سوشل میڈیا کے ارسطو

بلاشبہ سوشل میڈیا آج کل رابطے کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر چند منٹوں تک فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، ٹک ٹاک، ریلیز اور سینکڑوں چھوٹی بڑی ایپس کو نہ دیکھا جائے تو بندہ جھنجھلا کر رہ جاتا ہے۔ بلاشبہ ان فورمز پر دنیا بھر کی معلومات میسر ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر شعبے کے ماہرین سوشل میڈیا پر ہی بیٹھ کر علم و دانش اور حکمت و دانائی تقسیم کر رہے ہیں۔ درست ہے کہ اکیسویں صدی معلومات، باہمی روابط اور مہارتوں کے حوالے سے اہم ہے۔ آج کون سا شعبۂ زندگی ایسا ہے جس کے بارے میں سوشل میڈیا پر ٹپس اور ٹرکس موجود نہیں۔ کھانا پکانے سے لے کر سر سے جوئیں نکالنے تک کی وڈیوز موجود ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لگتا ہے کہ اب کچھ بھی نجی نہیں رہا۔ جب میں برطانیہ آیا تو احساس ہوا کہ ہمیں اپنے دیس میں تین وقت میز پر کھانا ملتا ہے‘ کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ہماری خواتین کتنی محنت سے یہ سب اہتمام کرتی ہیں‘ کسی مقدس فریضے کی طرح۔ وہ ماتھے پر شکن تک نہیں لاتیں۔ میں نے چند دن تو یہاں باہر کا کھانا کھایا مگربہت جلد یہ جان لیا کہ فاسٹ فوڈ اور باہر کا کھانا صحت کو برباد کرے گا لہٰذا اپنا کھانا خود بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں یہ سہولت ہے کہ سبزی، گوشت، پھل وغیرہ‘ سب کچھ صاف ستھری پیکنگ میں ملتا ہے، بس لائیں اور پکا لیں۔ میں نے اپنا تیار کردہ کھانا جب فیس بک پر شیئر کیا تو تمام احباب میری اس منفرد صلاحیت سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ انواع و اقسام کے کمٹنس آئے۔ اہم بات یہ تھی کہ سب خوش ہوئے اور تعریف بھی کی۔ کسی نے کہا کہ آپ اپنا برانڈ کھول لیں۔ یہ سوشل میڈیا کی ہی بدولت ممکن ہوا کہ مرد و زن بلا تخصیص کچن کے کاموں میں حصہ لینے لگے ہیں۔ اس کام کو جھوٹی اَنا کا مسئلہ نہیں بنایا اور نہ ہی مردانگی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا یعنی قبولیت کی سند معاشرے سے مل گئی۔ ہم ہزاروں کی تعداد میں گائوں کے کچے پکے مٹی سے بنے چولہے میں آگ جلا کر مٹی کے برتنوں میں کھانا پکانے کی وڈیوز دیکھتے ہیں۔ جس گائوں کے ماحول اور سادہ زندگی کو چھوڑ کر ہم بناوٹی شہری زندگی کا انتخاب کر چکے ہیں‘ وہ اب سوشل میڈیا پر کمائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ یہ سب کچھ دکھا کر یوٹیوب سے ڈالرز کمائے جا رہے ہیں۔
غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس دوڑ میں پوری دنیا کے افراد تو شامل ہیں ہی‘ بچے بھی کود پڑے ہیں۔ بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی میڈیا پر پوسٹس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے پہل سیلیبرٹیز کی روز مرہ کی زندگی اور مصروفیات ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی تھیں مگر اب ہم سب سیلیبرٹی ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو اہمیت دی ہے اور یہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے جس نے کرۂ ارض پر بسنے والوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ جب موبائل فون نیا نیا آیا تھا تو اس وقت ہم اتنے میچور نہیں تھے کہ معتدل رویہ اپناتے۔ ہم نے رانگ کالز پر طبع آزمائی کی۔ اب یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ فیس بک کھولتے ہی کسی بازار کا سا سماں نظر آتا ہے۔ کہیں خواتین کپڑے بیچ رہی ہیں، کہیں مختلف نسخے لے کر چلتے پھرتے حکمت خانے نظر آتے ہیں۔ جوڑوں کا درد منٹوں میں رفع کرنے والے جادو بھرے ٹوٹکے لیے قسمیں کھاتے نیم حکیم اپنی ذہانت سے لوگوں کی کمزوریوں سے کھیلتے ہیں اور انہیں نفسیاتی طور پر ہپنا ٹائز سا کر لیتے ہیں۔ خواتین وی لاگرز نے میک اَپ کی اشیا سوشل میڈیا پر نہ صرف بیچنے کی ٹھانی ہوئی ہے بلکہ بیوٹی ٹپس کے ساتھ میک اَپ کرنے کی تربیت بھی یہیں پر جاری ہے۔
سوشل میڈیا پر ہر طرح کے اداکار بھی موجود ہیں۔ اصل تصویر لگا کر رپلیکا کی دھڑ ادھڑ فروخت میں دھوکا دہی اور فریب کاری کا مکروہ دھندہ بھی جاری ہے۔ ان سافٹ ویئرز اور ایپلی کیشنز کی طرح‘ وہ خود ساختہ عالم بھی موجود ہیں جن کے اپنے ہی نظریات ہیں۔ سیاسی مبصرین ایسے ایسے تجزیے، تبصرے اور ایسی خبریں پیش کرتے ہیں اور یوں پیش گوئیاں فرماتے ہیں گویا وہ فیصلہ سازوں کے مشیر ہوں۔ تھمب نیل پر مرچ مسالا لگا کر‘ خبروں کو توڑ مروڑ کر سننے والوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اس دھوکا دہی سے وہ پیسہ بھی کماتے ہیں اور رائے عامہ کو اپنی مرضی سے گھماتے بھی ہیں۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں صرف تین‘ چار ہی مسئلے ہیں۔ پہلا کھانا، بہت کھانا اور سب کچھ کھانا۔ دوسرا‘ وزن کا بڑھنا یعنی موٹاپے پر قابو پانا۔ یہ مسئلہ کبھی اتنا آسان نہ تھا جتنا آج فیس بک اور یوٹیوب پر مشورے دینے والوں نے بنا دیا ہے۔ ہر کوئی اجوائن، سونف، سفید زیرے، ادرک، لہسن اور پودینے کے قہوے کو دنیا کی بہترین دوا قرار دے کر معصوم لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ وڈیوز میں ٹوٹکے کے استعمال سے پہلے اور بعد کے مناظر نظر آئیں گے تو حیرت سے منہ ضرور کھل جائے گا۔ ایک نیم حکیم صاحب اپنے ایک وی لاگ میں کھیرے، تربوز، کالی مرچ اور شہد کے استعمال کے فوائد یوں بیان کر رہے تھے گویا ان اشیا کو استعمال کرنے والے کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے اور عمرِ خضر ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ تیسرا بڑا مسئلہ گورا چٹا ہونا اور سکن سے متعلق ٹوٹکے ہیں۔ السی، اسپغول، بادام، شہد، کافی، دہی، کیلے، مالٹے‘ غرض کیا نہیں ہے؟ جس کو دیکھو مختلف اشیا کا مکسچر بنا کر منہ پر تھوپنے کو تیار ہے۔ بالوں کے گرنے کے مسائل میں الجھا شاید ہی کوئی فرد ہو جس نے یہ ٹوٹکا نہ آزمایا ہو کہ ہر طرح کے تیل‘ جو روئے زمین پر موجود ہیں‘ کو یکجان کر کے میتھی دانہ اور کلونجی شامل کر کے بالوں میں لگایا جائے۔ خواہ اس نسخے کے چکر میں رہے سہے بال بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں مگر نسخہ بتانے والوں کو چنداں ندامت نہیں ہوتی۔ وہ مستقل مزاجی سے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ ایک موٹیویشنل سپیکر کو سننا شروع کیا‘ تمام وڈیوز دیکھیں۔ موصوف عائلی زندگی پر طبع آزمائی فرما رہے تھے۔ مذہبی تعلیمات کی کچھ سمجھ نہ مسلکِ اسلاف سے کوئی غرض اور نہ ہی کسی فقہی مسلک سے ان کی تصدیق ممکن ہو سکتی ہے۔ بڑے اعتماد سے غیر محرم خواتین کے جھرمٹ میں گھر اور خاندان کی بنیادیں ہلا رہے تھے۔ وڈیوز ہِٹ کرانے کے شوق میں ہم بچوں کو ایموشنلی بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مذہب اور عقائد تک کو نہیں بخشتے۔ نیکیوں کے پرچار اور دکھاوے میں دوسروں کی عزتِ نفس کو مجروح تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہ درست ہے کہ کی بورڈ واریئرز نے اپنی انگلیوں کی جنبش سے نوجوان نسل کو بہت سارے مواقع اور نئی دنیائوں سے روشناس کرایا ہے۔ اپنے ہنر اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نئے روزگار کے در کھول دیے ہیں۔ کئی وی لاگرز نے بہت نام کمایا اور حلال رزق بھی۔ اسی طرح ہیومن کیپٹل کی بنیاد پر ملکی اور معاشرتی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ یہی لوگ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نت نئے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر نئی دنیائوں کی تخلیق‘ تھری ڈی ٹیکنالوجی اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا استعمال کر کے زندگی اور کام کو آسان بنا کر دنیا میں انقلاب برپا کر دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب گلوبل سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ دنیا کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شیئر کرنے اور علم و ادب، سائنس و ٹیکنالوجی، طب، قدرتی حسن اور دیگر چیزوں کو عالمی سطح پر متعارف کرانے والے ملک کے سفیر کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں مگر انسان اپنی فطری کمزوریوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ حرص وہوس اور لالچ کے ہاتھوں مجبور ہو کر بہت سے افراد سوشل میڈیا کو دھوکا دہی اور فراڈ کیلئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ دست شناس کو پیشین گوئیاں کرتے دیکھیں تو وہ عالمِ بالا سے غیب کے راز لانے کے دعویدار دکھائی دیں گے۔ خود اعتمادی اس قدر کہ ناظرین کی بڑی تعداد کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ جعلی تعویذ گنڈے اور توہم پرستی کا کاروبار بھی خوب چمک رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہی اب استخارہ بک کرتے ہیں اور وظائف کے نام پر شریعت کی تعلیم سے دور لے جاتے ہیں۔ کئی ٹریول گائیڈز اور ویزہ ایجنٹس جعلی آئی ڈیز بنا کر لوٹ کھسوٹ کے مکروہ دھندے میں ملوث نظر آتے ہیں۔ اب اندیشہ اس بات کا ہے کہ سوشل میڈیا کے یہ ارسطو کہیں موت کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ نہ کر لیں۔ بس یہی ایک مسئلہ ہے جو اب تک ان کے علم و ہنر کی دسترس سے باہر نظر آتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں