مسز وجے لکشمی پنڈت نے بجا طور پر کہا تھا ''مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابو الکلام آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف ایک جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا‘‘۔ قائداعظم محمد علی جناح اپنی بات کے سچے‘ دھن کے پکے اور ناقابلِ یقین حد تک محنت کے عادی تھے۔ آپ کے ذاتی اوصاف کو اگر سمجھنا ہو تو سلطان شہریار نے بہت عمدہ انداز سے آپ کی شخصیت کا احاطہ کیا ہے۔ '' مسٹر جناح بے حد پُر کشش آدمی ہیں۔ ایک مقناطیسی کشش، ان کی آواز میں صداقت اور خلوص کی ایسی قوت کار فرما نظر آتی ہے جو میں نے بہت کم زعما میں دیکھی ہے۔ میں عصرِ حاضر کے بہت سے لوگوں کو مل چکا ہوں مگر مافی الضمیر کے اظہار میں جتنی عالمانہ قدرت قائداعظم میں دیکھی وہ اور کسی میں نظر نہیں آتی۔ وہ جتنا کہنا چاہتے، اتنا ہی کہتے۔ صحت و صفائی کے ساتھ کہتے، اپنے مدعا کے اظہار پر ساحرانہ قدرت رکھتے ہیں۔ میں نے چند منٹوں کی گفتگو سے اندازہ کر لیا کہ اختلافی مسائل پر ان سے بات کرنا آسان نہیں ‘‘۔قائد اعظم معاملہ فہم اور قانون کی پاسداری کے حامی تھے۔ آپ نے انگریزی قوانین کی ہمیشہ پابندی کی۔ کبھی فضول اور بے مقصد بحث میں نہ الجھتے۔ اسی طرح سروجنی نائیڈو نے آپ کی ذات کے ان پہلوئوں کو آشکار کیا جن کا تذکرہ ہم کم ہی کرتے ہیں۔ ''ان کی انسانیت میں بڑا بھولا پن ہے۔ ان کا مشاہدہ ایک عورت کے مشاہدے کی طرح تیز اور نازک ہے۔ ان کے مزاج میں بچوں کی سی شوخی اور دلکشی ہے۔ وہ بنیادی طور پر عملی آدمی تھے۔ محمد علی جناح خوش لباسی اور نفاست میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ کا جسم دبلا پتلا تھا مگر ضبط و نمو کی غیر معمولی روح کو کسی پُر فریب انداز میں ڈھانپ رکھا تھا۔ کچھ رکھ رکھائو کے رسیا، قدرے نازک مزاج اور طور طریقوں میں کسی قدر خلوت پسندی، نخوت کا سارنگ، کچھ لیے دیے سے، کچھ تمکنت کا انداز جاننے والی نظروں سے پوشیدہ، مگر اس کے باوجود بھولا بھالا پیارا آدمی، وجدان میں معصوم بچوں والی نرمی، ویسے عقلیت کا شیدائی، فکر مزاج میں وہ شگفتگی اور وہ دل موہ لینے والی باتیں کہ بس سنتے جائیے اور دیکھا کیجئے، زندگی کو جانچنے، پرکھنے اور تسلیم کر لینے کے معاملے میں بلا کے محتاط اور غیر جانبدار، دنیاوی معاملات میں سوجھ بوجھ اور سلامت روی کا مظہر، مگر صحیح مقصد کے لیے ناقابلِ شکست چٹان‘‘۔
پچیس دسمبر کی تاریخ کیلنڈر میں ہر سال آتی ہے۔ اس دن کو عیسائی دنیا کرسمس کے نام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے طور پر مناتی ہے جبکہ پاکستانیوں اور مسلمانانِ ہند کے لیے اس کا ایک اور حوالہ ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے والے محسنِ اعظم، رہبر اور رہنما قائداعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش ہے۔ آپ نہ صرف تحریکِ پاکستان کے قافلے کے میرِ کارواں تھے بلکہ آپ کی پُر عزم قیادت، جرأت و استقامت کے سبب وہ مثال قائم ہوئی جس نے دنیا کے نقشے کو تبدیل کر دیا۔ جنوبی ایشیا میں دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست معرضِ وجود میں آئی۔ آپ کی سیاسی بصیرت، فہم و فراست اور مستقل جدوجہد ثمر آور ثابت ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے اعلان نے دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ‘ دونوں کو بدل دیا۔ پاکستان کا بننا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ یہ ملک ستائیس رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں اور 14اگست کو ہمیں نصیب ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بڑے وثوق سے فرمایا ''پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور یہ ہمیشہ قائم رہے گا‘‘۔
بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ آپ نے اس وقت کارِ زار سیاست میں قدم رکھا جب برٹش راج اور سامراجی نظام برصغیر کو اپنے آہنی پنجوں میں دبوچ چکا تھا۔ برصغیر کی ہندو اکثریت انگریز حکومت کے ساتھ کافی مطمئن تھی کیونکہ اسے انگریزحکومت کی اکثریتِ رائے کی سوچ،نظریات اور جمہوریت میں اپنا مستقبل روشن نظر آ رہا تھا۔ مسلمانانِ ہند اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ جب کانگریس کی بنیاد ڈالی گئی تو اسے ہندوستان کے عوام کی نمائندہ جماعت تصور کیا جانے لگا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا کانگریس سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ واحد پلیٹ فارم تھا جہاں سے عوام کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھائی جا سکتی تھی تاکہ برصغیر کے لوگوں کا نقطۂ نظر اور ان کی سوچ انگریز حکومت تک پہنچائی جا سکے۔ یہ وہ وقت تھا جب آپ کو ''ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ آپ کی سوچ میں وسعت اور گہرائی تھی لہٰذا آپ نے کانگریس کی سیاسی اور سماجی سوچ پر ہندوئوں کی متعصب اور تنگ نظر سوچ کو جلد ہی پڑھ لیا۔ آپ نے جان لیا کہ کانگریس صرف ہندوئوں کے نظریات کی ترویج کرنے کی جماعت ہے۔ اگر انگریز حکومت ہندوستان کو چھوڑے گی تو مسلمان ہمیشہ کے لیے ہندو اکثریت کے غلام بن جائیں گے۔ لہٰذا آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اسے ہی مسلمانوں کی حقیقی نمائندہ سیاسی جماعت قرار دیا ۔ آپ نے مسلم لیگ کے اکابرین کو متحد کیا تا کہ تمام سیاسی سرگرمیاں اور مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد اسی ایک پلیٹ فارم سے ہو سکے۔ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں الگ مسلم ریاست کے قیام کا نظریہ پیش کیا اور مسلمانوں کو آزادی کی منزل کا راستہ دکھایا۔ ایسے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں نے آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ تقسیمِ ہند کا بھی مطالبہ کر دیا۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ قائد اعظم کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں تھیں۔ غاصب انگریز حکومت‘ مکار ہندو سوچ اور اپنوں کی ریشہ دوانیاں۔ یہ ایسا وقت تھا کہ آپ سیاست سے دلبرداشتہ ہو گئے۔ یہ 1929ء کا بمبئی تھا جب اپنے وقت کا چوٹی کا وکیل اور ایک زیرک سیاسی رہنما محمد علی جناح مایوسی کا شکار ہو کر انگلستان چلا گیا۔ آپ کی اہلیہ رتن بائی کی وفات بھی اسی برس ہوئی تھی۔ آپ کی زندگی کا یہ غالباً پہلا موقع تھا جب آپ کو اشکبار دیکھا گیا۔ آپ حساس دل رکھنے والے انتہائی مہربان انسان تھے۔فاطمہ جناح‘ جو آپ کی ہمشیرہ اور تحریکِ پاکستان کی سرگرم رکن تھیں‘ کے بقول قائد اعظم ذاتی زندگی میں بشاش انسان تھے۔ برجستہ مزاح کرتے، بہت سے لطائف آتے تھے اور گفتگو میں ان کا بر محل استعمال کرتے۔ سننے والے آپ کی مجلس میں محظوظ ہوتے۔ آپ ایک سچے اور اعلیٰ ظرف کے مالک انسان تھے۔ تمام قسم کے مذہبی و فرقہ وارانہ تعصب سے آزاد تھے۔ اسی لیے سرسٹیفورڈ کرپس نے کہا ''مشرقی سیاسی زندگی میں مسٹر جناح ایک بلند شخصیت کے مالک تھے‘‘۔ آپ کے مخالفین بھی آپ کی مثبت اور تعمیری سوچ کے معترف تھے۔
کچھ ہی عرصے بعد قائداعظم ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھال کر ایک ایسے مشن کے حصول کے لیے کوششیں تیز کر دیں جو بظاہر ناممکن تھا۔ جب پاکستان بن گیا تو دنیا انگشت بدنداں تھی کہ مختصر سے وقت میں صدی کا سب سے بڑا واقعہ کیسے رونما ہو گیا۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں غم و غصے سے پاگل ہو گئیں۔ وہ ہندوستان کی تقسیم کو آج بھی نہیں بھولیں اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی کرتی رہتی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے یہ اقرار کیا '' مجھے صرف ایک مقصد کیلئے ہندوستان بھیجا گیا تھا کہ کسی بھی طور ہندوستان کو متحد رکھ سکوں اور متحد ہندوستان کو ہی اقتدار منتقل کروں‘ میں نے اس مقصد کے حصول کیلئے بڑی کوشش کی‘ دن رات ایک کر دیے‘ راتوں کی نیندیں حرام کیں مگر میرے مقصد کی راہ میں ایک ہی شخص حائل تھا جو چٹان کی طرح رکاوٹ بنا رہا اور وہ تھا محمد علی جناح‘‘۔ قائداعظم کے پاکستان میں ان کے بتائے گئے راستوں پر چلنے میں ہی کامیابی ہے۔ آپ جیسا لیڈر شاید ہی اس دھرتی پہ پیدا ہوا ہو۔ بے خوف اور دلیرانہ انداز میں حق سچ پر کھڑے رہنے میں قائد اعظم کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپ سے جب پوچھا گیا کہ آپ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اتنی جان کیوں مارتے ہیں تو آپ نے ایک جملہ بولا ‘جو بھلائے نہیں بھولتا۔ کہا: میں چاہتا ہوں کہ جب میں اللہ کے حضور پیش ہوں تو اللہ رب العزت مجھے کہے: ویل ڈن مسٹر جناح!۔