آغوشِ فطرت میں گزری ایک یادگار شام

شہرہ آفاق برطانوی شاعر ولیم ورڈز ورتھ سے میرا پہلا تعارف کالج کے ابتدائی ایام میں ہی ہو گیا تھا۔ نصاب میں شامل اس کی مشہور نظم ''ایکوئنگ گرین‘‘نے فطری حسن کی دلکشی کی جو تصویر کھینچی‘ وہ قلب و روح میں اتر گئی۔ تعلیمی سفر جیسے جیسے آگے بڑھا اس عظیم شاعر کے شعر و سخن کے ساتھ بالعموم اور اس کی فطرت کے ساتھ عقیدت کی حد تک محبت سے بالخصوص رغبت ہونے لگی۔ دیہاتی وسیب اور سادہ طرزِ زندگی کا شب و روز مشاہدہ اور ذاتی تجربہ ہونے کے باعث ولیم ورڈزورتھ کی مظاہر فطرت کی رعنائیوں پر مبنی شاعری کو سمجھنا میرے لیے کبھی دشوار نہیں رہا۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز ڈگری کے دوران لارڈ بائرن، ایس ٹی کالریج، جان کیٹسن اور شیلے کوبھی پڑھنے کا موقع ملا مگر میرا پسندیدہ شاعر ولیم ورڈزورتھ ہی رہا کیونکہ اس کے اشعار میں فطرتی حسن، رنگ و خوشبو اور سادہ لوح دیہاتیوں کا تذکرہ مجھے بے پناہ متاثر کرتا رہا۔ اس کے نزدیک فطرت ہماری ماں جیسی ہے اور ہم اس کی گود میں پرورش پاتے ہیں۔ جب تک انسان فطرت کی بانہوں میں موجود رہتا ہے اس میں سادگی، سچائی اور اخلاص بدرجہ اتم پایا جاتا ہے مگر جیسے انسان مصروف شہری زندگی کا رخ کرتے ہیں‘ مادہ پرستی اور دنیاداری کی آلائشوں میں الجھ جاتے ہیں اور یوں ان میں خالص پن ناپید ہو جاتا ہے۔ ورڈزورتھ کے نزدیک فطرت کے اندر زندگی کے سارے رنگ نمایاں ملتے ہیں اور تمام مظاہرِ فطرت زندہ و تابندہ‘ اس کے ساتھ ہم کلام ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں وہ پھولوں کی مہکار سے لطف اندوز ہوتا ہے تو کہیں پرندوں کی چہکار میں اسے نغمے سنائی دیتے ہیں۔ کبھی وہ ہوائوں کی سرسراہٹ میں شہنائی سنتا ہے تو کہیں تتلیاں اس کے کانوں میں سرگوشیاں کرتیں ،اٹکھیلیاں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسے پہاڑوں، آبشاروں، جھرنوں اور سیاہ راتوں میں جھلمل کرتے ستاروں میں ہمہ وقت زندگی رقص کرتی نظر آتی ہے جس میں ذہنی آسودگی اور روحانی بالیدگی کے کئی اسباب موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ولیم ورڈزورتھ کو شاعرِ فطرت بھی کہا جاتا ہے۔ لگ بھگ تین سو سال قبل اس نے فطرت اور انسان کے درمیان جس اٹوٹ اور گہرے رشتے کی بات کی تھی آج بھی وہ اپنی جگہ حقیقت ہے۔ سائنسی ترقی کے بعد میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سرسبز و شاداب وادیاں، پہاڑ، آبشاریں اور جھیلیں انسان کی جسمانی صحت اور روحانی سکون کی ضمانت ہیں۔
مظاہرِ فطرت کے ساتھ اپنی گہری وابستگی پر مبنی لازوال شاعری کے سبب ولیم ورڈزورتھ نے جہاں دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو اپنا گرویدہ کر رکھا ہے وہاں لنکا شائرمیں موجود میرے کئی دوستوں کو بھی اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ برنلے، نیلسن اور اس کے مضافات میں رہنے والے میرے یہ احباب فِل وا کرز گروپ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جس کی قیادت چودھری نجف محمود کیلئے باعثِ سعادت بھی ہے اور لائقِ افتخار بھی، کیونکہ اسے برطانیہ بھر کے صحت افزا مقامات کے بارے میں نہ صرف مکمل معلومات ہیں بلکہ ہرویک اینڈ پر کسی ایک ہائیکنگ ٹریک کے انتخاب سے لے کر جملہ انتظامات تک سب انہی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بیس‘ بائیس دوستوں پر مشتمل یہ قافلہ ہر ہفتے دس سے پندرہ میل دور کسی پُر فضا مقام کا انتخاب کر کے واک کیلئے روانہ ہوتا ہے اور اس طرح فطرتی حسن کی دولت سے مالا مال ہو کر شام کو واپس لوٹ آتا ہے۔ لنکا شائر سے لے کر یارک شائر اورقنمبریہ سے لے کر لیک دسٹر کٹ تک یہ مظاہرِ فطرت کی آغوش میں سامانِ راحت تلاش کرتے رہتے ہیں اور اس مشینی زندگی سے دور خوبصورت نظاروں میں موجود رنگ و خوشبو سے اپنی سانسیں معطر کر کے ذہنی، جسمانی اور روحانی طاقت کشید کرتے رہتے ہیں۔ چند احباب ستر برس سے زائد عمر ہونے کے باوجود چاق و چوبند اور پھرتیلے ہیں جو دراصل ان کی صحت مندانہ سرگرمیوں کے اثرات پر مؤثر دلیل ہے۔
گزشتہ چند سال سے اس متحرک گروپ نے ایک اور شاندار طرح ڈالی ہے۔ لنکا شائر اور یارک شائر کے سنگم پر واقع گزبرن فاریسٹ کے عین وسط میں یہ ہر ماہ باقاعدگی سے ایک شام اکٹھے ہوتے ہیں، لکڑیاں جلا کر بون فائر کرتے ہیں، محکمہ جنگلات کی طرف سے فراہم کردہ خیمے میں موجود انگیٹھی میں انگاروں کو دہکاکر کے سرد شاموں میں بھی سامانِ راحت پیدا کر لیتے ہیں۔ سرِشام آگ کے الائو کے ساتھ نرم گرم گفتگو کا آغاز ہوتا ہے، کبھی سیاسی موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں تو کبھی اچانک ضمیر طالب جیسے باصلاحیت شاعر کی موجودگی سے شعر و سخن کی محفل جم جاتی ہے۔ ویسے ضمیر طالب کو جتنا ملکہ تحت اللفظ ادائیگی پر ہے اس سے کہیں زیادہ مہارت اس کی فنِ لطیفہ گوئی میں ہے۔ ہر لطیفہ برمحفل، برجستہ اور سیاق و سباق سے ہم آہنگ اور وہ بھی اپنے منفرد اندازِ بیان میں۔ یوں ضمیر طالب گویا محفل کی جان ہیں جس کی وجہ سے چودھری ریاض احمد جیسے مدبر اور چودھری عبدالغفور جیسے سنجیدہ شخص کی موجودگی بھی اثر نہیں ڈالتی اور وہ رنگ میں بھنگ نہ ڈالنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ انہیں اسی بات کا یقین ہے کہ بصورتِ دیگر ضمیر طالب کی توپوں کا رخ کسی وقت بھی ان کی طرف ہو سکتا ہے۔ یہاں مغرب کی نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے اور اس کے بعد ایک پُر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں فِل واکرز گروپ کے اپنے اراکین کے علاوہ، مہمان بھی شریک ہوتے ہیں جن کی مجموعی تعداد چالیس سے پچاس تک پہنچ جاتی ہے۔ زندگی سے بھرپور اس گروپ کے اندر کئی ہونہار فنکار، گلوکار اور قوال بھی موجود ہیں جو اپنے خوبصورت فنِ موسیقی سے جنگل میں منگل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ سید فیض رسول کو اللہ تعالیٰ نے نہایت دلآویز آواز سے نوازا ہے اور وہ برطانیہ کے مانے ہوئے نعت خواں ہیں مگر انہیں صوفیانہ کلام، غزل کی گائیکی اور قوالی پر بھی ملکہ حاصل ہے۔ میرے ہمدمِ دیرینہ امتیاز کاظمی کا صاحبزادہ افراز علی بھی گائیکی میں بڑا نام کما چکا ہے۔ وہ بھی سُر تال کے اسرار و رموز سے خوب واقف ہے اور اپنی خوبصورت آواز سے سامعین پر سحر طاری کر دیتا ہے جبکہ اسی گروپ کے ہر دلعزیز رکن شکیل سلام‘ اپنی فنی مہارت کے ذریعے فِل واکرز گروپ کی تمام اہم تقریبات کی شاندار عکس بندی کرتے رہتے ہیں۔
میری خوش نصیبی کہ گزشتہ ہفتے کی شام مجھے زندہ دل دوستوں پر مشتمل اس گروپ کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ گروپ کے ایک متحرک رکن انجینئر عبدالحمید قریشی نے بوسٹن سے لنکا شائر جاتے ہوئے مجھے لیسٹر سے پک کیا اور اپنے ہمراہ اس خوبصورت محفل میں میری شرکت آسان بنادی۔ حسبِ پروگرام گزبرن جنگل کے اندر منعقد ہونے والی یہ یادگار شام پانچ بجے بون فائر سے شروع ہوئی۔ ضمیر طالب کے لطائف نے ہنسا ہنسا کر سب کو ادھ موا کیا۔ اسی دوران پاپ کارن، مونگ پھلی، کینو، چاکلیٹ اور سافٹ ڈرنکس سے تواضع جاری رہی۔ سید فیض رسول کی امامت میں نمازِ مغرب ادا کی گئی۔ اس کے بعد لذیز کھانوں پر مشتمل ضیافت خیمے کے اندر سجادی گئی جہاں دھکتی انگیٹھی نے ماحول قابلِ راحت بنا دیا تھا۔ پھر افراز علی، فیض رسول ، توفیق واسطہ اور بریڈورڈ سے خصوصی طور پر بلائے گئے شاہِ مردان قوال اور ان کے ہمنوائوں نے ایسا سماں باندھا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور رات ڈھلنے لگی۔ آغوشِ فطرت میں گزری یہ یادگار شام ولیم ورڈزورتھ کے نام‘ جو گزبرن فاریسٹ سے لگ بھگ باسٹھ میل دور منوں مٹی تلے سویا ہوا ہے مگر فطرت کے ساتھ اس کا لازوال عشق آج بھی زندہ و جاوید‘ چار سو موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رات ڈھلے جب میں اور قریشی صاحب گزبرن جنگل سے واپسی کیلئے عازمِ سفر ہوئے تو تاروں بھرے نیلے آسمان کے نیچے دراز قد بوڑھے درختوں کے سناٹے میں ہمیں ولیم ورڈزورتھ کے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے اداس رات بانہیں پھیلائے ہمارا راستہ روک رہی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں