تاریخ گواہ ہے کہ غم و خوشی، راحت و رنج انسان کا مقدر رہے ہیں۔ قدرتی آفات زلزلوں، طوفانوں، بارشوں اور مہیب چنگھاڑ کی صورت میں ازل سے ظاہر ہوتی رہی ہیں۔ یہ سچائی اور حقیقت قرآنِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ پچھلی اقوام پر قدرتی آفات کی صورت میں ہی عذابِ الٰہی نازل ہوئے تھے۔ دور بدلا، انسان نے سائنسی ترقی کی، نت نئی ایجادات سے زندگیوں کو آسان اور پُر تعیش بنا لیا لیکن قدرتی ماحول کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوا اور فطری ماحول برباد ہو گیا۔ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج نے بھی خطرے کا الارم بجا دیا۔ کسی حد تک موسمیاتی تبدیلیوں کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے مگر ان کے ہولناک اثرات سے بچنے کا کوئی سلسلہ کار گر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چھ فروری‘ پیر کی صبح جنوب مشرقی ترکیہ اور شام کے سرحدی علاقوں میں قیامت خیز زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں اب تک چالیس ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ ترکیہ اور پاکستان برادر مسلم ممالک ہیں۔ مشکل کی ہر گھڑی میں ترکیہ نے پاکستان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا ثبوت دیا ہے۔ ترک بہت وضعدار اور خوددار قوم ہیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے حق میں برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ترکوں نے ہمیشہ اس احسان کو سراہا ہے۔ پاکستان میں 2005ء کا ہولناک زلزلہ ہو یا اس کے بعد سیلابوں کی تباہ کاریاں‘ ترکیہ کے حکمرانوں نے مکمل جذباتی وابستگی اور تعاون کا اظہار کیا اور ہر طرح کی امداد مہیا کی۔ جنوبی ترکیہ اور شام آج شدید آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں پچھلے سو برسوں میں بھی ایسا شدید زلزلہ نہیں آیا۔ آخری بار 13 اگست1821ء کو 7.4شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے بے تحاشا نقصان ہوا تھا اور صرف حلب شہر میں سات ہزار اموات ہوئی تھیں۔ انیسویں صدی کے اوائل کے بعد یہاں کبھی اس شدید نوعیت کا زلزلہ نہیں آیا۔یہی وجہ ہے کہ رہائشی عمارات کی تعمیر میں اس نکتے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ کثیر المنزلہ عمارتیں آنِ واحد میں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ زلزلہ چونکہ علی الصباح آیا‘ اسی لیے شہری سکون کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ ترکیہ کے شہر غازی التپ میں 7.8 شدت کا پہلا جھٹکا لگا۔ زلزلہ پیما سائنسدانوں کے مطابق زیرِ زمین گہرائی صرف اٹھارہ کلو میٹر ہونے کی وجہ سے پورا شہر الٹ کر رہ گیا۔ سرحد پار شامی علاقوں حلب اور حمار میں بھی ہزاروں افراد ملبے تلے دب کر جان کی بازی ہار گئے۔ ان علاقوں میں اس وقت شدید سردی ہے اور درجہ حرارت منفی ڈگری میں ہے۔ متاثرہ افراد کے لیے موسم کی شدت اور بے گھری قیامت سے کم آزمائش نہیں ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ زلزلوں سے بچ جانے والے افراد لمبے عرصے کیلئے شدید حزن و ملال، پژمردگی اور خوف کے سائے میں رہتے ہیں۔ ڈرائونے خواب ان کے ذہنوں پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ چار‘ پانچ دہائیوں میں دنیا بھر میں زلزلوں سے کروڑوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ مالی نقصان اور املاک کے نقصانات کا حساب لگانا شاید ممکن نہ ہو۔
زلزلے اور دیگر آسمانی آفات اللہ تعالیٰ کی آیات اور علامات میں سے ہیں۔ دینِ اسلام اپنے حقیقی خالق و مالک کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ آزمائش کے وقت مسلمانوں پر دو طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ مشکل کی گھڑی میں خود کو سنبھالنا، عقیدے کی حفاظت کرنا کہ کہیں مشکلات سے ایمان میں بے صبری، تنزلی یا بے یقینی نہ پیدا ہوجائے۔ دوسری ذمہ داری مسلم برادری کے لوگوں میں انذار کی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا کیونکہ وہ حقوق العباد کی خلاف ورزی کرتی تھی۔ ناپ تول اور لین دین میں کمی کرتی تھی۔ اشیا لینے کے وقت زیادہ لینے کی عادت تھی اور دیتے وقت اس میں کمی کر دیتی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم حیلے بہانے اور کٹ حجتی کی عادی تھی۔ سورۂ الزلزال میں ارشادِ ربانی ہے ''جب زمین اپنی پوری شدت سے ہلا دی جائے گی۔ اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ باہر نکال دے گی۔ اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے‘‘۔ یعنی روزِ محشر پورا کرۂ ارض ہلا دیا جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ علم (شرعی) اٹھا لیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہو جائے (صحیح بخاری)۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ قیامت کے قریب بہت زیادہ اموات ہوں گی اور پھر زلزلوں کے سال آئیں گے (مسند احمد)۔زلزلوں کے بارے میں مختلف مذاہب اور اقوام کی اپنی اپنی منطقیں ہیں۔ یہاں زلزلوں کے سائنسی نظریات کا انکار مقصود نہیں ہے بلکہ محض یہ بتانا ہے کہ پرانے وقتوں میں ہندوئوں کا ایک نظریہ تھا کہ ایک گائے نے کرۂ ارض کو اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو زمین ہلتی ہے۔ سامی مذاہب (یہودی مت، عیسائیت اور اسلام) میں زلزلوں کا ایک مقصد انسانوں کو ڈرانے اور سیدھی راہ پر گامزن رکھنا ہے۔ عظیم مفکرین افلاطون اور ارسطو کے مطابق زیرِ زمین گرم ہوا جب زمین کی پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے تو اس وقت زلزلے آتے ہیں۔
شام میں جنگ اور بدامنی کی وجہ سے لاکھوں شامی مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ وہاں پہلے ہی خوراک، علاج اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ زلزلے اور سرد موسم کی وجہ سے وہاں کے متاثرین کے حالات قابلِ رحم ہیں۔ بچے، عورتیں اور بزرگ مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو، ریڈ کراس اور دیگر تنظیمیں دنیا بھر سے امدادی سامان اور گھریلو استعمال کی اشیا کی متاثرہ علاقوں تک رسائی کو یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دریں اثنا ترکیہ کے وزیراعظم اپنی قوم کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ عمارتوں کے ملبے سے لاشوں کی تلاش بھی جاری ہے۔ رہائش، خوراک اور زخمیوں کے علاج معالجے کی ذمہ داری ریاست نے لے رکھی ہے۔ پاکستان نے اس موقع پر ترکیہ حکومت اور زلزلے سے متاثرہ افراد کی امدادی کارروائیوں میں فوجی دستے بھی بھیجے ہیں جنہوں نے ملبے میں دبے شہریوں کو نکالنے میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کام لیا۔ کنکریٹ کے بلاکس کو کاٹ کر زخمیوں کو نکالنے میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دیں جس کی تعریف دنیا بھر کی سماجی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کے نمائندوں نے بھی کی ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس نے زخمیوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ ہماری حکومت اور پوری قوم شام اور ترکیہ کے عوام کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں شانہ بشانہ کھڑے ہیں جبکہ حکومت امدادی سامان کے جہاز روانہ کر رہی ہے۔
بلاشبہ دلی سکون اور روحانی اطمینان کا راز محض انسانیت کے ساتھ احسن برتائو میں ہی مضمر ہے۔ قدرتی آفات ہمیں اپنی زندگی کے مقاصد اور ترجیحات متعین کرنے سے پہلے ایک بار پھر سوچنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم پلٹ کر دیکھیں کہ ہم کیوں اور کہاں بھاگ رہے ہیں؟ کہیں ہم کسی بے مقصد اور بے ہنگم دوڑ میں شامل تو نہیں ہو گئے؟ غالباً ہم نے دنیاوی آلائشوں اور مادہ پرستی کے غیر ضروری تقاضوں کے تعاقب میں اپنی نیندیں حرام کر رکھی ہیں، ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہوئی بظاہر یہ روشن چیز حرص و طمع کی پری ہے۔ ہم اس کے پیچھے دوڑتے ہیں اور پری کا محافظ دیو ہمارا تعاقب کرتا نظر آتا ہے۔ یوں ہم ایک وقت میں بہت سی زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بہت ساری اموات سے گزرنا پڑتا ہے۔ بقول واصف علی واصف ''ہم زندگی بھر زندہ رہنے کے فارمولے سیکھتے ہیں اور جب زندگی اندر سے ختم ہو جاتی ہے تو ہم بے بس ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم نے موت کا فارمولا تو سیکھا نہیں ہوتا۔ پس بغیر فارمولے کے مر جاتے ہیں۔ اسلام نے بامقصد زندگی کے ساتھ ساتھ ہمیں بامقصد موت کا فارمولا بھی بتا رکھا ہے۔ ہم موت کا وہ فارمولا بھول گئے ہیں۔ ہم مرتے نہیں‘ مارے جاتے ہیں۔ سستی اور کراہتی ہوئی موت‘‘۔