اس نے 1964ء میں فیصل آباد کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی مگر دستِ قدرت نے اسے بے پناہ ذہانت اور غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال کر رکھا تھا۔ وہ ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کرتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا اور کچھ بڑا اور منفرد کرنے کے لیے اس نے اَن گنت خواب دیکھے۔ بہت سی آرزوئوں، امنگوں اور خواہشات کا جہان آباد کر کے وہ ایک نئی دنیا کی تلاش میں عازمِ سفر ہوا۔ یہ سفر اس نے اپنے تخیل کی اس دنیا میں شروع کیا جسے وہ جینا چاہتا تھا؛ ایک ایسی زندگی جس میں مالی آسودگی ہو، عزت، طاقت، شہرت، اختیار اور مقام و مرتبہ ہو۔ اپنے انہی خوابوں کی تعبیرمیں وہ تاریخ ساز تعلیمی درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور آن پہنچا اور 1989ء میں فلسفہ جیسے خشک مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دورانِ تعلیم وہ نیو ہاسٹل میں قیام پذیر رہا اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے سبب بہت جلد کالج کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ میں یکساں مقبول ہو گیا۔ اپنی ذہانت اور فنِ تخلیق کی بدولت اس نے شعر و سخن سے شغف بڑھایا اور مزاحیہ شاعری پر ایسا ملکہ حاصل کیا کہ پورے کالج میں وہ ایک سیلیبرٹی بن گیا۔ ہمہ وقت اس کے اردگرد اس کی مزاحیہ شاعری سننے والوں اور داد و تحسین دینے والوں کا جمِ غفیر رہتا۔ بڑے زمیندار گھرانوں اور ممتاز سیاسی اور کاروباری شخصیات کے چشم و چراغ اس کے ساتھ میل ملاپ اور ذاتی تعلق پر فخر کرتے تھے۔ وہ ایک بے ضرر، بے لوث اور صاف گو انسان تھاجس کا مقصد اپنے اردگرد لوگوں میں خوشیوں کی خیرات بانٹنا تھا۔
اس کی قائدانہ صلاحیتوں اور خوش گفتاری کے باعث اس کے قریبی ساتھیوں‘ نعیم عزیز سندھو، اس کے فرسٹ کزن ہارون موکل اور ملک احمد خان‘ جو ایک جانی پہچانی سیاسی شخصیت ہیں‘ نے اسے ترکی ٹوپی، اچکن، سگار، ایک برانڈڈ عینک اور چھڑی خرید کر دی جسے اس نے اپنا پسندیدہ لباس بنا لیا اور بود و باش میں وہ واقعی کسی بڑے جاگیردار گھرانے کا نواب دکھائی دینے لگا۔ شہرت کی دیوی اس پر پوری طرح مہربان تھی۔ کالج کی لڑکیوں میں اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ فیصل آباد کا خالد محمود اب ''نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ‘‘ بن چکا تھا‘ جسے ترکی ٹوپی، اچکن، عینک، سگار اور چھڑی نے منفرد پہچان دی تھی۔ یہی مخصوص لباس پھر اس کی شخصیت کی ہمیشہ کے لیے پہچان بن گیا۔ اسی شباب‘ گلاب رُت میں وہ ایک حسینہ کے دامِ الفت میں گرفتار ہوا اور اسے چاہنے لگا۔ مگر وہ محض یک طرفہ محبت تھی‘ جسے ڈاکٹر امبر شہزادہ پا سکا نہ ہی بھلا سکا۔
جس سال اس نے ایم اے کی تعلیم مکمل کی‘ اسی سال میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب علم کے طور پر داخل ہوا۔ اس وقت نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ اپنی شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ ایک سینئر دوست نے میرا بھی نواب صاحب سے تعارف کرادیا۔ میں بھی دیگر مداحین کی طرح اس کی فطری ذہانت، حاضر دماغی، حسِ مزاح، مزاحیہ شاعری اور بے لوث محبت کا پرستار بن گیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی ناکام محبت کا غم غلط کرنے کے لیے اکثر چائے میں کولا شامل کر کے نوش کرتے اور چین سموکر بھی بن گئے۔ اپنی محبت کو امر کرنے کے لیے انہوں نے ایک منفرد انداز اپنایا اور اپنی محبوبہ کی تعظیم میں استعمال ہونے والے تین القابات پر مبنی ایک سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور اسے ''آپ جناب سرکار فیڈریشن‘‘ کے نام سے الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ بھی کرایا۔ نعیم عزیز سندھو بتاتے ہیں کہ پہلا الیکشن ڈاکٹر صاحب نے لاہور کے مشہور حلقہ این اے 99سے ملک معراج خالد مرحوم کے مقابلے میں لڑا اور مجموعی طور پر 8ووٹ حاصل کیے۔گوالمنڈی سے انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بھی الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ کونسلر سے صدرِ پاکستان تک‘ کوئی الیکشن ایسا نہ تھا جس میں انہوں نے حصہ نہ لیا ہو۔ سیاست میں کرپشن اور وفاداری بدلنے والوں پر اپنے مخصوص انداز اور مزاح میں تنقید کرتے تھے اور خود کو ''نیم کرپٹ‘‘ اور ''انجمنِ ضمیر فروشاں‘‘ کا صدر کہتے تھے۔
1990ء کے عام انتخابات میں ان کی ایک کارنر میٹنگ کی میزبانی مجھے اور سیف انور بھائی کو سونپی گئی۔ میں نے بطور میزبان سنت نگر‘ابدالی روڈ پر ہونے والے اس سیاسی اجتماع میں شرکا کی تعداد کے بارے استفسار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں بتایا کہ بس سویا دو سو بندوں کا بندوبست کرنا۔ اگلے روز عصر کے وقت طے شدہ پروگرام کے مطابق ڈاکٹر صاحب اپنے روایتی لباس میں لگ بھگ بیس افراد پر مشتمل ایک سیاسی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے جلوہ افروز ہوئے جس میں واضح اکثریت ڈھولچی حضرات اور لڈیاں ڈال کر ناچنے والوں کی تھی اور جن کی خدمات اُس زمانے میں کلمہ چوک سے بہ آسانی دستیاب ہو جاتی تھیں۔
ڈاکٹر صاحب تین دہائیوں تک ہونے والے انتخابات میں اپنی پارٹی کے اکلوتے امیدوار کے طور پر مسلسل حصہ لیتے رہے اور لاہور کے اپنے مخصوص انتخابی حلقے کے وہ واحد ووٹر تھے جو اپنی پارٹی کے وجود کی ضمانت بنے رہے۔ اپنی ناکام محبت کو مزاحیہ شاعری، سیاسی شغل میلے اور مخصوص وضع قطع اور بود و باش کے باوقار لبادے میں چھپا کر رکھنے والا نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ گورنمنٹ کالج لاہور اور اس سے فارغ التحصیل طلبہ کی یونین اولڈ راوینز کی پہچان بن گیا تھا۔ گزشتہ تیس برس میں شاید ہی اولڈ راوینز کا کوئی ایسا فنکشن یا تقریب ہو جو ڈاکٹر امبر شہزادہ کے بغیر مکمل ہوئی ہو۔ 19مارچ کو اولڈ راوینز یونین کے انتخابات میں بھی وہ اپنے مخصوص لباس اور انداز میں شریک ہوئے، ووٹ ڈالا، شغل میلہ لگایا ،لطائف سے دوستوں کو محظوظ کیا اور کالج کی فضائوں میں قہقہے لگائے۔ چند دن بعد ہی‘27مارچ کو اچانک وہ اپنے دلِ ناشاد کی جان لیوا بے وفائی کے سبب مجھ سمیت اپنے سینکڑوں چاہنے والوں کو افسردہ چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آسودۂ خاک ہو گئے۔
سوموار کی شام ڈاکٹر صاحب کے اچانک انتقالِ پُر ملال کی اندوہناک خبر مختلف وٹس ایپ گروپس اور دیگر سوشل میڈیا فورمز پر شیئر ہوتے ہی جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ان کے دوستوں اور مداحوں پر مبنی وسیع حلقۂ احباب کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ زندگی سے بھرپور، خوش طبع اور ملنسار انسان اچانک اس طرح داغِ مفارقت دے سکتا ہے مگر موت کے وقت اور جگہ کا تعین انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی کر دیا جاتا ہے اور اس تلخ حقیقت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔
وطن سے دور یہاں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزرے گزشتہ تیس برس سے زائد عرصے اور اس دوران ہونے والی اَن گنت ملاقاتوں کے بعد یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خالد محمود المعروف نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ صحیح معنوں میں ایک اعلیٰ ظرف، مخلص، بے لوث اور صاف گو انسان تھے۔ انہوں نے ساری زندگی اپنے خوبصورت خیالات، احساسات اور آرزوئوں سے تعمیر کیے گئے ایک حسین خواب نگر میں باوقار انداز سے گزار دی۔ وہ اس دلفریب خواب نگر سے اب ہمیشہ کے لیے ایسے جہان میں جا پہنچے ہیں جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں لوٹ سکا مگر وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ ایک شہزادہ بن کر راج کرتے رہیں گے۔
احمد ندیم قاسمی نے سچ ہی تو کہا تھا:
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی