نیو ایئر نائٹ پر پارٹی، موسیقی، آتش بازی کے اہتمام کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ اس کی بنیاد برطانیہ کی رائل نیوی نے کھلے سمندر میں رکھی۔ نیوی کے جوان بحری جہازوں میں سمندری سفر کی یکسانیت کا شکار ہوئے تو سب کی سالگرہ ،کرسمس پارٹیاں اور دیگر چھوٹی بڑی خوشی کے موقع پر رونق لگا کر اکتاہٹ سے بچنے کا انتظام کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سالِ نو کے موقع پر انہوں نے جہاز پر آتش بازی اور پارٹی میں خوب ہلہ گلہ کیا۔ پہلے پہل نیوی کے جہازوں پر، بعدازاں عام لوگوں اور پھر دیگر ممالک نے اس روایت کو اپنا لیا۔ نیو ایئر کے بارے میں ہر ملک کی روایات مختلف ہیں۔ امریکہ کی ریاست نیو یارک میں ٹائمز سکوائر سالِ نو کی تقریبات کا مرکز ہوتا ہے‘ جہاں رات کے بارہ بجے چمکتی ہوئی بال پر کائونٹ ڈائون یعنی الٹی گنتی کی جاتی ہے۔ سب کی نظریں اس بال پر ہوتی ہیں۔ اسے بال کا گرنا بھی کہتے ہیں۔ یہ نئے سال کی آمد کا اعلان ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ امریکہ کے دوسرے شہروں میں بھی مختلف چیزوں کو اونچائی سے گرانے کی روایت پائی جاتی ہے۔ ریاست انڈیانا کے لوگ خربوزے یا پمپکن (کدو) گرا کر نئے سال کا استقبال کرتے ہیں۔ یونانی اور ترکیہ والے انار کو خوشحالی اور برکت کا نشان سمجھتے ہیں۔ جاپان والے گھنٹیاں بجا کر نئے سال کی آمد کا اعلان کرتے ہیں۔ نئے سال کے موقع پر جاپان میں ایک سو آٹھ مرتبہ گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں۔ ڈنمارک کے لوگ گھروں سے باہر برتن خاص طور پر ٹوٹی پلیٹ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک اچھا شگون ہے۔ اگر آپ کا کوئی عزیز ڈنمارک میں ہے تو اس کے گھر سے باہر پلیٹ ضرور توڑیں تا کہ وہ خوش ہو کہ سن کے بارہ مہینے خیر و برکت سے گزریں گے۔ برازیل والے دال کھا کر سالِ نو کوخوش آمدید کہتے ہیں۔ وہاں دال کو پیسے اور خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سپین میں بارہ بجنے پر جب گھنٹہ بارہ دفعہ بجتا ہے تو وہ اس کے ساتھ گن کر بارہ انگور کے دانے کھاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے نئے سال کے ہر مہینے میں خوش نصیبی ملے گی۔ سالِ نو کے موقع پر رومانیہ کی روایت سب سے الگ ہے۔ وہ ریچھ کی کھال پہن کر سال کا استقبال کرتے اور ناچتے ہیں۔ ان کی لوک داستانوں میں ریچھوں کو بدی دور کرنے اور بیماریوں سے شفایاب کرنے میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح لاطینی امریکہ والے خالی بکسوں کے ساتھ چلتے ہیں۔ وہ اس کو مہم جوئی سے تعبیر کرتے ہیں۔ چین کے لوگ لال لفافوں میں، کوریا والے سفید لفافوں میں رقم ڈال کر بچوں کو دیتے ہیں۔ ان لفافوں پر بچوں کا نام لکھا جاتا ہے اور اسے خوش قسمتی کا پیسہ سمجھا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ اور میانمار کے لوگ واٹر گن سے ایک دوسرے پر پانی گرا کر سمجھتے ہیں کہ پانی ان کی گزشتہ سال کی برائیوں کو دھو دے گا اور نیا سال پاکیزگی سے شروع ہو گا۔ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں بڑے سائز کے مجسموں کے ساتھ مارچ کر کے نئے سال کا استقبال کیا جاتا ہے۔
باقی دنیا شاید اپنے اپنے انداز سے سالِ نو کو منانے کا اہتمام کرتی ہے جبکہ مسلم دنیا کے کیلنڈر میں محرم الحرام سال کا پہلا ماہ ہوتا ہے۔ قمری کیلنڈر مقررہ دنوں کے بجائے چاند کے گھٹنے‘ بڑھنے سے منسلک ہوتا ہے‘ اسی لیے قمری مہینے ایک ہی موسم یا ایک ہی تاریخ کے بجائے سال کے مختلف موسموں میں آتے ہیں۔ مسلم دنیا میں نئے سال کا آغاز عبادات اور دعائوں سے کیا جاتا ہے۔ عیسوی سال کو بھی مسلم دنیا میں اپنے اپنے انداز سے منایا جاتا ہے۔ خاندان کے بچے اور بڑے اکٹھے ہو کر پارٹی کرنا چاہیں تو الگ بات ہے مگر ایسی تقریبات مل کر بیٹھنے کا موقع ضرور فراہم کرتی ہیں۔ اصل چیز خوشیوں کو تلاش کرنا ہے اور خوش ہونے اور خوش رہنے کے لیے چھوٹے بڑے بہانے چاہئے ہوتے ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت ہے۔ اس کے اعلیٰ و ارفع مقاصد ہیں۔ بے شک ہماری پیدائش بے مقصد نہیں ہے۔ بقول آئن سٹائن '' اپنی زندگی کو مقصد کے ساتھ باندھ دو تو زندگی ضائع نہیں ہوگی‘‘۔ بطور مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی حاصلِ زندگی ہے اور مومن کی زندگی کا مقصد بھی یہی ہے۔ نبی کریمﷺ نے اُس راستے اور منزل کا تعین کر دیا ہے جو فلاح اور کامیابی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتب و صحائف میں واضح کر دیا کہ ایک خیر اور بھلائی کا راستہ ہے اور دوسرا بدی اور شر کا راستہ ہے۔ اب یہ ہم انسانوں پر منحصر ہے ہم کون سے راستے کی مسافت کو چنتے ہیں۔ اسی طرح سالِ نو تجدید ِ عہد کا موقع بھی مہیا کرتا ہے کہ ہم نے اپنے گزشتہ برس میں کیا کھویا؟ کیا پایا؟ کیا رہ گیا؟ کیوں رہ گیا؟ جو کھو گیا‘ وہ کتنا اہم تھا؟ جو نہ ہو سکا‘ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟
ہم ہمیشہ سنہرے مستقبل کے لیے خواب دیکھتے ہیں۔ خواب بُننا اہم ہے اور اپنے اہداف اور گول ہمیشہ اونچے اور بلند رکھنے چاہئیں۔ خوابوں کی تعبیر کوشش اور ہمت سے ملتی ہے۔ کبھی مایوس نہ ہوں تو راستے اور منزلوں کے حصول کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔ سالِ نو عمرکی گنتی میں ایک ہندسے کا اضافہ کرتے ہوئے ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ خود احتسابی کا عمل شروع کیا جائے کیونکہ اس جہاں کی زندگی میں جو زادِ راہ کمایا‘ اسی کی بنیاد پر دوسرے جہاں میں صلہ ملنا اور فلاح نصیب ہونی ہے۔ سورۃ النجم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔ اور بے شک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔ پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا‘‘۔ (آیات: 39 تا 41) اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی ایک حدیث ہے کہ عقل مند وہ ہے جو اپنا محاسبہ خود کرتا ہے اور موت کے بعد (کبھی نہ ختم ہونے) والی زندگی کے لیے عمل کرے۔ (جامع ترمذی)۔ اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ سے منسوب ایک قول ہے کہ خود اپنا محاسبہ کرو‘ قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔ پوری دنیا اپنے اپنے انداز میں، اپنی معاشرتی اقدار، روایات، خواہشات، نفسیاتی اور سماجی سوچ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جس طرح دنیا سمٹ کر گلوبل وِیلیج بن چکی ہے‘ سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ نے دنیا کو بہت قریب کر دیا ہے‘ ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں‘ متاثر ہوتے ہیں‘ اہم دن بھی مل جل کر مناتے ہیں اور دوسروں کے احساسات کی عزت کرتے ہیں لیکن ہمیں بحیثیت مسلمان نئے سال کے آغاز پر یہ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے کہ ہم سالِ نو کو کس طرح منائیں جو اسلامی تعلیمات اور قرآن و حدیث کی روشنی میں درست طریقہ ہو۔ نبی آخر الزماںﷺ نے نئے سال کے لیے ایک دعا تعلیم فرمائی ہے اور آپﷺ اس کی تلقین بھی فرماتے تھے۔ ''اے اللہ! اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن ، ایمان کی سلامتی، اپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما‘‘۔
سٹیفن گوئٹے کا کہنا ہے ''دنیا ایک دم سے سب کچھ تبدیل کرنا چاہتی ہے حالانکہ یہ چیز فطرت اور جبلت کے خلاف ہے‘‘۔ سالِ نو سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ زندگی کے مقاصد کو از سرِ نو منظم کرنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے، اصول اور ضابطے وضع کرنے کے ساتھ ترجیحات طے کرنے کا بھی یہی وقت ہوتا ہے۔ اگر ہم اس انتظار میں ہیں کہ جب حالات سازگار ہوں گے توکچھ کریں گے‘ تو جان لیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ جو سوچ رکھا ہے‘ اس کی منصوبہ بندی کریں‘ عادات ڈالیں اور آگے بڑھیں۔ قوتِ فیصلہ کی صلاحیت اسی طرح پختہ ہوگی۔ سالِ نو ہمیں نیا عزم، ہمت اور جہدِ مسلسل کی ترغیب دیتا ہے اور دنیا شاید اسی امید اور محبت کی نشانی کے طور پر خوشی اور شادمانی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ حزیں لہجے اور نم آنکھوں سے مانگی گئی دعا ہو یا رنگوں‘ روشنیوں سے معمور ماحول۔ کوئی پارٹی کرے یا بیمار‘ لاچار اور دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنے لیے باعثِ سعادت گردانے۔ سب کے اپنے انداز‘ اپنے ڈھنگ ہیں۔ خود کو مطمئن، پُرسکون اور شاد رکھنے کے اپنے اپنے رنگ ہیں۔ دنیا انہی متضادرنگوں اور خوشبوئوں سے عبارت ہے۔ قدرت کا عکس بھی اسی تنوع میں جھلکتا ہے۔ وہ عید، شبِ برأت، رمضان ہو یا سالِ نو کا موقع‘اپنے پیچھے سوچنے اور سمجھنے کو بہت کچھ چھوڑ جاتا ہے۔ مگر ہمارا اصل امتحان تو عہد و پیمان سے آگے شروع ہوتا ہے۔