلامتی کا ضامن بنتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جدید اور قدیم سماجی و تمدنی قدروں کا امتزاج اور تناسب سماجی زندگی کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ رکھتا ہے۔ ارتقا کا عمل مستقلاً جاری رہتا ہے، اس کا وقوع پذیر ہونا عین فطری اور ضروری ہے۔ انسان تاریخ کے کٹھن مراحل سے گزر کر صدیوں کی مسافت کے بعد جنگلوں، غاروں اور پتھر کے ادوار سے ہوتا ہوا ٹیکنالوجی کے جدید دور میں داخل ہوا ہے۔ اس نے حیران کن حد تک ترقی اور خوشحالی کے مدارج طے کیے ہیں۔ یہاں کئی اہم سوالات بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ انسانی سماج کا اگلا ہدف کیا ہو گا؟ کوئی نشانِ منزل بھی ہے یا نہیں؟ کارل مار کس نے کہا تھا ''انسان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ فطرت کے پہلو بہ پہلو اپنی کائنات تخلیق کر لیتا ہے‘‘۔ انسان نے ایسا ہی کیا۔ وہ جیسے جیسے ذہنی بلوغت کی منازل طے کرتا گیا‘ ایک نیا جہان تخلیق کرتا چلا گیا۔
انسان کی سماجی زندگی اور ترقی کا اگلا ہدف کیا ہو سکتا ہے؟ کوئی نشانِ منزل ہے بھی کہ نہیں؟ اس تیزی سے بدلتے دور میں آج متوازن اور اعتدال پسند سماج کی اشد ضرورت ہے۔ یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب تمام انسانوں کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ کسی بھی قسم کی تخصیص اور تفریق کے بغیر، قانون کی بالادستی اور اس کی عملداری جہاں طاقتور اور کمزور کا تصور نہ ہو۔ لوگوں کو مذہبی و سماجی آزادیاں میسر ہوں۔ انصاف اور مساوات ہو، جان و مال کی حفاظت، بنیادی حقوق کی فراہمی اور شخصی آزادیوں کی ضمانت ہو۔ ہر شخص اپنی شناخت کو لے کر بہت حساس ہوتا ہے۔ رواداری کے فروغ کے لیے سماج میں ہر کسی کی شناخت کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ ہر شخص پہلے پاکستانی ہے‘ بعد میں اپنے الگ صوبائی، علاقائی، لسانی اور ثقافتی ورثے کا حامل ہے۔ فرد اور اس کی مقامی شناخت کی حفاظت کی جائے اور اسے چھینا نہ جائے ۔ایک سماج بیک وقت کئی تہذیبوں اورثقافتوں کا حامل ہوتا ہے جس کے عملی مظاہرے مختلف گروہوں اور نسلوں کے طرزِ زندگی میں بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ رسم و رواج ہوں یا روایات، رائے کا احترام ضروری ہے۔ یہی جمہوریت ہے اور جمہوری روح کا تقاضا بھی۔ گزرے زمانوں کے بادشاہوں سے آج کا عام انسان زیادہ بسہولت زندگی گزارتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ انسانی اور سماجی ارتقا کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔ جدید دور کی ایجادات نے سفر اور باہم رابطوں کو عام اور سہل کر دیا ہے۔ ہم جدید دور میں داخل تو ہو گئے ہیں مگر شاید ہماری سوچ میں وہ پختگی ابھی تک نہیں آئی جو ایک ذمہ دار فرد اور سماج میں ہونی چاہئے۔ صبر، تحمل، برداشت اور رواداری جیسی سنہری اقدار کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا رہا جبکہ غیر معتدل رویے، عدم برداشت، غصہ اور انتقام جیسے منفی رویے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے جاپان کے سابق وزیراعظم کو جاپان کے مغربی شہر نارا میں انتخابی مہم کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ شنزو آبے جاپان کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ وزیرِاعظم رہے۔ دو سال قبل خرابیٔ صحت کی وجہ سے مستعفی ہوئے تھے اور صحت مند ہونے کے بعد دوبارہ انتخابی مہم چلارہے تھے۔ چالیس سالہ قاتل نے کہا کہ وہ ان سے خوش نہیں تھا‘ اس لیے گولی ماردی۔ یہ خبر بڑی غیر متوقع اور ناقابلِ یقین لگتی ہے۔ جاپانی قوم بہت دھیمے مزاج کی حامل ہے اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ مہذب بھی۔ ان کے تمدن میں جدید رجحانات کے ساتھ ساتھ روایت پسندی کی سوچ نمایاں ہے۔ تعلیم و ترقی، تربیت اور انسانی ترقی کے اشاریے جاپان میں سب سے بلند ہیں کیونکہ وہاں تعلیم کا مقصد ہی کردار کی تعمیر ہے۔ جاپان میں آتشیں اسلحہ کا کوئی تصور ہی نہیں۔ وہ مجموعی طور پر صلح جُو معاشرہ ہے۔ یہ واقعہ دنیا کے بدلتے رجحانات کا عکاس ہے۔ سری لنکا ہو یا برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن پر ان کی اپنی ہی پارٹی کا عدم اعتماد‘ یورپ کے دیگر ممالک میں بھی سیاسی و سماجی عدم استحکام اور رویوں میں اعتدال پسند سوچ کا فقدان نظر آتا ہے۔ پاکستان میں بھی عدم برداشت اور رویوں میں عدم اعتدال اس وقت انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ عید سے پہلے پنجاب کے ایک علاقے میں قربانی کے تین بیلوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر مار دیا گیا کیونکہ دونوں گروپوں کے درمیان خاندانی رقابت تھی۔ صدر ٹرمپ امریکا کا صدارتی انتخاب ہار گئے تو ان کی جماعت نے انتخابات کے نتائج قبول نہ کیے بلکہ احتجاج کیا اور قانون ساز اسمبلی پر حملہ بھی کیا۔ معاشرے اپنے رویوں میں اعتدال کو کھو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے ظلم و ستم کی داستانیں ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ آج کل بھارت کے انتہاپسندوں نے مسلمانوں پر زندگی کا قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔ آئے روز ایسی وڈیوز منظرِ عام پر آتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسانیت شرما جائے۔ معاشرتی رویوں میں جس تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے، سماج کا بنیادی ڈھانچا ہل کر رہ گیا ہے۔ اولاد اب نافرمانی سے آگے بڑھ کر والدین سے دست درازی کرنے لگی ہے۔ ان سب کی اگر روک تھام کرنے میں کوئی چیز اہم اور ضروری ہے تو معیاری تعلیم و تربیت ہے۔ والدین اور اساتذہ کرام کو معاشرتی اور سماجی اقدار کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اعتدال اور میانہ روی کی روش بھی اختیار کرنا ہو گی۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا‘ رویوں کو حدود و قیود اور سماج کے مروجہ پسندیدہ پیرائے میں ڈھالنا ہوگا۔ حقیقت پسند سوچ کے ساتھ قومی وقار اور مرتبے کا خیال رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
تحمل، بردباری اور غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی صلاحیت ایسے عمدہ اوصاف ہیں جو جذباتی فیصلوں اور ان کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ہر بات پر جواب دینے، مقابلہ کرنے اور مؤقف بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آپ شائستہ اور مہذب اندازِ گفتگو رکھتے ہیں تو لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر بعد میں انسان کے ہاتھ سوائے ندامت اور شرمندگی کے کچھ نہیں آتا۔ معذرت اور پچھتاووں سے بہتر ہے لوگوں کو سنیں اور سمجھیں، مشکلات میں مددگار بنیں۔ رویوں اور عمل میں اعتدال سماجی زندگی کو متوازن رکھنے کیلئے لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات توازن پر پیدا فرمائی اور روزِ ازل سے یہ توازن ہی پر چل رہی ہے۔ شیخ سعدی شیرازی نے اپنی ایک حکایت میں بیان کیا ''گھٹیا اور زنگ آلود لوہے سے کبھی اچھی تلوار نہیں بن سکتی‘‘۔ پڑھنے لکھنے سے کوئی لائق‘ نالائق مہذب و تہذیب یافتہ نہیں بن جاتا۔ مولانا روم بیان کرتے ہیں '' ہر خوبی باطن کی ہوتی ہے۔ انسان اپنی حماقتوں میں مبتلا ہے اور اپنی حقیقت سے بے خبر ہے۔ اگر انسان حقیقت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا اور تخلیق کے مقصد کو نہیں جانے گا تو یونہی ذلیل و رسوا ہوتا رہے گا‘‘۔ اپنے مقصد کو پہنچانیے۔