ہر سال دنیا بھر کے مسلمان امامِ عالی مقام سیدنا حسینؓ کی شہادت پر اپنے گہرے رنج و غم اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ اس عظیم مقصد کی طرف توجہ مبذول کر پاتے ہیں جس کے لیے نواسہ رسول امام عالی مقامؓ نے تاریخِ انسانی کی فقید المثال قربانی پیش کی حتیٰ کہ اپنے بچوں تک کو قربان کر دیا۔ واقعہ کربلا کا غم اور مظلوم شہدائے اہلِ بیت سے ہمدردی ایک فطری تقاضا بھی ہے مگر قابلِ غور امر یہ ہے کہ وہ کیا خاص بات ہے کہ شہادتِ امامِ حسینؓ اور اہلِ بیت کا غم صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ہر سال تازہ ہو جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شہادت کے پیچھے ایک مقصد عظیم کار فرما تھا اور رہے گا۔ ہمیں سمجھنا یہ ہے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام عالی مقامؓ تخت و تاج پر اپنے کسی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے حصول کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ نہیں! یقینا نہیں! ہر گز نہیں! جو بھی سیدنا امام حسینؓ اور ان کے گھرانے کے بارے میں معمولی سی بھی معلومات رکھتا ہے وہ ان کے تقویٰ، اطاعتِ رسول، بلند اخلاقی قدروں، سیرت و کردار اور صبر و توکل کے بارے میں مثقال بھر بھی بدگمان نہیں ہو سکتا کہ وہ محض اقتدار کی خاطر لوگوں کے جان و مال کو خطرے میں ڈال سکتے تھے، اور وہ بھی خانوادۂ رسول کے لوگوں کو؟ نبی کریمﷺ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد سے لے کر دورِ حضرت امیر معاویہؓ تک چالیس سالہ دور اس کا گواہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی ذات گرامی ہو یا حسنین کریمین، حصولِ خلافت و حکومت کبھی بھی‘ کسی بھی طور ان کی ترجیحات میں نہیں رہا۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امامِ عالی مقام کی نگاہیں مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح، مزاج اور اس کے نظام میں بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کے لیے جدوجہد کرنا فرض تھا۔ نبی کریمﷺ کے گھرانے کے فرد کی حیثیت سے ان کی اولین ذمہ داری تھی کہ اس فتنے کو روکیں‘ خواہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت ہی کیوں نہ آجائے۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے ہمیں نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی سربراہی میں جو نظام چل رہا تھا‘ اس کے دستور کے بنیادی ڈھانچے کو دیکھنا ہوگا ۔ یزید کی ولی عہدی میں مسلمانوں میں جس طرح کے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا اور اس کے اندر جو مسائل اور خرابیاں پیدا ہوئیں وہ ہمیں بنو امیہ اور بنو عباس کے‘ بعد میں آنے والے بادشاہوں کے دور میں نمایاں ہو کر ظاہر ہوتی نظر آتی ہیں۔ اس تقابل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گاڑی کس لائن پر چل رہی تھی اور اس نقطۂ انحراف پر پہنچ کر آگے کس ڈگر پر چل پڑی۔ اسلامی ریاست کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں؟ اس کے لیے صرف زبانی نہیں‘ سچے دل سے اور عملی رویے سے اس کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔ بطورِ مسلم یہ ہم سب کا عقیدہ ہے کہ ملک اللہ کا‘ عوام اللہ کی رعیت ہیں اور حکومت اس معاملے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ حکومت رعایا کی مالک نہیں اور نہ عوام غلام ہے۔ حکومت صرف فرمانِ الٰہی اور شریعتِ محمدی کو نافذ کرے گی۔ لیکن عہدِ یزید سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا‘ اس میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کا تصور زبانی اعتراف کے سوا کچھ نہ تھا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو اس وقت کے دیگر دنیاوی بادشاہوں اور امرا کا خاصا ہوتا تھا۔ خدا کے قانون سے بادشاہ، امرا اور ان کے خاندان مستثنیٰ سمجھے جاتے تھے۔
اسلامی ریاست کی روح عدل و انصاف، مساوات اور ذاتی کردار میں تقویٰ، خدا ترسی اور پرہیزگاری ہے جس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ سربراہِ حکومت‘ سپہ سالارِ اعظم اور قاضی القضاہ اس سے سرشار ہوتے ہیں۔ لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی قیصر و کسریٰ کے ٹھاٹ باٹ اختیار کر لیے گئے، عدل کی جگہ ظلم و جبر کا غلبہ ہو گیا۔ حلال و حرام کی تمیز ختم ہو گئی۔ حکمران سیر ت و کردار سے میلوں دور ہو گئے، سیاست کا رشتہ اعلیٰ انسانی اور اسلامی قدروں سے ٹوٹتا چلا گیا۔ حاکم رعایا کو اپنے رعب اور رعونت سے ڈرانے لگے۔ ضمیروںکی خریداری عام ہو گئی۔ پہلے حکومت کی تشکیل مجلسِ شوریٰ کی مشاورت سے ہوا کرتی تھی اور مشورہ ان لوگوں سے لیا جاتا تھا جن کے علم و تقویٰ اور اصابتِ رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہوتا۔ مشاورت ہاں میں ہاں ملانے والوں سے نہیں کی جاتی تھی بلکہ خلافتِ راشدہ کے ادوار میں موزوں ترین لوگ پُر خلوص اور بے غرض ہو کر چنے جاتے، حق گوئی اور آزاد رائے کے سوا کسی کو کوئی فضیلت نہیں ملتی تھی۔ ان ارکین سے بھی یہی امید رکھی جاتی تھی۔ اسلامی ریاست کا تیسرا اہم ستون اظہارِ رائے کی آزادی تھا۔ ہر مسلمان کو حق ہی نہیں تھا بلکہ اس پر لازم تھا کہ وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرے ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے تا کہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے۔ لوگوں کے ضمیر اور زبانیں آزاد ہو ں اور ہر غلط بات پر بڑے سے بڑے عہدے پر متمکن اشخاص کو بھی ٹوک سکیں اور حق بات بر ملا کہہ سکیں۔ یہ دینِ اسلام کا عطا کردہ دستوری حق تھا اور اس بابت لوگوں کی ہمت افزائی کی جاتی تھی۔ یزید کے عہد سے پہلے یہ حق پوری طرح محفوظ تھا مگر بادشاہت کا نظام شروع ہوتے ہی زبان بندی کر دی گئی۔ منہ کھولیں تو صرف خوشامد اور تعریف کے لیے ورنہ ناقدین کے لیے سر تن سے جدا کرنے کا حکم جاری ہو جاتا تھا۔ یہ پالیسی ہی مسلمانوں کی ذہنی پستی اور زوال کا سبب بنتی گئی۔ سچی بات کرنے کیلئے خطرہ مول لینے والوں کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ پست ہمت، مصلحت پرست، خوشامد اور چاپلوسی کرنے والوں کی اہمیت بڑھ گئی۔ قابل اور ایمان دار لوگ آزاد خیالات اور رائے رکھنے والے حکومتی معاملات سے لا تعلق ہو گئے۔ عوام کی حالتِ زار کا کوئی پرسانِ حال نہ رہا۔
خلقِ خدا کے آگے جوابدہ ہونا اسلامی ریاست کا نمایاں اصول تھا۔ خلفائے راشدین اس خوف کے سبب راتوں کو سو نہیں پاتے تھے اور ہر جگہ‘ ہر وقت‘ ہر خاص و عام کے آگے جوابدہی کے لیے بخوشی دستیاب ہوتے تھے۔ مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کے اجلاس میں ہی نہیں‘ پانچوں وقت کی نماز کی امامت اور ہر اجتماع میں‘ کوئی بھی‘ کسی بھی وقت جواب طلبی کر سکتا تھا۔ جمعہ کی نماز کے بعد سوال و جواب کا خصوصی اہتمام ہوتا تھا۔ عہدِ یزید میں غرور اور طاقت کے نشے میں چور حکمران شاہی جاہ و جلال اور پہرے داروں کے لشکر کے ساتھ گھومتے، راستے خالی کر واتے، ہٹو بچو کی صدائوں میں شاہی سواری کا گزر ہوتا۔ عوام کی شاہی محل تک رسائی تو درکنار سرِعام ذلت و رسوائی کی جاتی۔ پکڑ دھکڑ اور خوفزدہ کرنے کا وتیرہ عام تھا۔ یہی حال بیت المال کا تھا۔
خلفائے راشدین کے دور میں بیت المال کو اللہ تعالیٰ اور رعایا کی امانت قرار دیا جاتا تھا۔ بیت المال کے پیسے کو حق کی راہ میں‘ جائز اور حلال کاموں پر خوب سوچ سمجھ کر خرچ کیا جاتا تھا۔ خلیفہ کا اس خزانے پر اتنا ہی حق سمجھا جاتا تھا جتنا قرآنِ مجید نے یتیم کے مال پر ولی کو حق دیا ہے۔ خلفائے راشدین نے نہایت دیانتداری سے ایک ایک پائی کا حساب رکھا اور عوامی فلاح و بہبود پر اسے پورے عدل کے ساتھ خرچ کیا مگر اس کے برعکس عہدِ یزیدمیں اسے بادشاہ کا مال قرار دیا گیا۔ دولت کو ناجائز اور عیاشی کے کاموں پر سرِعام اڑایا جانے لگا۔ یوں اسلامی معاشرے میں بے پناہ کثافتیں اور خرابیاں در آئیں جن سے دینِ حق کی بقا اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے۔ (جاری)