ہر سال 8 مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1908ء میں نیو یارک میں تقریباً پندرہ ہزار خواتین نے کام کے اوقات کو دس گھنٹے سے کم کرنے، مردوں کے برابر معاوضہ اور ووٹ کے حق کے لیے کلارک زیٹکن نامی خاتون کی رہنمائی میں‘ جو خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن تھی‘ مارچ کیا۔ بعدازاں کوپن ہیگن میں سو کے قریب ممالک کی خواتین نے شرکت کی۔ 1911ء سے سالانہ طور پر اس دن کو منایا جاتا ہے۔ 1975ء میں اقوامِ متحدہ نے اس دن کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا۔ اس کا تھیم ''ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘‘ چنا گیا جس کا مقصد مردوں اور عورتوں کے درمیان عدم مساوات کے حوالے سے بیداری پیدا کرنا تھا۔ اس کی ضرورت آج شاید سب سے زیادہ ہے کیونکہ عورتوں اور کم عمر بچیوں کا استحصال آج بھی جاری ہے۔ کبھی رسم و رواج، کبھی غیرت اور کبھی خاندانی وقار کے نام پر۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران روسی خواتین نے ''روٹی اور امن‘‘ کے مطالبات کے لیے ہڑتال کی اور چار دن کے بعد سربراہِ حکومت کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا‘ یوں خواتین کو ووٹ کا عبوری حق بھی مل گیا۔ جس دن یہ احتجاج شروع ہوا وہ جوئلین کیلنڈر میں 23 فروری کا دن تھا‘ جو موجودہ کیلنڈر میں آٹھ مارچ کا دن بنتا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین جامنی، ہرے اور سفید رنگ کے لباس زیب تن کرتی ہیں۔ جامنی رنگ انصاف اور وقار کی علامت ہے۔ سبز رنگ امید اور سفید رنگ پاکیزگی اور امن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس دن روس میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ پھولوں کی فروخت دُ گنی ہو جاتی ہے۔ چین میں آدھی چھٹی ہوتی ہے جبکہ روم میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اس دن مموسا بلوسم کے پھول دیے جاتے ہیں۔ امریکہ میں خواتین کی کامیابیوں پر ان کو اعزازات دیے جاتے ہیں۔ اس سال کا تھیم ڈیجیٹل فار آل (Digital for all)؛ صنفی مساوات کے لیے ایجاد اور ٹیکنالوجی ہے۔ ٹیکنالوجی اور آن لائن تعلیم کے شعبوں میں لڑکیوں اور خواتین کی شمولیت اور تعاون کو تسلیم کرنا اور کامیابیوں کا جشن منانا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا تخمینہ ہے کہ اگر آن لائن دنیا تک خواتین کی رسائی کو یقینی نہ بنایا گیا تو درمیانی آمدن والے ممالک میں مجموعی گھریلو پیداوار کو ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی مجموعی آبادی میں خواتین کا تناسب تقریباً انچاس فیصد تک ہے۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل تین خواتین کو ہر طرح کے استحصال سے تحفظ کی ضمانت دیتا اور مردوں کے مساوی حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ایک مسلم ملک میں رہتے ہیں اور اسلام کے زریں اصولوں اور قوانین میں خواتین کو سب سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ پھر کیا امر مانع ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی عزت و تکریم میں کمی آتی جا رہی ہے۔ تعلیم کی ناکافی سہولتوں کے سبب دو کروڑ سے زیادہ بچے سکول سے باہر ہیں جن میں زیادہ تر لڑکیاں شامل ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل اور کم عمری کی شادیاں، بچیوں سے جبری مشقت جیسے جرائم عام ہیں۔ اگرچہ یہ معاشرتی حقائق اپنی جگہ موجود ہیں مگر ہماری خواتین نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی انہیں مواقع ملے‘ وہ کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئیں۔ کاروباری میدان ہو، سیاست کی دنیا ہو، سول سروسز ہوں یا دفاعی محاذ‘ ان سب شعبوں میں خواتین نے اعلیٰ عہدوں پر نمایاں کارنامے سرانجام دیے ہیں۔
آج کے جدید دور میں معاشرتی اقدار تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو بہت قریب کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی کچھ خواتین مغربی دنیا کی زندگی اور سماجی رویوں سے متاثر ہوتی نظر آرہی ہیں۔ گو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جانے کیوں انہیں اپنی دھرتی سے اُگنے والے معاشرے سے گلہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ جدید نظریات سے متاثر ہو کر اپنی دھرتی کی صدیوں سے جاری تہذیب و تمدن سے منہ موڑتی نظر آتی ہیں۔ ان کے لب و لہجے میں ایک عجیب سی حقارت اتر آئی ہے۔ مقابلہ بازی اور جھوٹی اَنا کی تسکین کے سوا اس میں کوئی بھلائی اور منطق بظاہر نظر نہیں آتی بلکہ اعتماد اور یقین کے نقصان کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت میں مرد و زن کی یہ کشمکش نمایاں ہو جائے گی۔
گھر وہ ادارہ ہے جہاں محبت، خلوص اور احساس کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ نجانے ہم دو انتہائوں کو کیوں چھو رہے ہیں؟ یہ عہد کرنا ہو گا کہ اس کرۂ ارض کی خوبصورتی مرد و زن کے درمیان ایک مضبوط اور مستحکم تعلق کے مرہونِ منت ہے جسے یقینی بنانے کے لیے حضرات و خواتین‘ دونوں کو اپنا برابر حصہ ڈالنا ہوگا۔ لازم ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کریں۔ زندگی سے خوبصورت لمحوں کو کشید کر کے باہمی محبت کو پروان چڑھائیں۔ مرد صنفی امتیاز سے بالاتر ہو کر دنیا بھر کی مظلوم خواتین اور بچیوں کو تشدد ، بھوک اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہر مرد اپنے کنبے کا راعی ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ دار بھی۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے بطن کو زندگی کی تخلیق کا منبع بنایا ہے۔ مضبوط مردوں کو جنم دینے والی عورت بھلا کمزور اور کمتر کیسے ہو سکتی ہے؟ عورت وہ ہستی ہے جو بنی نوع انسان کو گود میں پالتی ہے‘ انہیں رزق مہیا کرتی ہے۔ عورت ہی انسان کے لیے سب سے قابلِ احترام رشتہ ہے اور اسی کے پائوں کے نیچے جنت رکھی گئی ہے۔ عورت بہن ہے تو بھائیوں کی محبت کا مان؛ حضرت شیماؓ کی صورت میں ایک رول ماڈل۔ بیٹی ہے تو رسول اللہ ﷺ کی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراؓ، جنت کی عورتوں کی سردار ہمارے لیے رول ماڈل ہیں۔ اسلام مر د وزن کے حقوق کو الگ الگ تسلیم کرتا ہے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ النساء میں ربِ تعالیٰ نے وراثت میں خواتین کے حقوق کی وضاحت فرما دی ہے۔ ماں ہے تو بیٹوں کی وراثت میں شریک، بہن ہے یا بیٹی تو بھائیوں اور باپ کی وراثت میں حصہ دار، بیوی ہے تو نان نفقہ، مہر اور خاوند کی جائیداد میں شراکت دار ہے۔ اسلام نے عورت کی عزت اور حقوق کا مکمل چارٹر آج سے چودہ صدیاں قبل ہی متعارف کرا دیا تھا۔
بلاشبہ عورت رب کی نعمتوں میں سے ایک منفرد انعام ہے۔ اس کا وجود محبت، تکریم، دلکشی اور رنگ و روشنی کا منبع ہے۔ زندگی میں جتنی رونق اور شادمانی ہے، عورت کے حسن کا عکس ہے۔ کائنات کی خوبصورتی بھی اس کے رخِ روشن سے ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس کے حسن و دلکشی، بلند ہمتی اور مضبوط ارادوں کے آگے بڑے بڑے بلند قامت جری آدم زاد ہیچ ہوئے۔ عورت ایثار و وفا کا پیکر ہے وہ صرف عزت اور وقار کی متلاشی، تحفظ کی متمنی اور سراپا عشق و محبت ہے۔ وہ اگر فیصلہ کر لے تو چٹان کی طرح مضبوط ہے۔ بقول شاعر:
عورت ہوں مگر صورتِ کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں