وقت نے تیور کیا بدلے، انسان کے جذبات و احساسات اور خیالات تک بدل گئے۔ مصروفیات، مہنگائی اور بیروزگاری نے ثقافتی اقدار کو نگل لیا۔ ماضی قدیم سے جڑا ہمارا دیہی کلچر تک بکھر گیا۔ ہماری تنگ نظری، رنجشوں اور تشنہ خواہشوں کا لبادہ اوڑھ کر جدت کی بے سمت اڑان نے سب کی خوشیاں چھین لیں۔ عُرس، میلے ٹھیلے جو برصغیر کے قدیم کلچر کا خاصہ تھے‘ کو بھی اس گردش نے متاثر کیا۔ اگرچہ لوگوں کی ان میلوں ٹھیلوں میں اب پہلے جیسی دلچسپی باقی نہیں رہی کیونکہ اب تفریح کے دیگر ذرائع دستیاب ہیں مگر اب بھی درباروں اور مزارات پر سالانہ میلے اور عرس باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی کثیر تعداد ان میں شرکت کرتی ہے اور یہ کئی کئی دنوں تک جاری رہتے ہیں۔ کلچر ان طاقتور فعال ذرائع میں سے ایک ہے جن کے ذریعے ہم اپنی اقدار کا اظہار، سماجی رویوں کی ترویج اور سماجی گروپ کی شناخت کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ اس کا تعلق سوچ، زندگی اور خوشی و غمی کے لمحات اور رسموں رواجوں سے جڑا ہے۔ منشی پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں دیہی زندگی کی بہت خوبصورتی سے منظر کشی کی ہے لیکن ساتھ ہی کاشتکاروں، کسانوں اور دہقانوں کے مسائل کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے! کچھ ایسے مسائل، رویوں اور معاشرتی بندشوں کی نشاندہی بھی کی جو شہروں میں رہنے والی پڑھی لکھی کلاس کی نظروں سے اوجھل تھے۔ ساہوکاری نظام نے جس طرح کسانوں کو سودی قرضوں میں جکڑا ہوا تھا‘ اس کو بھی اجاگر کیا۔
ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں ایک سرِ آئینہ اور دوسرا پسِ آئینہ۔ اسی طرح خوشی اور غمی کے موسم بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ سماجی روابط‘ رویوں اور سوشل میڈیا کے اثرات سے دیہی زندگی متاثر ضرور ہوئی ہے لیکن اس کے رنگ پکے، خالص اور شفاف ہیں اور جڑیں دھرتی میں پیوست‘ اسی لیے طوفانی لہروں، بارشوں، سیلاب اور حوادثِ زمانہ کو مات دے کر وہ اپنی مکمل خوبصورتی کے ساتھ اب بھی قائم ہے۔ پاکستان کے تمام علاقوں کا اپنا فوک کلچر ہے جو بہت مضبوط اور مستحکم ہونے کے ساتھ دلکش اور پُرکیف بھی ہے۔ دیہی زندگی سادہ، بناوٹ اور دکھاوے سے پاک ہوتی ہے۔ گائوں کے لوگ ایک دوسرے کو نسلوں سے جانتے ہیں۔ سب کے دکھ سکھ سانجھے اور محبتیں بے لوث ہوتی ہیں۔ سرِشام گھروں سے اٹھتا دُھواں خالص سوندھی آگ پر پکی چائے کی خوشبو اور ہلکے دھویں کی آمیزش کا ذائقہ وہی بتا سکتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہو۔ بڑے بڑے ہوٹلز میں ملنے والی چائے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ نظامِ فطرت سے جڑے یہ سادہ لوگ ہر بات کو خدا کی رحمت اور قدرت کے رنگوں سے منسوب کرتے ہیں۔ یہی فوک وِزڈم، دراصل وہ حکمت اور فلسفہ ہے جو انہیں آبائو اجداد سے ورثے میں ملا ہے۔ یہ ایک سینے سے دوسرے سینے میں پیوست ہوتا اور آنے والی نسلوں کو امانت کے طور پر سونپ دیا جاتا ہے۔
پاکستان اپنے رنگوں، ثقافتی اقدار اور منفرد تاریخ کی وجہ سے دنیا بھر میں الگ مقام رکھتا ہے۔ میلے ٹھیلے ملنے ملانے کے بہانے، تجارت اور کاروبار کی ترویج و ترقی کے مواقع بھی مہیا کرتے ہیں۔ ایک چھابڑی والے سے لے کر بڑے بڑے تاجران تک ان موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بیلوں کی ریس، کنویں سے پانی نکالنے کے مقابلے، ہارس اینڈ کیٹل شو اور اسی طرح کے دیگر کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں۔ گھریلو و زرعی اوزاروں، پھلوں اور پھولوں کی نمائشوں سے کسانوں کی نت نئے بیجوں سے آگاہی ہوتی ہے۔ کھانے پینے کے سٹال، علاقائی کھانے، دہی بھلے، چاٹ، سموسے، پکوڑے، مختلف قسم کی مٹھائیاں بالخصوص جلیبی، اندرسے اور قتلمے سب کی توجہ کھینچ لیتے ہیں۔ رقص، سمی، اتن، دھمال، جھومر، لُڈی اور تلواروں کے رقص کے علاوہ وزن اٹھانے اور تن سازی کے مقابلے بھی سب میلوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور پھر جھولے، چوڑیاں، مہندی، پراندے، رنگین شیشوں والے ملبوسات ہر میلے کا لازمی جز ہوتے ہیں۔ کبھی بسنت میلہ لاہور کی پہچان سمجھا جاتا تھا۔ آسمان رنگین پتنگوں سے سج جاتا تھا۔ یہ موقع خوشی، رنگ، جوش اور مل بیٹھنے کا بہانہ بنتا تھا۔ اس طرح مویشیوں کی منڈی، اونٹوں کی ریس، دستکاریوں کی نمائش، کھیلوں کے مقابلے، گھوڑوں کی دوڑ اور رقص اور نیزہ بازی میلوں‘ ٹھیلوں کے نمایاں پہلو ہیں۔ سبی میلہ ایک اہم تہوار ہے۔ چترال میں جب شندور میلہ سجتا ہے تو دنیا کے بلندترین مقام پر پولو گرائونڈ میں عارضی شہر آباد ہو جاتا ہے اور اس میلے کو تو اب بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی مل چکی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح گلگت اور چترال کی ٹیموں کے مقابلے سے لطف حاصل کرتے ہیں۔ کیلاش قبیلہ صدیوں سے چترال کی حسین وادیوں میں آباد ہے۔ اس کا اپنا کلچر ہے، جس کے رنگ منفرد ہیں۔ لباس، رسم و رواج اور رنگوں کی حسین داستان ہے۔ کیلاش میں چلم جوشی کا میلہ دیکھنے لوگ دور دور سے جاتے ہیں۔ ایسے میلے مصروفیات سے نکل کر فطرت کے مختلف نظاروں، لوگوں، علاقوں اور ان کے مشاغل سے آگاہی کا سبب بھی بنتے ہیں۔
ہمارے خطے میں صوفیا کرام اور مبلغین کا بہت بڑا مقام ہے۔ اسلام کی تبلیغ اور تعلیمات کے پھیلائو میں ان کا کردار اور مقام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہی نسبت آج تک ہمیں درگاہوں اور مزارات سے جوڑے ہوئے ہے۔ صوفیانہ شاعری، قوالی، وجد و سرور کی محافل درباروں کے احاطوں میں سجتی ہیں اور مریدین اور معتقدین دنیا بھر سے نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ میلہ چراغاں لاہور میں صوفی شاعر شاہ حسینؒ کے مزار پر سجتا ہے اور لعل شہباز قلندر کے مزار پر سیہون شریف میں لاکھوں کی تعداد میں افراد پوری دنیا سے شرکت کرتے ہیں۔ حضرت علی ہجویریؒ کے عرس کے موقع پر ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کے مزار پر حاضرین کا تانتا بندھا رہتا ہے اور لاکھوں افراد اس میں شریک ہوتے ہیں۔ قوالی، دھمال اور لنگر کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ بابا بلھے شاہ کی شاعری اور سلطان باہو کا کلام اسلام کے آفاقی اور الہامی کلام کو عام کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ان کی محبت، کشف و کرامات اور وجدان کے رنگ صوفیانہ شاعری کا خاصہ ہیں۔ کچھ علوم خاص طور پر لوک موسیقی، لوک داستانوں، علاقائی رقص، لباس، تہوار اور علاقائی زبان کی تعلیم و تربیت کسی رسمی تعلیمی ادارے میں نہیں دی جاتی۔ نہ ہی ایسا ممکن ہے! یہ دھرتی سے جڑا علم ہے جو کسی خود رو جھاڑی کی طرح اُگ آتا ہے اور پورے ماحول میں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہ خود کو منوانا جانتا ہے۔ مٹی سے جنم لیتا ہے‘ اس لیے مٹی کی مہک اس کے لب و لہجے میں نمایاں ہے۔ یہ مہک انسانی بدن میں لہو کے ساتھ گردش کرتی اور جذبوں میں کروٹ لیتی ہے تو عشق و محبت کی داستانیں جنم لیتی ہیں۔ تنبورے کے تار روح میں اتر کر علاقائی گیت، ماہیے، ٹپے، دوہرے اور بیت بن جاتے ہیں۔
کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو وقت کا پہیہ گھومے اور ہم دنیا کے میلے میں لطف و کیف کی نعمت سے سرفراز ہوں۔ غمِ دوراں ہو نہ غمِ جاناں۔ ریاضی کے ہندسوں میں الجھی عقل اور نہ کمپیوٹر کے کی بورڈ پر ناچتی انگلیاں۔ ہم کسی چوٹی پر موجود کسی درگاہ پر حاضر ہوں اور خدا اور بندے کے مابین تعلق کے معاملات پر غور و فکر کر رہے ہوں یا مادھو لعل حسین کے میلے میں گنڈے گولے کھاتے بے فکر بچے ہوں یا ہیر رانجھے کا قصہ سنتے نوجوان یا جھیل سیف الملوک کی رومانوی داستان کے کردار جو جھیل کنارے رقص کرتی پریوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سن سکیں اور چاند راتوں کی چاندنی میں نہا سکیں یا پھر سسی پنوں کے ماروں تھل میں دلوں میں مچلتی عشق کی کہانی کا جذبہ لیے کسی ایسے میلے میں اُس بے پروا لڑکی کی طرح بے نیاز ہو جائیں جو سہیلیوں کے جھرمٹ میں میلہ لوٹنے آئی ہے اور یہ کہتی پھرتی ہے:
ایہہ پھڑ کنجیاں تے سانبھ لے تجوریاں
کھسماں نوں کھاوے تیرا گھر وے
چل میلے نوں چلیے