زندگی جہدِ مسلسل اور جستجو کا نام ہے۔ زندہ رہنے کے لیے وسائل، ذرائع اور ضروریاتِ زندگی کا دستیاب ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی پیدا کردہ ہر مخلوق کو سامانِ رزق عطا فرماتا ہے۔ وہ ہر پرندے کو رزق مہیا کرتا ہے مگر اس کے گھونسلے میں نہیں ڈالتا۔ اس کے لیے انہیں صبح صادق اڑان بھرنی پڑتی ہے۔ وہ اپنے خالق کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے رزق کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا ''تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے گا جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتاہے۔ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ حال واپس آتے ہیں‘‘۔ (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ) یہ اللہ تعالیٰ پر توکل کی عمدہ مثال ہے۔ انسانوں کو بھی چاہیے کہ اپنے تمام امور میں اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کریں، مگر توکل کی حقیقت سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ ہمارا یہ ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تو کوئی کچھ دے سکتا ہے اور نہ ہی روک سکتا ہے۔ توکل کے ساتھ ساتھ اسباب، ذرائع اور محنت اختیار کر کے اپنے حصے کا رزق تلاش کرنا لازم ہے۔ ارشادِ ربانی ہے '' جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ اس کے لیے وہ کافی ہو جاتا ہے‘‘ (طلاق:3) ''اور توکل کرنے والوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہئے ‘‘ (ابراہیم:12 ) ''اور اللہ پر ہی بھروسہ کرو اگر تم اہلِ ایمان ہو ‘‘ (المائدہ: 23)۔ رزق کا تصور صرف کھانے پینے کی اشیا اور مال و دولت تک محدود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی اس دنیا میں بنایا ہے‘ وہ سب رزق ہے اور رزق رب العالمین کا عطا کردہ ہے۔ مال و زر، طاقت، عزت، شہرت، اولاد، رشتے، طرح طرح کے اناج، پھل پھول، صحت و توانائی، کائنات کا ہر ذرہ، چاند، ستارے، پہاڑ، دریا، سبزہ و گل، سمندر، پانی، انواع و اقسام کے جانور، چرند پرند، بادل، ہوا، گھٹا، ابر، کہکشاں گویا یہ سب کچھ رزق ہے۔ رزق ایسی نعمت ہے جس کی تقسیم کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ کسی کو کشادہ اور وسیع رزق عطا کرتا ہے اور بعض کو اس میں تنگی فرما دیتا ہے۔ وہ ایک منظم ضابطے کے مطابق تمام مخلوقات کو رزق پہنچاتا ہے۔ زمین پر رینگنے والے جاندار ہوں یا ہوا کے دوش پر اڑنے والے پرندے‘ سب اس کے دستِ قدرت سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ سمندر کی تاریکیوں میں بسنے والے جاندار اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے اوجھل ہیں نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پربسیرا کرنے والوں کو وہ فراموش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا تو اسے لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا '' جو کچھ ہو چکا اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے ‘‘۔ (سنن ترمذی، سنن ابودائود)۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک حدیث پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، اس کا مفہوم ہے کہ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک کی جاتی ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں میں نطفہ اور پھر اسی مدت میں مضغہ (گوشت) رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتیں لکھنے کا حکم دیتا ہے۔ اس کے اعمال، اس کا رزق، مدتِ زندگی، اور یہ کہ بد ہے یا نیک؟ اس حدیث شریف کو سمجھ لینے کے بعد بہت سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ کسی سے حسد نہ کسی سے دشمنی۔ خود کو حد سے زیادہ مشقت میں مبتلا کرنا پڑتا ہے نہ رزق کی تلاش میں غلط راستوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ مال و زر کی محبت، لالچ، ناجائز اور حرام طریقے سے دولت کے انبار لگانے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔ جب موت، زندگی، رزق، نصیب، نیکی، بدی تمام لکھ دیا گیا ہے تو پھر اطاعت، شکر گزاری، فرمانبرداری اور تقویٰ کی راہ اختیار کرنے کی راہ ہی انسان کے لیے باقی بچتی ہے۔ اللہ کی حمد و ثنا اور اپنی مرضی کو اس کی رضا کے آگے خم کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر خلیفۃ الارض بنایا۔ آزاد رائے رزق کی طرح بخشی۔ عقل و دانش، فہم و فراست بھی رزق ہے جس کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔ اولاد اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے سب سے خوبصورت نعمت ہے اور رشتے، ماں باپ، بہن بھائی خدا کا عطا کردہ وہ رزق ہیں جن کا احساس تنہائی کے لمحات میں زیادہ ہوتا ہے۔ انسان کی خوشی اور روح کی تسکین کے لیے دنیاوی زندگی کو رنگوں اور روشنیوں سے سجا دیا گیا ہے۔ زندگی خود بھی بہت خوبصورت نعمت ہے مگر موت اس سے بڑھ کر رب کی حکمتوں اور مصلحتوں سے عبارت ہے۔ اگر موت نہ ہوتی تو ہم اپنے عزیز از جان رشتوں کو مصیبت سمجھ کر کہیں پھینک آتے۔ بھول جانے کی نعمت عطا نہ ہوتی تو غم ہمیں کھا جاتے۔
رزق کسی بھی صورت میں ملا ہو‘ آزمائش ہے۔ وہ اختیار ہو، جاہ و مرتبہ ہو یا اولاد۔ زمین و جائیداد، کارخانہ یا فیکٹری و مِل ہو‘ دولت پر فخر کرنا، بے جا ذخیرہ کرنا اور ناجائز ذرائع سے ذاتی فائدہ اٹھانا کسی بھی طور درست نہیں۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ زمانے میں خیر اور شر کی لڑائی یومِ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ ایک طبقہ دنیا کو اپنے قبضے اور تصرف میں رکھنا چاہتا ہے۔ جانے کیوں وہ اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت ان ناپائیدار اور فنا ہو جانے والی چیزوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ دولت کو اکٹھا اور ذخیرہ کر کے آنے والی نسلوں تک کو منتقل کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ ظلم، قتل و غارت، حقوق کو غصب کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ بینکوں میں دولت کے ڈھیر، شاہانہ طرزِ رہائش، قیمتی ملبوسات، لگژری گاڑیاں اور جہاز، انواع و اقسام کے کھانے، میوہ جات اس وقت بے کار ہو جاتے ہیں جب صحت نہ ہو مگر لوگ سوچتے نہیں۔ نہ ہی انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے؟ دوسرا طبقہ قناعت پسندوں اور اللہ پر توکل رکھنے والوں کا ہے۔ خوفِ خدا، کامل ایمان اور یقین رکھنے والوں کا ہے۔ جن کی زندگیوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت اور دلجوئی ہے۔ محبت اور صبر و استقامت کے ساتھ یہ بنی نوع انسان کے راستوں کے کانٹے چنتے ہیں۔ انہیں اس بات کا کامل یقین ہے کہ اس عارضی دنیا کے بعد بھی ایک ابدی حیات شروع ہونے والی ہے جس کا راستہ اسی دنیا کے اعمال، کردار اور عبادات سے ہو کر جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم، جبر اور استحصال کے شکار لاچار انسانوں کی امید اور ڈھارس بن جاتے ہیں۔ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، بیماروں کے علاج معالجے کے لیے شفا خانے کھلواتے ہیں۔ بے گھروں کے سروں پر چھت مہیا کرتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کے لیے سکالر شپ، مالی امداد اور تعلیمی ادارے بناکر اصلاحِ ملت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں چن لیتا ہے۔ دولت اور رزق کی تقسیم ان کا مقصدِ حیات ہوتی ہے۔ یہی دنیا اور آخرت میں فلاح کے مستحق قرار پائیں گے کیونکہ ان کو دنیا کی کشش اور حرص نے اندھا نہیں کیا۔ یہ چند روزہ عارضی زندگی میں گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ انسانیت کی تحقیر و تذلیل نہیں کرتے۔ دوسروں کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں کرتے بلکہ اخروی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سوچتے ہیں۔ یہ دنیا جائے امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ رزق، نعمتیں اور زندگی دے کر آزماتا ہے۔ دنیا کی خوبصورتی، دلکشی اور رنگینی سب کو بھاتی ہے‘ اپنی طرف کھینچتی ہے۔ مکڑی کے جالے کی طرح منفی خیالات اور سوچوں کا جال بُنتی ہے۔ لالچ اور طمع کا حصار بناتی ہے۔ شیطان ورغلاتا ہے‘ لبھاتا ہے مگر رحمن کے بندے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رزق، وسائل، محبت اور وقت دوسروں میں تقسیم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ کمزور طبقات کو اپنے ساتھ ملا کر چلنے اور خدمتِ خلق کی راہ اپنانے والوں کو عزیز رکھتا ہے۔ آخرت کے طیب و پاکیزہ اور شیریں رزق پر بھی انہی لوگوں کا حق ہے۔
رزق کی تقسیم اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا اور پوشیدہ حکمتِ عملی کی تابع ہے۔ لہٰذا رب کی تقسیم پر راضی برضا ہونے کا نام ہی پرہیز گاری ہے۔ حسد، چھینا جھپٹی، چوری، راہزنی، رشوت، اور لوٹ مار سے حاصل رزق میں خیر ہوگی نہ برکت بلکہ یہ رب کی تقسیم سے اختلاف کرنے کے مترادف ہے۔ خیر اور بھلائی رزقِ حلال میں ہے جو اطمینانِ قلب اور روح کی تسکین کا سبب ہے۔ واضح رہے کہ حلال رزق کی تاثیر اگلی نسلوں تک اپنا اثر دکھاتی ہے۔ طیب رزق پاکیزہ افکار اور سوچ کی پرورش کرتا ہے یہی فلاحِ انسانیت، کامیابی و کامرانی کی منزل ہے اور اخروی زندگی کا زادِ راہ بھی۔