گزشتہ تین‘ چار دہائیوں میں ہمارے ہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ روایتی معاشرتی نظام سے جدید طرزِ زندگی کی طرف سفر بہت تیزی سے طے ہوا ہے۔ ہمارے بچپن کے کئی رومان اور اُن سے جڑے ہمارے پسندیدہ کردار اب قصۂ پارینہ بن گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے جس تیز رفتاری سے ترقی کی ہے‘ اس سے مواصلات کا نظام اور محکمۂ ڈاک بھی یکسر بدل گیا ہے۔ اب خط و کتابت کی روایت مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے۔ ہمارے سکول کے نصاب میں اردو اور انگریزی‘ دونوں زبانوں میں ''ڈاکیا‘‘ اور ''پوسٹ مین‘‘ پر مضامین اور نظمیں شامل تھیں جو ہماری سماجی زندگی میں اس کے کلیدی کردار پر بدرجہ اتم روشنی ڈالتی تھیں۔
دیہات میں شرحِ خواندگی انتہائی قابلِ رحم ہوا کرتی تھی اور اِکا دُکا کوئی شخص ابتدائی تعلیم مکمل کر کے کسی شہر میں ملازمت اختیار کر لیتا تو وہ اپنے گھر والوں سے بذریعہ ڈاک رابطہ رکھتا اور خط و کتابت کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ہمارا گائوں ڈاکخانہ خاص ہونے کے بدولت پوری یونین کونسل میں شامل دیہات کے خطوط تقسیم کرنے کا ذمہ دار تھا اور ڈاکخانے کا پورا انتظام و انصرام ہمارے گائوں کے ڈاکیے میاں امیر سلطان کے ذمے تھا۔ ہمارے اردو کے نصاب میں ڈاکیے پر شامل کی گئی نظم اس کی وضع قطع کی عملی تفسیر تھی۔ ''سردی ہو یا گرمی ہو، اس کی ایک ہی وردی ہو، ناک پر عینک رکھی ہو!‘‘۔ امیر سلطان بطور ڈاکیا اپنے فرائض پوری تندہی سے انجام دیتے نظر آتے تھے۔
گائوں سے شہر جا کر پڑھنے والے طلبہ اور سرکاری یا نیم سرکاری ملازمت سے وابستہ افراد جذبات سے سرشار خط لکھتے تو ڈاکیا بابو نہ صرف وہ خطوط ان کے گھر والوں تک پہنچایا کرتے بلکہ انہیں پڑھ کر سنانا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا تھا۔ تعلیم کے حصول میں مشغول نوجوان اپنے خطوط میں پڑھائی میں اپنی یکسوئی اور محنت کے دعوے کرتے اور ہمیشہ اچھے نمبر حاصل کرنے کی نوید سناتے اور ساتھ ہی ساتھ اگلے ماہ کے اخراجات کے لیے درکار رقم کا مطالبہ بھی کرتے اور بذریعہ منی آرڈر وہ رقم جلد بھجوانے پر زور دیتے۔ محنت کش کسان والدین وہ رقم اگلے چند دنوں میں ہی ڈاکیے کے حوالے کر دیتے اور وہ اسے متعلقہ تعلیمی ادارے کے ہاسٹل کے پتے پر ارسال کر دیتا۔ اس کے ساتھ ہی وہ والدین کی طرف سے ایک خط بھی تحریر کر دیتا جس میں پڑھائی پر پوری توجہ دینے کی تلقین کے ساتھ ساتھ ایک بڑا فسر بننے کی یاد دہانی بھی شامل ہوا کرتی تھی۔ یوں ڈاکیا گائوں سے دور رہنے والوں کو اپنے پیاروں کے ساتھ ملانے کا بہت مؤثر ذریعہ تھا۔ جس گائوں میں کوئی سکول ٹیچر موجود ہوتا‘ خطوط پڑھ کر سنانا اور ان کے جواب لکھنا اس ٹیچر کی ذمہ داری میں شامل ہو جاتا تھا۔
ڈاکیے کے اس کلیدی کردار کی انجام دہی کے دوران بے پناہ جذباتی مناظر نظر نواز ہوا کرتے تھے۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں ملازمت کرنے والے جوان یا بیرونِ ملک جا کر محنت مزدوری کرنے والے افراد باقاعدگی سے ہر ماہ نہ صرف اپنے گھر والوں کو خط لکھتے بلکہ منی آرڈر کے ذریعے ایک معقول رقم بھی بھجوایا کرتے جس سے اس کے گھرانے کے ماہانہ اخراجات کا نظام چلتا تھا۔ لہٰذا ہر ماہ کے ابتدائی دنوں میں ایسے گھرانے ڈاکیے کے گھر مسلسل چکر لگا کر آنے والے خط اور منی آرڈر کا پوچھتے رہتے اور تاخیر ہونے پر اُن کی بے قراری میں مسلسل اضافہ ہو جانا لازمی امر ہوتا تھا۔ ایسے منتظر گھرانوں کے دروازے پر ہونے والی ہر دستک پر یوں لگتا تھا کہ جیسے ڈاکیا آن پہنچا ہو مگر ہر بار ایسا کہاں ممکن! بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہو جاتیں اور امیر سلطان بلا تاخیر وہ خط اور منی آرڈر لے کر اس گھر آن پہنچتے اور خط کھول کر پڑھنا شروع کر دیتے جس سے ماحول میں سنجیدگی آ جاتی۔ اکثر خطوط میں گھر سے دور رہنے کی مشکلات کا ذکر ہوتا، کئی دفعہ بیماری کا تذکرہ آجاتا تو ماں غم سے نڈھال ہو جاتی۔ پردیس میں رہنے والے اپنوں سے بچھڑنے اور پیاروں سے دوری کا تذکرہ کرتے تو گھر والوں کے ساتھ ساتھ ڈاکیے کی آنکھیں بھی غمناک ہو جاتیں۔ ماں کی یاد ستانے کا تذکرہ آتا تو سننے والی ماں تڑپ اٹھتی اور آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے۔ اسی جذباتی کیفیت سے ڈاکیا بھی دو چار ہو جاتا اور اس کی ناک پر رکھی موٹے شیشوں والی عینک میں رواں دواں اس کے آنسو صاف نظر آنے لگتے۔ اس جذباتی ماحول میں ڈاکیا منی آرڈر میں آنے والی رقم ان والدین کے حوالے کرتا اور اس رقم میں کس کا کتنا حصہ ہے‘ وہ بھی رقم وصول کرنے والوں کو تفصیل سے سمجھاتا۔
ہم صبح سویرے اپنے سکول کے لیے روانہ ہوتے تو ڈاکیا بابو امیر سلطان اکثر اپنی سائیکل پر اپنے روایتی انداز میں دن کا آغاز کرتے نظر آتے۔ ان کی سائیکل کے ہینڈل کے دونوں طرف بھورے رنگ کے کپڑے کے دو بیگ لٹکے ہوتے تھے جن میں وہ خطوط اور منی آرڈر سنبھال کر روانہ ہو جاتے۔ جب ہم سکول سے چھٹی کے بعد گھر کو لوٹتے تو اکثر ہمارا سامنا ایک مرتبہ پھر امیر سلطان سے ہو جاتا۔ کبھی کبھار ہم شام کو کرکٹ کھیلنے سکول کے گرائونڈ کا رخ کرتے تو واپسی پر ڈاکیے کی سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ دو خالی کپڑے کے بیگ دیکھ کر اندازہ لگا لیتے کہ وہ اس دن کی تمام چِھٹیاں اور منی آرڈر اُن کے مالکان کے حوالے کر کے واپس خالی ہاتھ لوٹ رہا ہے۔ ہم کئی سال تک‘ دن رات باقاعدگی سے امیر سلطان کی فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے گواہ ہیں۔ صبح سویرے دو بھرے ہوئے کپڑے کے بیگ لے کر نکلنے والا ڈاکیا سرِشام لوگوں کی امانتیں اُن کے سپرد کر کے خالی بیگز سائیکل پر لٹکائے واپس اپنے گھر آجاتا تو ہمیں یقین ہو جاتا کہ میاں صاحب ایک اور کٹھن دن گزار کر اپنے فرائض سے انصاف کر چکے ہیں۔
مگر اب نہ میاں امیر سلطان رہے اور نہ وہ سائیکل، نہ اس پر لٹکے ہوئے وہ کپڑے کے دو بیگ۔ بہت کچھ بدل چکا بلکہ سب کچھ ہی بدل چکا۔ میاں امیر سلطان کو منوں مٹی تلے سوئے جانے کتنے برس بیت گئے اور وہ خط لکھنے والے بھی کب سے راہِ عدم کے مسافر ٹھہرے۔ ان خطوط اور ان کے ساتھ آنے والے منی آرڈرز کی منتظر وہ نگاہیں بھی جانے کب کی لقمۂ اجل بن چکیں۔ وقت آگے بڑھ گیا اور ہم کمپیوٹر، انٹرنیٹ،گوگل، موبائل فون، سوشل میڈیا اور فیس بک کے عہد میں شامل ہو گئے۔ گویا باہمی روابط، میل جول، خط و کتابت، ذرائع ابلاغ اور میل ملاپ کے سب انداز و اطوار بدل گئے۔ نہ وہ خط لکھتے ہوئے رونے والے رہے اور نہ ہی اُن کو پڑھ کر سنانے والے اور سن کر تڑپنے والے باقی رہے۔ بہت تیزی سے وقت نے ہمیں آگے دھکیل دیا یا شاید ہم وہیں کھڑے ہیں اور وقت خود آگے بڑھ گیا، اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔
میں یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ بڑی مدت بعد میرے پیشوا پروفیسر رحمت علی اپنے پیارے شاگرد ''جیدی میاں‘‘ کے ساتھ آن پہنچے۔ کالم کی بابت دریافت کرنے لگے تو عرض کیا کہ ''ڈاکیا‘‘ پر لکھ رہا ہوں۔ فرمانے لگے ''اسد میاں! ہر انسان ڈاکیا ہی تو ہے۔ ہم سب ڈاکیے ہیں۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ لوگوں کی امانت ہی تو ہے۔ ہمارا اپنا تو کچھ بھی نہیں۔ ہمارا مال، ہمارا علم، ہمارا ہنر، ہماری دولت، ہمارے وسائل یہ سب اس مالکِ کائنات کی طرف سے عطا کردہ انعامات ہیں جو ہمیں لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے امانت کے طور پر ایک مخصوص وقت کے لیے عطا کیے جاتے ہیں۔ اب یہی ہمارا امتحان ہے، یہی ہماری آزمائش ہے کہ ہم کس خوش اسلوبی سے یہ امانتیں ان لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو ان کے انتظار میں کہیں نہ کہیں اسی بے چینی سے ہماری راہ تک رہے ہیں جس شدت سے گئے وقتوں میں ڈاکیے کی راہ دیکھی جاتی تھی‘‘۔