رحمتوں‘ برکتوں اور عظمتوں والا ماہِ رمضان ہمیشہ کی طرح تیزی سے اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ بلاشبہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر رفعتوں والے اس مبارک مہینے میں سحرو افطار کے روح پرور لمحات نصیب ہوئے ہیں۔ یہاں برطانیہ میں قیام کی وجہ سے اس مرتبہ رمضان المبارک کی وہ روایتی گہما گہمی میسر نہیں۔ مسجد میری رہائش سے لگ بھگ دو کلو میٹر پر واقع ہے جہاں جمعہ کی نماز کی ادائیگی ہی باعثِ غنیمت ہے۔ لہٰذا میں نے سحر و افطار کے اوقات پر مبنی ایک کیلنڈر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر رکھا ہے جس کی مدد سے سحری اور افطاری ممکن ہو پاتی ہے۔ پانچ وقت نماز کے لیے بھی میرے موبائل میں ایک ایپ کی بدولت اذان کی سہولت موجود ہے جس سے وقت پر نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ سب کچھ اب ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت ہو چکا ہے۔ اس مشینی طرزِ زندگی سے رمضان کریم کی پُرکیف فضائوں اور رعنائیوں کا رنگ تھوڑا پھیکا پڑ چکا ہے۔ مسجد سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے اور نہ ہی سحر و افطار کی وہ رونقیں نظر آتی ہیں جو پیارے پاکستان میں اپنے پیاروں کے ساتھ نصیب ہوتی ہیں۔ یہاں سرِ شام عملی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ کاروباری مراکز‘ دفاتر اور شاپنگ مالز بند ہو جاتے ہیں تو لوگ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ شام کے بعد رہائشی علاقوں میں ہُو کا عالم ہوتا ہے اور چار سو خامشی چھا جاتی ہے حتیٰ کہ ہوا کی سرسراہٹ بھی کھڑکیوں سے زور سے آکر ٹکراتی ہے تو ڈر لگتا ہے۔ رات ڈھلے جب آسمان پر چاند ستارے گہرے بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتے ہیں اور رم جھم برستی بارش موسم کو انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہے تو اس بابرکت مہینے میں تہجد کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔ اس روح پرور ماحول میں ربِ کریم سے ہم کلام ہونے کا لطف ناقابلِ بیاں ہے۔
گزشتہ رات سحری سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل اچانک تیز بارش شروع ہوئی تو میری آنکھ کھل گئی۔ باوضو ہو کر نمازِ تہجد ادا کی۔ پھر تلاوتِ قرآنِ مجید کے لیے سورۃ مزمل کی آیات کا انتخاب کیا کیونکہ والدِ گرامی اکثر رات کو اپنے خوبصورت لحن میں اس سورۃ مبارکہ کی تلاوت کرتے تو اک سماں باندھ دیتے تھے۔ تلاوتِ قرآنِ مجید کے بعد بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ بلند ہوئے تو حسبِ روایت سب سے پہلے اپنے والد مرحوم کی مغفرت کے لیے ربِ دو جہاں سے التجائیں کیں۔ مگر اب کی بار معاملہ ذرا مختلف تھا۔ اچانک یادوں کا اک سیلاب امڈ آیا۔ ایک طرف بادل‘ بارش اور تیز ہوا تو دوسری طرف میری آنکھوں میں ساون کی جھڑی لگ گئی۔ چھتیس سال پہلے ٹوٹنے والی وہ پیار بھری رفاقت یاد آگئی جس کے بعد ایک لمبے عرصے تک باپ کے بغیر چمنِ زیست میں خزاں رت کے بسیرے رہے۔ مجھے اپنی بے بسی اور بے کسی کے شیش ناگ نے ڈسنا شروع کیا اور یہ احساس گہرا ہوتا گیا کہ میں کس طرح پڑھائی کی خاطر گائوں کے قبرستان میں آسودۂ خاک والدِ گرامی کو اکیلا چھوڑ کر یہاں سات سمندر پار آپہنچا ہوں جہاں مجھے ان کی قبر مبارک کی زیارت کی سہولت میسر نہیں۔ پاکستان میں تھا تو ہر ویک اینڈ پر گائوں جانا میرا معمول تھا۔ گائوں جاتے ہی میری گاڑی قبرستان کے پاس رکتی اور میں ہفتہ بھر کی اداسی کا ازالہ کرنے اپنے باپ کی قبر پر حاضر ہو جاتا۔ بظاہر دعا کے لیے اٹھے ہاتھوں کو بھول کر میں کافی دیر ان سے ہم کلام رہتا‘ جی بھر کے باتیں کرتا‘ اپنی پریشانیاں شیئر کرتا‘ اپنی تکالیف سناتا تو کبھی ان سے خوشی کے لمحات اور ان سے جڑے اسباب بھی زیرِ گفتگو لاتا۔ یوں کئی برسوں پر محیط یہ رومانس بھرا تسلسل گزشتہ اکتوبر میں ٹو ٹ گیا اور میں چار سالہ اسکالر شپ پر مبنی پی ایچ ڈی ڈگری کے سہانے سپنوں کے جھانسے میں آکر یہاں برطانیہ پہنچ گیا۔
اگرچہ گزشتہ دو دہائیوں میں کئی مرتبہ بیرونِ ملک سفر کا موقع ملا۔ بسا اوقات ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم اور ملازمت کے مواقع بھی میسر آئے مگر میں نے ہمیشہ وطنِ عزیز پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی کیونکہ میں نے اپنی مٹی کو ماں سمجھا ہے اور ماں جائے ہم وطنوں کی خدمت کو سعادت گردانا ہے۔ کارِ سرکار کی ادائیگی کو بھی مرحوم باپ کی قبر کی ٹھنڈک کا وسیلہ بنایا اور والدہ کی تربیت اور اخلاقی اقدار پر با وقار انداز میں پہرہ دیا۔ اس کے ساتھ اپنے گائوں سے جڑے رہنے کی اصل وجہ والدِ گرامی کی قبر مبارک ہے جس کے وجود سے مجھے زندگی ملتی رہی ہے۔ ہر ہفتے باقاعدگی سے قبرستان میں حاضری کے سبب مجھے روحانی تسکین اور ذہنی سکون میسر رہا جو بلاشبہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ دوسری بڑی وجہ والدہ محترمہ کا گائوں میں موجود ہونا اور ان سے شرفِ ملاقات تھا جو میری اولین ترجیحات میں شامل رہا۔ مگر یہاں گوروں کے دیس میں اپنا گائوں ہے نہ اپنے لوگ‘ باپ کی قبر ہے نہ ماں کا ساتھ۔ سب کچھ ہونے کے باوجود گویا کچھ بھی نہیں ہے۔ اپنوں سے دوری کا ایک گھائو ہے جو دل میں ہر آنے والے دن کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ اکتوبر برطانیہ روانگی سے قبل سب سے پہلے میں نے امی جان کو اعتماد میں لیا۔ اس چار سالہ اسکالر شپ اور پی ایچ ڈی کے فوائد و ثمرات سے انہیں آگاہ کیا۔ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ میں انہیں اپنے اس منصوبے پر عملدآمد کرنے کے لیے مطمئن کر لوں گا۔ ہر ماں کو اپنے بچوں کی خوشی اور کامیابی پر فخر ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈھیروں دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔ ویسے بھی واٹس ایپ اور ویڈیو کال کی سہولت کی موجودگی میں اب فاصلے سمٹ گئے ہیں اور پردیس کا وہ احساس نہیں رہا جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا جب محض ڈاک چھٹی رابطے کا واحد ذریعہ تھی اور دیارِ غیر آکر بسنے والوں کی دید کو آنکھیں ترس جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر دوسرے روز ویڈیو کال کے ذریعے امی جان سے گفتگو ہو جاتی ہے۔ والدہ سے دعائیں سمیٹ کر میں گائوں پہنچا اور گلاب کی پتیوں سے بھرے دو شاپنگ بیگ لے کر والدِ گرامی کی قبر مبارک پر حاضری دی۔ قدموں میں بیٹھ کر بوسہ لیا اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ ان سے برطانیہ روانگی کی اجازت طلب کی۔ انہیں ان کی وہ بات یاد کرائی کہ حصولِ تعلیم کے لیے کوئی بھی قربانی بڑی نہیں ہوتی۔ میں شاید خود غرضانہ نیت سے انہیں قائل کرتا رہا‘ دلیلیں گھڑتا رہا اور پھر جلد آکر ملنے کا وعدہ کرکے سرشام بھاری قدموں کے ساتھ اپنی گاڑی کی طرف چل دیا۔ مجھے اپنے اندر شروع ہونے والی اس ٹوٹ پھوٹ کا احساس اسی وقت ہو چکا تھا مگر یہ اتنا شدید ہو جائے گا‘ میں اس کا اندازہ نہ کر سکا۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ رات تہجد کے وقت دعا کے لیے اٹھنے والے ہاتھ لرز کر رہ گئے اور مجھے یہ یقین ہو گیا کہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے جان سے پیاروں کی قبریں بھی اک نعمت ہوا کرتی ہیں جن سے لپٹ کر رو لینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اداسی کی شدت میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جاتی ہے‘ قدموں میں بیٹھ کر ان سے باتیں کرنا‘ خوشی غمی کے سارے قصے شیئر کرنا اور واپسی پر دعائوں کے خزانے سمیٹ کر رخصت ہونا دراصل اپنے دلداروں سے اس ابدی تعلق کو استوار رکھنے کی ضمانت بن جاتا ہے جسے موت بھی ہر گز کمزور نہیں کر سکتی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود جانے والوں کی کمی پوری شدت کے ساتھ ہمیشہ محسوس ہوتی رہتی ہے اور ہر گزرتے لمحے احساسِ محرومی بڑھتا جاتا ہے۔ ناصر کاظمی نے اپنے یہ مشہورِ زمانہ اشعار اسی موضوع کی وضاحت کے لیے لکھے تھے:
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی