برمنگھم سے ذرا پہلے

گوروں کا یہ دیس برطانیہ میرے لیے اجنبی نہیں۔ میں یہاں سب سے پہلے 2007ء میں‘ سرکاری حیثیت میں آیا تھا۔ اس وقت ضلعی حکومت گجرات اور لنکا شائر کائو نٹی کونسل کے مابین باہمی اشتراک اور تعاون کے مختلف امور کے امکانات اور مواقع تلاش کرنا میری اولین ترجیح تھی۔ میں اس وقت ڈیپو ٹیشن پر بطور ڈسٹرکٹ آفیسر کوآرڈی نیشن گجرات اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہا تھا۔ آئے روز میرے آفس میں گجرات سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی افراد آتے جو خود یا اُن کے خاندان کے افراد برطانیہ، یورپ اور ناروے جیسے ممالک میں جا بسے تھے اور اُن میں گجرات کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ مثالی تھا۔ گفتگو کے دوران مختلف پہلوئوں پر غور ہوتا اور کئی ایسے منصوبے زیرِ بحث آتے جن کے اجرا اور تکمیل کے بعد گجرات کے باسیوں کی زندگی میں نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی تھی۔ انہی منصوبوں میں سے ایک منصوبہ‘ جس پر سیر حاصل گفتگو ہوئی‘ لنکا شائر کائونٹی کونسل اور ضلعی حکومت گجرات کے مابین ایک ایسی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنا تھا جس کے ذریعے لنکا شائر کے شعبۂ تعلیم اور صحت کے ماہرین کے تجربات اور صلاحیتوں کے ذریعے گجرات میں ان شعبوں میں بہتری لائی جا سکے۔
منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوا تو ہماری دعوت پر لنکا شائر کا ئونٹی کونسل کے چیئر مین کی سربراہی میں ایک وفد ضلعی حکومت کا مہمان بنا۔ انہیں مختلف محکموں کی کارکردگی، مسائل اور وسائل کے فقدان پر تفصیلی بریفنگ دی گئی اور کئی سرکاری اداروں کا دورہ بھی کرایا گیا۔ اُن کی واپسی پر ہمیں لنکا شائر کے دورے کی دعوت موصول ہوئی۔ کچھ ناگزیر سرکاری مصروفیات کے سبب دیگر افسران سفر نہ کر سکے تو ای ڈی او ہیلتھ اور میں لنکا شائر روانہ ہو گئے۔ وہاں ہمارے لیے مختلف بریفنگز اور میٹنگز کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسی دورے کے دوران میں نے پریسٹن میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یونیورسٹی آف سنٹرل لنکا شائر اور یونیورسٹی آف گجرات کے درمیان مفاہمتی یاداشت کی بات چلائی جو چند ماہ کے اندر ایک باقاعدہ معاہدے کی شکل اختیار کر گئی اور جس پر دستخط کرنے کے لیے میں اور یونیورسٹی آف گجرات کے وائس چانسلر دوبارہ برطانیہ آئے۔ اس وقت میں ضلعی حکومت سے تبادلہ ہو کر یونیورسٹی آف گجرات میں بطور ڈائریکٹر تعینات ہو چکا تھا اور میری سرکاری ذمہ داریوں میں یونیورسٹی کے بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں کے ساتھ روابط بڑھانا اور تعاون کی فضا ہموار کرنا بھی شامل تھا لہٰذا ان سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے برطانیہ آنا جانا شروع ہوا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ باہمی تعاون اور اشتراک کا شروع کیا گیا وہ منصوبہ آج بھی جاری ہے اور دونوں یونیورسٹیوں میں کئی امور پر معاملات کافی آگے بڑھ چکے ہیں اور متعدد وفود کا تبادلہ ہو چکا ہے۔
بعدازاں سرکاری مصروفیات کے باعث میرا برطانیہ آنے کا سلسلہ یکسر موقوف ہو گیا۔ ماہ و سال گزرتے رہے اور میں لاہور سے فیصل آباد اور سرگودھا سے ہوتا ہوا ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں بطور ترجمان تعینات ہو گیا۔ ستمبر2021ء سے اکتوبر 2022ء تک دلجمعی اور جانفشانی سے پاکستان میں ایک شفاف، خود کار اور مؤثر ٹیکس کے نظام کے فروغ کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ اسی دوران میڈیا سٹڈیز کے مختلف موضوعات پر بہت کچھ پڑھنے کا موقع ملا جس کے سبب میرے اندر پی ایچ ڈی کرنے کی جستجو نے زور پکڑا اور مختلف یونیورسٹیوں میں اپنے ریسرچ پروپوزلز بھیجنا شروع کیے۔ اس صبر آزما عمل کے دوران مجھے موجودہ سکالرشپ کے لیے منتخب کیا گیا تو ساتھ ہی تدریسی ذمہ داریوں کے لیے بھی موزوں قرار دیا گیا۔ یہ محض ایک خوبصورت اتفاق ہے کہ میرے برطانیہ آنے سے ایک ماہ قبل ہمارے چھوٹے بھائی برمنگھم یونیورسٹی میں اپنے فارن کورس کے سلسلے میں اپنی فیملی کے ساتھ شفٹ ہوچکے تھے۔ لہٰذابرطانیہ میں دیگر بہت سے پیارے دوستوں کی موجودگی جہاں ذہنی سکون کا ذریعہ بنتی ہے وہیں نوید بھائی کی تین معصوم بچیاں بھی کسی انعامِ الٰہی سے کم نہیں۔
لیسٹر سے برمنگھم زیادہ دور نہیں، محض چوالیس میل کا فاصلہ ہے۔ ٹرین پر پچاس منٹ جبکہ کار پر سوا گھنٹے میں یہ فاصلہ سمٹ جاتا ہے۔ بہت سے طلبہ اور طالبات ان دونوں شہروں میں بذریعہ ٹرین روزانہ سفر کرتے ہیں اور یہی حال کئی کاروباری افراد کا ہے جو تواتر کے ساتھ ہر روز ایک شہر سے دوسرے میں آسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ اپنی یونیورسٹی کی مصروفیات سے فرصت ملتے ہی لیسٹر سے برمنگھم جانے کا ارادہ کیا تو ٹرین سٹیشن پر جا کر ویک اینڈ سے دوروز قبل ہی ٹکٹ خرید لایا۔ نوید بھائی کی بیٹیاں مجھ سے بہت مانوس ہیں مگر سب سے چھوٹی بیٹی‘ جو ابھی اڑھائی سال کی ہے‘ بہت پیاری ہے کیونکہ وہ ہمارے خاندان کی سب سے کم عمر اولاد ہے۔ لہٰذا س سے ملنے کے لیے میں شدت سے اپنے ویک اینڈکا منتظر تھا۔ اس اشتیاق سے جمعہ کے روز کلاسز سے پہلے ہی صبح سویرے اپنی پیکنگ مکمل کر لی اور کلاسز کے اختتام پر ریلوے سٹیشن روانہ ہو گیا۔ میرے ہاسٹل کے کمرے سے سٹیشن تک 20منٹ کی واک ہے۔ یہاں واک کے بیشتر مواقع ملتے ہیں جن کے سبب میری واک کی روٹین برقرار رہتی ہے۔
میں تیزی سے چلتے ٹرین کے مقررہ وقت سے لگ بھگ 20منٹ قبل سٹیشن پر پہنچ گیا۔ الیکٹرانک بورڈ پر ٹرین کے اوقات اور مختلف پلیٹ فارمز کی تفصیلات پر نظر دوڑائی تو اگلے چند لمحوں میں اپنے مطلوبہ پلیٹ فارم پر پہنچ گیا۔ فرطِ جذبات اور برمنگھم سفر کی خوشی میں لنچ نہ کر سکا تھا لہٰذا سٹیشن پہنچ کر بھوک کا احساس ہونا شروع ہو گیا۔ ٹرین چلنے میں ابھی لگ بھگ اٹھارہ منٹ باقی تھے‘ میں پلیٹ فارم پر موجود ایک دکان میں داخل ہوا اور وہاں سے اپنے لیے اک ویجیٹیبل سینڈوچ اور جوس خرید کر انتظار گاہ کے بینچ پر آ کر بیٹھ گیا۔ اگلے ہی لمحے میرے سامنے والے بینچ پر ایک لڑکی آکر بیٹھ گئی اور کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے مجھ سے مخاطب ہوئی: ''آر یو آلسو گوئنگ ٹو برمنگھم؟‘‘(آپ بھی برمنگھم جا رہے ہیں؟) میں نے اثبات میں سر ہلایا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یقینا وہ بھی اسی ٹرین پر سوار ہو گی۔ میں اپنے 'لنچ‘ میں مصروف ہو گیا اور وہ اٹھ کر ایک ٹرین میں جا کر بیٹھ گئی، اس وقت مجھے لگا کہ شاید وہ کسی اور منزل کی مسافر ہے کیونکہ برمنگھم کی ٹرین کی روانگی میں ابھی دس منٹ رہتے تھے۔
برطانیہ میں چونکہ تمام ٹرینیں مقررہ وقت پر چلتی ہیں لہٰذا میں اس ٹرین کے چلنے کے انتظار میں تھا کہ اس کے بعد برمنگھم والی ٹرین آ جائے گی اور ایک آدھ منٹ رکنے کے بعد روانہ ہو جائے گی۔ اسی دوران برمنگھم روانگی کا وقت قریب آتا گیا اور صرف پانچ منٹ رہ گئے تو وہ لڑکی دوبارہ میرے سامنے آئی اور مجھے مخاطب کر کے ٹرین کی طرف اشارہ کرنے لگی کہ ٹرین برمنگھم روانگی کے لیے تیار ہے اور آپ مست ہو کر بینچ پر بیٹھے ہیں۔ میں ایک دم ہکا بکا ہو کر اٹھا، بیگ لے کر اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا ٹرین پر سوار ہو ا تو ٹرین کھچا کھچ بھر چکی تھی۔ چند لمحوں بعد ٹرین برمنگھم کے لیے روانہ ہو گئی اور میں دیگر مسافروں کے ساتھ گیلری میں کھڑا ہو گیا۔ وہ میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی اپنے موبائل میں مصروف رہی۔
ٹرین تین‘ چار مرتبہ مختلف سٹیشنوں پر رکنے کے بعد آخری مرتبہ برمنگھم سے ذرا پہلے کول شیل سٹیشن پر رکی تو اس لڑکی نے اپنا بیک وغیرہ اٹھایااور اترنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے اس کے گزرنے کے لیے راستہ بنایا، اس نے ایک لمحے کے لیے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا: ''اگلی بار زیادہ چوکنے رہنا ورنہ ٹرین چھوٹ جائے گی‘‘۔ یہ کہہ کر وہ گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ ٹرین کول شیل سے برمنگھم کی طرف روانہ ہو گئی مگر اس اجنبی لڑکی کی وہ بات ابھی تک میرے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ زندگی کے سفر میں کبھی کوئی اجنبی رہبر بن جاتا ہے تو کوئی اپنا بن کر رہزن ثابت ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں