سیلابِ بلا خیز

دیکھا گیا ہے کہ جنوب ایشیائی ممالک سیلاب اور بارشوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ جون، جولائی، اگست اور وسط ستمبر تک ان ممالک میں شدید بارشیں ہوتی ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور تیز بارشوں کے سبب ندی نالوں اور دریائوں میں طغیانی آجاتی ہے۔ یہی پانی جب میدانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے تو کناروں سے باہر پھیل کر سیلابی کیفیات پیدا کر دیتا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، چین اور جاپان میں لگ بھگ ہر دوسرے سال سیلاب آتے ہیں اور وسیع و عریض رقبے، کھڑی فصلوں اور مقابی آبادیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام دنیا نے یہ ضرورت محسوس کی اور کچھ لانگ ٹرم پالیسی فریم ورک بنائے اور مستقل طور پر قدرتی آفات سے نمٹنے اور حفاظتی انتظامات کے قومی سطح پر ادارے اور مقامی افراد پر مشتمل رضاکار تنظیمیں بنائیں۔ بنگلہ دیش نے کمیونٹی کی شمولیت سے فلڈ ریزیلیئنٹ ملک بنانے پر کام شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح چین اور جاپان نے چھوٹے بڑے ڈیمز اور آبی ذخیرے بنا لیے اور اس پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔ جاپان نے ٹوکیو اور دوسرے میٹرو پولیٹن شہروں میں زیرِ زمین کنوووں نما ذخیرۂ آب کے ٹینکس بنا کر نہ صرف اربن بلڈنگ کو کنٹرول کر لیا بلکہ بارشوں کے اس پانی کو قابلِ استعمال بھی بنا لیا۔ اسی طرح قومی سطح پر آگاہی مہم چلائی گئی، دریائوں، ندی نالوں اور نشیبی علاقوں میں گھر، مکانات اور تجارتی مراکز ختم کر دیے گئے۔
پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں اور سیلابی صورتحال نے وہ تباہی مچائی ہے کہ آدھے سے زیادہ ملک اس وقت سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ 1951ء اور 1970ء کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبے اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان سیلابی ریلوں اور تیز بارشوں کے باعث شدید سیلابی لہروں سے متاثر ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں بارشوں اور سیلابی ریلوں سے جو جانی نقصانات ہوئے ان کی تفصیل انتہائی دلخراش اور تکلیف دہ ہے۔ بارہ سو سے زیادہ قیمتی جانیں سیلاب کے پانی کی نذر ہو چکی ہیں۔ بلوچستان، سندھ، اور جنوبی پنجاب کے 90 فیصد علاقے سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔لاکھوں مویشی، کھڑی فصلیں، باغات اور رابطہ سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں۔ رابطہ پُل ٹوٹ کر گِر گئے ہیں، لاکھوں ایکڑ پر پھیلے زرخیز کھیت، گائوں، کچے مکانات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں رہنے والے لوگوں پر بارشوں اور سیلاب کی صورت میں قیامتِ صغریٰ ٹوٹی تو آناً فاناً متاعِ حیات سیلابی پانی میں ڈوب گئی۔ خوراک، لباس، برتن، بستر، سب کچھ پانی اپنی بے رحم لہروں میں بہا کر لے گیا۔ چند گھنٹوں پہلے تک زندگی اپنی ڈگر پر معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ نجانے کس کی نظرِ بد لگی کہ کالی گھٹائیں یکا یک اٹھیں اور آسمان سے پانی یوں برسا کہ ہنستی کھیلتی، خوشی سے لبریز زندگی، سرسبز لہلہاتے کھیت، پھلوں سے لدے باغات، سڑک پر رواں گاڑیوں کے قافلے اجڑ گئے۔ اچانک بربادی اور مایوسی نے سب کو آن گھیرا۔ کل تک جو دوسروں کی مدد کر رہے تھے لمحوں میں بے یار و مددگار، کھلے آسمان تلے جائے پناہ تلاش کرنے لگے۔
بارشوں کے باعث تباہی اور پانی میں ڈوبے لوگ بلوچستان کے دشوار گزار علاقوں تک محدود تھے تو بحالی اور امدادی کاموں میں مصروف رضاکار اور پاک آرمی مستعدی سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن، خوراک، صحت کے مسائل کے حل کیلئے امداد فراہم کر رہے تھے۔ لسبیلہ میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز کی قیادت میں اعلیٰ آفیسرز کا اس آپریشن کو مانیٹر کرنے کا کام اس طرف اشارہ تھا کہ نقصان کتنا زیادہ ہوا ہے اور اس کی حساسیت کیا ہے۔ کم سے کم وقت میں مستعد رِسپانس کو پاک فوج سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے۔ اعلیٰ فوجی قیادت کی لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت اس امر کا بین ثبوت ہے کہ جنرل ہوں یا فوجی‘ آزمائش میں پاک فوج کے جوان اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کیلئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ دکھوں کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کوہِ سلیمان پر مسلسل بارشوں کے باعث ندی‘ نالے ابل پڑے تو طوفانی لہروں نے جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کی دیہی اور قصباتی زندگی کو آگھیرا۔ جب تک سیلابی ریلے کی اطلاعات موصول ہوئیں اس وقت تک راجن پور، تونسہ، فاضل پور سمیت تین سو سے زائد انسانی بستیاں نا بود ہو چکی تھیں۔ سیلابی لہریں گھروں، فصلوں اور جانوروں تک کو تنکوں کی طرح بہا کر ہنستے بستے وسیب کو قبرستان بنا چکی تھیں۔
بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا، اور پنجاب کے جنوبی اضلاع کی اشک شوئی اور دکھوں کی کہانی جاری تھی کہ اچانک سوات، کالام اور بحرین میں کئی منزلہ ہوٹلز، مارکیٹیں، گھر، مساجد اور درختوں کے جڑوں سمیت اکھڑ کر دریائے سوات کی بپھری لہروں کی نذر ہونے کے مناظر دیکھ کر دل دہل گیا۔ یااللہ خیر، کلمہ طیبہ کا ورد کرتے، اذانیں دیتے لوگ ورطۂ حیرت میں تھے۔ میدانی علاقوں اور پہاڑوں میں بسنے والے لوگوں اور ان کے موسموں کا مزاج الگ ہوتا ہے۔ جب پہاڑوں میں ندی نالے، دریا اور آبشاریں بپھرتے ہیں تو نقصان کا اندیشہ کہیں بڑھ جاتا ہے۔ تند و تیز پانی کے بہائو اور اس کے ساتھ بھاری پتھر، درخت اور عمارتوں کا ملبہ، محدود راستے، تنگ وادیاں اور آبی گزرگاہیں مسائل میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ امدادی ٹیمیں پہنچنے تک حالات خاصے بدل چکے تھے۔ رابطہ سڑکیں اور پل ٹوٹ چکے تھے یا مخدوش تھے جس کی وجہ سے امدادی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب میں پھنسے سیاحوں اور مقامی افراد کو بچانے کی مقد و ر بھر کوشش کرتے نظر آئے۔ اس وقت گلگت سے کراچی اور لسبیلہ سے پنجاب تک‘ ہر جگہ ایک ہی کہانی ہے اور ملک کے طول و عرض میں پانی نے تباہی مچا دی ہے۔ زندگی بھر کی جمع پونجی، مکان، دکان، کھیت کھلیان، جنگلات، مویشی، یہاں تک کہ بچے اور قریبی عزیز بھی کھو کر خالی ہاتھ، شکستہ دل متاثرہ افراد بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
ہمیں جہاں تعلیمی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ تعمیرات اور قدرتی ماحول کو بچانے کیلئے قانون پر عملدرآمد کرانے اور معاشرتی رویوں میں سدھار لانے کیلئے بھی اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی۔ سیلابی پانی کی نکاسی، نہروں، کھالوں کی صفائی، سیم نالوں کو فعال کرنا ہوگا۔ شہروں میں صفائی کے کلچر کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کے برتنوں، بوتلوں، شاپنگ بیگز اور ڈائپرز کو ری سائیکل کرنے کا کلچر متعارف کرانا ہوگا۔ ماحول دوست توانائی کے ساتھ کروڑوں‘ اربوں درخت لگا کر گلوبل وارمنگ سے زمین کو بچانے کی تدبیر کرنا ہوگی۔ گلیشیرز پھٹ رہے ہیں اور برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثر ہونے والے ٹاپ ممالک میں شامل ہے۔ سیلاب کا پانی اتر رہا ہے مگر یہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی اَن گنت داستانیں چھوڑ گیا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج متاثرہ علاقوں کی بحالی ہے۔ گھروں کی تعمیر، کھیتوں اور باغات کی از سر نو بحالی ایک اہم مسئلہ ہے۔ سڑکوں، ریلوے لائنز، بجلی اور مواصلاتی نظام کی تعمیر اور بحالی، پلوں اور آبی گزرگاہوں کی از سرِ نوتعمیر اور مرمت ہماری ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ فصلوں، مویشیوں، خوراک، گوشت، دودھ اور پھل سبزیوں کی کمی کو پورا کرنے کا مشکل مرحلہ مالی و تکنیکی معاونت کا متقاضی ہے۔ کاموں کی فہرست کہیں لمبی ہے۔ کمزور معیشت کی حامل بیرونی قرضوں میں جکڑی معیشت اور خود غرضی اور لالچ میں لتھڑے اربابِ اختیار کا سوچ کر پریشانی اور مایوسی مزید بڑھ جاتی ہے مگر اللہ کی رحمت پر کامل ایمان ہے اور یقین بھی کہ ان شاء اللہ ہم سب مل کر بہت جلد اس مشکل گھڑی سے نکل کر دوبارہ پوری قوت سے کھڑے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں