صبح بخیر

یہ نوے کی دہائی کی بات ہے‘ پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ کا پہلا مارننگ شو ''صبح بخیر‘‘ کے نام سے معروف رائٹر مستنصر حسین تارڑ کی میزبانی میں شروع ہوا‘ جس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے۔ یہ پروگرام ہر عمر کے ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ خاص طور پر اس وقت جو بچے سکول جانے کی عمر کے تھے‘ تارڑ صاحب ان کے ہر دل عزیز ''چاچا جی‘‘ تھے۔ وہ اس شو کے ذریعے ہر گھر کے فیملی ممبر کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ صبح ساڑھے سات بجے کارٹون اور اپنی بنائی ہوئی اور بھیجی گئی پینٹنگز کو دیکھنے کے لیے بچے ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھ کر ناشتہ کرتے اور ''چاچا جی‘‘ کی ہر بات غور سے سنتے اور دل و جان سے مانتے تھے۔ آٹھ بجے کے بعد کچن ٹپس، پھولوں سے سجاوٹ، کتابوں، شہروں اور مقامات کے علاوہ مختلف موضوعات اور معاشروں کے بنیادی عناصر پر مختصر بات کی جاتی تھی۔ کامیاب لوگوں کے انٹرویوز بھی کیے جاتے تھے۔
ایک صبح کالج کی تیاری کرتے ہوئے ٹی وی پر نظر پڑی تو تارڑ صاحب ایک صحت مند شخص کا تعارف سابق چیف سیکرٹری بلوچستان کی حیثیت سے کرا رہے تھے جو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ یہ سیگمنٹ 'کامیاب بزرگوں‘ سے بات چیت کا تھا۔ تارڑ صاحب نے برجستہ ایک جملہ کہا کہ آپ کو بزرگ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا کیونکہ آپ کہیں سے بھی بزرگ نہیں لگتے۔ آپ اپنی عمدہ صحت کا راز بتانا پسند کریں گے؟ ریٹارڈ سیکرٹری صاحب نے کہا ''میں نے اپنی سروس کا آغاز اسسٹنٹ کمشنر تربت کی حیثیت سے کیا اور چیف سیکرٹری کے عہدے تک ترقی پائی۔ اپنی ملازمت کے دوران بے تحاشا لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ اپنے‘ پرائے بہت سے لوگوں کے کام کیے مگر بے لوث! کبھی کسی سے توقعات وابستہ نہیں کیں، نہ ہی اچھائی کے صلے کی امید رکھی۔ نتیجے میں کبھی دکھ اور مایوسی کا سامنا نہیں ہوا اور نہ پچھتاوے کا کوئی لمحہ آیا۔ نیکی کر دریا میں ڈال والی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں سٹریس اور اضطراب کی کیفیت میں بہت کم مبتلا ہوا کیونکہ کسی سے صلہ کی توقع رکھنا اور امید باندھ لینا آپ کو دکھی کرتا ہے۔ لوگ کبھی آپ کی سوچ کے مطابق عمل نہیں کرتے نہ ہی آپ کو سراہتے ہیں۔ اس کی خواہش کرنا دکھ، غم اور غصے کا موجب بنتا ہے جو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ میری اچھی صحت کا راز یہی ہے‘‘۔ اس دن میں نے اپنے ہم وطنوں سے بے لوث محبت، مدد ، احسان، رحمدلی اور ہمدردی کرنے کا پختہ ارادہ کیا اور اُس سول سرونٹ کی سوچ کو عملی طور پر اپنانے کا عہد کیا۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‘ شعور کی منزلیں طے کرتے کرتے زندگی کی حقیقت کے ساتھ خواب، آرزوئیں، خواہشات اور توقعات کی حقیقت کو جانا لیکن ایک سوال اس دوران مسلسل پریشان کرتا رہا۔ عملی زندگی میں توقعات وابستہ نہ کرنا کس حد تک ممکن ہے؟ گوشت پوست کے زندہ انسان کے لیے بے غرض محبت کرنا، منفی احساسات اور جذبات کو دل میں دبانا اور خود پر ضبط رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ناگواری کا اظہار نہ بھی کریں‘ یہ مایوسی، بیزاری اور جھنجلاہٹ کا سبب ضرور بنتا ہے۔ دل میں خواہشات کا جنم لینا فطری ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں! بنی نوع انسان ہوش سنبھالنے سے لے کر قبر میں اترنے تک‘ مختلف خواہشات اپنے دل میں پالتا ہے۔ ہر عمر کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں۔ بات توقعات کی ہو رہی تھی۔ توقعات وابستہ کرنے کا گہرا تعلق خواہشات اور زندگی کے بارے میں دیکھے گئے خوابوں کی عملی تفسیر سے ہوتا ہے۔ توقعات ہم سب رکھتے ہیں۔ یہ انسانی نفسیات ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض توقعات خوشیوں کی قاتل ہوتی ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور جھاڑ پونجھ بھی ضروری ہے۔ توقعات جائز، ضروری، حقیقی اوربے تکی‘ غرض ہر قسم کی ہو سکتی ہیں۔ اکثر ان کے درمیان ایک باریک سی لائن ہوتی ہے۔ اگر غور کریں تو توقعات، ناشکرے پن اور بے صبرے پن میں بڑا فرق ہے۔ توقعات رکھنے اور امید باندھ لینے میں بہت فرق ہے۔ ہم مایوس اس وقت ہوتے ہیں جب جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ اعتدال پسندانہ روش اختیار کرنے کے بجائے ہم انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ تصورات اور مفروضہ جات کے بجائے سوچ کو حقیقت پسندانہ اور قابلِ عمل سانچے کے پیرائے میں رکھیں گے تو مایوسی اور ناامیدی کے مرحلوں سے دکھی تو شاید ہو جائیں لیکن مایوس نہیں ہوں گے۔
ہم اجتماعی رویوں کے عادی ہیں۔ رسوم و رواج، خاندانی نظام اور معاشرتی بندشوں کی پابندی کرتے کرتے اپنے ہی پیاروں کی زندگیوں میں آسانیوں کے بجائے اکثر سخت گیری کے اصول اپنا لیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر بچے، بہن بھائی یا دوست احباب گھٹن محسوس کرنے لگتے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم محبت بھی مشروط کرتے ہیں۔ اگر بچہ فرمانبردار ہے تو ٹھیک‘ ورنہ وہ محبت اور توجہ کا مستحق نہیں ٹھہرتا۔ اگر کسی پر احسان، رحم دلی، مہربانی یا اس کی مدد کریں تو بے لوث ہو کر کریں‘ بدلے میں اس شخص سے کوئی امید نہ رکھیں۔ اپنا اور دوسروں کا حوصلہ بڑھائیں‘ ہمت بڑھائیں۔ مایوسی اور گمراہی کی دلدلوں سے نکلنے کے لیے ہمیں قومی اور انسانی عظمت کے بنیادی اصولوں کو سمجھنا ہوگا۔ لوگوں کو اعتماد دینا ہو گا۔ عزتِ نفس کو ملحوظِ خاطر رکھیں گے تو خود بھی مطمئن اور شاد رہیں گے اور ہم سے وابستہ لوگ بھی ہم سے یہی سیکھیں گے کہ کس طرح اپنی باری پر وہ بے غرض ہو کر دوسروں پر احسان کر سکیں۔ مدد مالی ہو جانی ہو یا جذبات کو مناسب انداز میں استعمال کرنے کی تربیت اور ترغیب‘یہ کمزور طبقوں کو خود انحصاری کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ چیزوں اور خدمات کی نمائش کرنااور بڑائی کی غرض سے احسان کر کے گنتی کرنا‘ اسے جتلانا اور بھلائی کا بدلہ چاہنا‘ یہ سب منفی رویے ہیں۔ منفی سوچیں ہمیشہ نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہیں۔ دینا ہے تو یوں کہ اگر دایاں ہاتھ دے تو بائیں کو خبر نہ ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اگر کسی کو زکوٰ ۃ‘ خیرات بھی دیں تو عمومی طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا ممنون رہے گا۔ ایسا رویہ‘ یہ بے جا توقع کیوں ہے؟ نیکی کو بے غرض اور بے لوث ہو کر کرنا ہی اس کی قبولیت کی شرط ہے۔
صبر و تحمل اور شکر گزاری کی روش بے جا ضد‘ ہٹ دھرمی اور تکبر سے بچا کر رکھتی ہے۔ دوسری طرف معیارِ زندگی بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ لالچ، حسد، غصہ اور نفرت ایسے منفی رویے ہیں جو انسان کو خود غرض اور بے حس بنا دیتے ہیں۔ مال کی محبت عہدوں اور مرتبوں کی حرص‘ لالچ‘ طمع‘ دوسروں پر نظر رکھنے اور ان کے لیے دشواریاں پیدا کرنے سے کبھی ہمیں بھی دلی سکون اور اطمینانِ قلبی نصیب نہیں ہو سکے گا۔ یہ روحانی بیماریاں جسمانی بیماریوں کا موجب اور نفسیاتی و جذباتی عدم توازن کا سبب بنتی ہیں۔ باہمی احترام اور محبت ذہنی کشمکش سے محفوظ رکھتی ہے۔ ڈپریشن اور ٹینشن صرف باطن کو بیمار نہیں کرتے بلکہ یہ لاتعداد جسمانی عوارض کا بھی سبب بنتے ہیں اور پھر ہم ہسپتالوں تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مروت اور رواداری دل کی صحت ہے۔ بے مروتی، معاشرتی تنہائی اور غم ہمیں بیکار کر دیتے ہیں۔ چاہے مرتبہ کتنا ہی بڑا ہو‘ مال و زر کے انبار لگے ہوں‘ اگر انسانی محبت اور احساس نہیں ہے تو پھر زندگی کی اہمیت صفر ہے۔ انسانی خدمت ہی دل کو سکون دیتی ہے۔ بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والے ہی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ وہ عبدالستار ایدھی ہوں یا مدر ٹریسا ہوں یا لیڈی ڈیانا‘ انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہی انسانی عظمت کا اعتراف ہیں۔ واصف علی واصف کا کہنا ہے ''حقیقت کا متلاشی عزم کا پیکر ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بلند پہاڑوں اور گہرے سمندروں کا سفر کوئی آسان کام نہیں۔ بس ہمت، یقین اور زبردست امید کی ضرورت ہے۔ مایوسی اس راستے کا سب سے بڑ راہزن ہے۔ کتنے قافلے لٹ گئے اس راہ میں۔ بس مایوس ہو گئے، واپس آگئے کہ حقیقت کچھ نہیں!‘‘۔ محبت اطاعت سکھاتی ہے اور سچی محبت‘ اللہ اور اس کے رسول کریمﷺ کے بعد انسانیت سے محبت ہی حقیقت میں زندگی کا مقصد ہے۔ کالج کے زمانے میں تارڑ صاحب کے اُس مارننگ شو ''صبح بخیر‘‘ میں ریٹائرڈ سیکرٹری صاحب کی اُس گفتگو نے میری سوچ و فکر کے زاویے بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں