9 نومبر ہر سال ہمیں علامہ اقبال ؒکی تعلیمات اور پیغام کے حوالے سے عزمِ نو کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس دن قوم اپنے اس محسن کی پیدائش کو ان کے شایانِ شان منانے کا اہتمام کرنے کے ساتھ مصمم ارادہ کرتی ہے کہ وہ آئندہ اپنی زندگیوں کو اقبال کی شاعری، فلسفیانہ سوچ اور نظریات و افکارِتازہ کو اپنی سوچ کا محور بنائے گی، ان کے احساسات اور خیالات کو اپنے مقاصد میں اولین ترجیحات میں رکھے گی۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ ایک عظیم فلسفی، شاعر، قانون دان، مفکر، سیاستدان اور تحریکِ پاکستان کی ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ آپ کی شخصیت ہمہ گیر اور عالم گیر شہرت کی حامل ہے۔ آپ کی شاعری آفاقی پیغامِ ربانی کی آئینہ دار ہے۔ آپ کے موضوعات فلسفہ، تصوف اور احیائے امتِ مسلمہ کا احاطہ کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ نے اپنی نثری تصنیف ''ریلیجئس تھاٹ آف اسلام‘‘ میں اپنے فکری اور نظریاتی تصورات کو نمایاں کیا ہے۔ آپ ایسے بلند پایہ شاعر اور مفکرِ اسلام ہیں جن کی طبیعت میں مذہبی رنگ آپ کے والدین کی تربیت کی دین ہے۔ مولوی میر حسن جیسے عالم کی صحبت نے اُسے چار چاند لگا دیے۔ اقبال ایسے مینارۂ نور ہیں جن سے اکتسابِ فیض کرنے والوں اور آپ کی تعلیمات سے متاثر ہونے والوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اپنے فکر و نظریات سے آپ نے نہ صرف برصغیر بلکہ پورے ایک عہد کو متاثر کیا۔ آپ کو بجا طور پر اکیسویں صدی کا عہد آفرین شاعر، مفکر اور فلسفی تسلیم کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال کا تصورِپاکستان کا نظریہ وہ نمایاں کارنامہ ہے جس نے مسلمانانِ ہند کی قسمت کو بدل کر رکھ دیا۔ آپ نے تحریکِ پاکستان کو نئی جہت بخشی اور نشانِ منزل کی نشاندہی فرمائی جس کو آگے چل کر نظریۂ پاکستان کا نام دیا گیا۔ آپ نے تقسیمِ ہند کی تجویز دے کر مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کی بنیاد ڈالی۔ جغرافیائی اور نظریاتی اساس مہیا ہو جانے کے بعد تحریکِ پاکستان کی منزل کا تعین ہو گیا۔ یہ درست ہے کہ آپ اپنے خواب کی تعبیر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے مگر آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اکابرین اور رہنمائوں کو آزاد وطن کے حصول کا تصوراتی ڈھانچہ مہیا کر دیا۔ آپ بجا طور پر قوم کے محسن اور ہیرو ہیں۔ اقبال کے ہاں ایک منظم نظامِ فکر اور فلسفۂ زندگی موجود ہے۔ عشقِ رسولﷺ،خودی، یقینِ محکم اور عملِ پیہم ان کے فلسفے کے سب سے نمایاں اور بنیادی عناصر ہیں۔ آپ نے دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والوں کو فقر کا پر تو کہا ہے اور اللہ عزوجل کے احکامات پر چلنے والوں کو مومن بتایا ہے۔ بلندیوں پر اڑنے والے پرندے کو شاہین کہا ہے اور مسلم نوجوانوں کو شاہین کی طرح بلند پروازی کا درس دے کر رفعت ِخیال بخشا ہے۔ آپ کے اندازِ بیان میں فکر و فلسفے کا ایسا گہرا رچائو ہے جو آپ کے کلام کو عظیم شاعری کے مرتبے پر فائز کرتا ہے۔ آپ کی شاعری اور شخصیت میں حقیقی عشق کا بھرپور رنگ چھلکتا نظر آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اقبال کے عہد کے شعرا میں مجازی عشق اور محبت کے فرسودہ موضوعات شعر و سخن میں مروج تھے مگر آپ کی شاعری کے انداز میں نیا پن، وقار، مقصدیت اور یکسر نرالا رنگ جھلکتا ہے۔ علامہ اپنے افکار و نظریات اور محسوسات کو حروف کی مالا میں پروتے گئے جس کی بدولت آپ کی غزل کا لہجہ شریں اور اندازِ بیاں جدت لیے ہوا ہے۔
علامہ اقبال کا ظہور اردو ادب میں بیسویں صدی کا اہم ترین واقعہ ہے۔ آپ نے خود اپنے لیے ایک منفرد راستے کا تعین کیا اور پہلی مرتبہ فلسفیانہ خیالات کو غزل کے سانچے میں ڈھالا۔ اپنے موضوعات میں ملی، اسلامی، نفسیاتی، اخلاقی، سیاسی، تہذیبی اور تاریخی موضوعات شامل کیے۔ اقبال کی زندگی اور سوچ میں فلسفۂ خودی غالب ہے۔ اقبال سے پہلے خودی کے معنی غرور، تکبر ا ور ناز میں لیے جاتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے پہلی مرتبہ خودی کو ایک فصیح و بلیغ مفہوم عطا کیا۔ اقبال نے خودی کے معنی ''قرب‘‘ کے لیے ہیں۔ خودی یقین کی گہرائی ہے، سوزِ حیات ہے، ذوقِ تخلیق ہے ، خود آگاہی ہے، عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال خودی کو تعلیم کا پہلا زینہ قرار دیتے ہیں۔ جو نوجوان اس سے نا آشنا ہیں‘ ان کی تربیت نا مکمل اور زندگی بے ربط ہے۔ اقبال کی فکری سوچ اور شاعرانہ اندازِ بیان ایک مسلسل سفر اور تجربے سے عبارت ہے۔ یقینا کوئی بھی شخص اس وقت تک ارفع نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ خودی کی بھٹی میں پک کر کُندن نہیں بن جاتا۔
اقبال نے نوجوانوں میں نئی روح پھونکی اور عظمتِ اسلام کو اجاگر کیا۔ ان کی تقریباً تمام کتب کے تراجم انگریزی، جرمن، فرنچ، جاپانی اور دیگر زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ علامہ نے مسلم قوم کو حوصلہ دیا، مایوسی اور ناامیدی سے دور کیا اور انہیں صبحِ روشن کی نوید سنائی۔ آپ کا کلام ولولۂ تازہ کا عکاس ہے۔ اقبال کے کلام میں نمایاں ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں سے بہت توقعات رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کی طاقت اور زورِ بازو سے غلامی کی ہر زنجیر کو توڑ سکتے ہیں۔ علامہ اقبا ل کے افکار، نظریات اور شاعری‘ ہر عہد اور ہر زمانے کے لیے رہنمائی، یقینِ محکم، عملِ پیہم اور فاتحِ عالم کا سبب اور ہتھیار ہے۔علامہ اقبال کی زندگی مشرق و مغرب کے مطالعے اور تجربات سے عبارت ہے۔ آپ پر اپنے فلسفے کے استاد پروفیسر آرنلڈ کا گہرا اثر تھا۔ یہ پروفیسر آرنلڈ ہی تھے جنہوں نے آپ کو برطانیہ جا کر علم حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیاکہ اقبال نے شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ کیا مگر یہاں بھی پروفیسر آرنلڈ نے ہی انہیں روکا اور شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنانے کا مشورہ دیا۔ علامہ علومِ مشرق اور تصوف کے بہت قائل تھے۔ انہیں ''ماڈرن صوفی‘‘ کہا جائے تو کوئی حرج نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر اقبال مولانا روم کو اپنا روحانی استاد و پیشوا مانتے ہیں۔ کشف اور وجدان کے ذریعے، ادراکِ حقیقت کے بعد،صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے اور رغبت سے محبوبِ حقیقی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے۔ رومی نے جو ہرِ عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے '' خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘۔ علامہ نے جب اپنی شہرہ آفاق نظم ''شکوہ‘‘ لکھی تو آپ پر چہار جانب سے تنقید کے نشتر برس پڑے اور آپ کو بے پناہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ا س پر آپ نے ''جوابِ شکوہ‘‘ لکھا جس کے بعد تمام نقاد اور معترضین لاجواب ہو گئے کیونکہ ''دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘۔
اقبال کی شخصیت خاصی متاثر کن ہے۔ آپ کے عہد میں انگریزی ادب، انگریزی کلچر، روایات، لباس اور انگریزی انداز سے مرعوبیت کا یہ عالم تھاکہ نوجوان نسل دیارِ غیر کے اطوار اپنانے میں فخر محسوس کرتی تھی۔ آپ کرتا، پاجامہ، ترکی ٹوپی اور دھوتی زیبِ تن فرماتے۔ سادہ خوراک اور سادہ طرزِ زندگی آپ کا شعار رہا۔ اس حوالے سے آپ کے فرزند جاوید اقبال مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''اباجان کو انگریزی لباس سے سخت نفرت تھی، مجھے ہمیشہ شلوار اور اچکن پہننے کی تلقین کیا کرتے۔ منیرہ بھی اپنے بالوں کو دو حصوں میں گوندھتی تو ناپسند کرتے اور کہتے: بال اس طرح مت گوندھا کرو، یہ یہودیوں کا انداز ہے‘‘۔ علامہ وہ شمس تھے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی قرآنی تعلیمات تھیں۔ آپ نے مسلمانوں کی فلاح کو قرآنِ حکیم کی تلاوت ا ور احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہونے کو قرار دیا۔ آپ دنیا کے تمام فلسفیوں اور ان کے نظریات سے آگاہ ہوئے مگر فلاحِ انسانیت کو توحید اور رسول اللہﷺ کی محبت اور دین کی روشن تعلیمات میں مضمر قرار دیا۔ آپ عشقِ رسول میں ہچکیوں سے رویا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کہا کرتے تھے ''مجھے اقبال کے ایک شعر نے بدل دیا: وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر؍ تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر‘‘۔ ڈاکٹر انور سدید اقبال کو بیسویں صدی کا عہد آفرین آفتاب تسلیم کرتے ہیں۔ یقینا آپ نے شعر و ادب کی روش روش پر ایسے گل مہکائے ہیں جن کی بھینی بھینی خوشبو تا ابد لوگوں کے قلب و روح کو فرحت بخشے گی۔
اُٹھائے کچھ وَرق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گُل نے
چمن میں ہر طرف بِکھری ہوئی ہے داستاں میری