گوروں کا پولنگ سٹیشن

گزشتہ دنوں یہاں برطانیہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو نہ صرف قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا بلکہ اپنا حقِ رائے دہی بھی استعمال کرنے کا تجربہ ہوا۔ بلکہ یوں کہیے کہ زبردستی ووٹ ڈالنا پڑا کیونکہ یہاں اپنے ووٹ کا استعمال لازم اور ایک قانونی ذمہ داری ہے۔ اٹھارہ سال یا اس سے زائد عمر والے ہر شخص کے لیے ووٹ کاسٹ کرنا ایک ضروری عمل ہے حتیٰ کہ پوری دنیا سے آنے والے طالب علم بھی اس سے مبریٰ نہیں ہیں۔ مجھے فروری کے اوائل میں مقامی کونسل کی طرف سے ایک مراسلہ موصول ہوا جس میں ووٹ رجسٹرڈ کرانے کے طریقۂ کار کے بارے میں واضح اور ضروری ہدایات درج تھیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی باور کرایا گیا تھا کہ ووٹ کاسٹ نہ کرنے کی صورت میں 80 پائونڈز کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا جو ایک طالب علم کے لیے خاصی بڑی رقم بنتی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ لگ بھگ تیس ہزار روپے بنتے ہیں جو میرے جیسے سفید پوش کے لیے یقینا ایک خطیر رقم ہے۔ لہٰذا میں نے اسی شام متعلقہ ویب سائٹ پر جا کر اپنے کوائف درج کیے اور رسیدی ای میل کو سنبھال کر رکھ لیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آسکے۔
چند دنوں کے بعد مجھے کونسل کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں میرا ووٹ رجسٹرڈ ہوجانے کی اطلاع دی گئی تھی اور ساتھ ہی مجھے حقِ رائے دہی کے لئے دو آپشنز بھی دیے گئے تھے تاکہ میں یا بذریعہ پوسٹل بیلٹ اپنا ووٹ کاسٹ کر لوں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ اپنی رہائش گاہ سے چند منٹ کی واک پر واقع ایک پرائمری سکول میں قائم کیے گئے پولنگ سٹیشن پر جا کر خود اپنا ووٹ کاسٹ کروں۔ اگرچہ یہاں پوسٹل بیلٹ کا رواج عام ہے اور آبادی کی اکثریت اپنی مصروفیات کے باعث اسی آپشن کو استعمال میں لاتی ہے کیونکہ الیکشن والے دن کوئی چھٹی نہیں کی دی جاتی۔ مگر میں نے اس دلچسپ انتخابی عمل میں خود جا کر ووٹ ڈالنے کو ترجیح دی کیونکہ مجھے وطنِ عزیز پاکستان کے کئی بلدیاتی اور قومی انتخابات کو نہ صرف منعقد کرانے کا انتظامی تجربہ تھا بلکہ ایک دیہاتی کے طور پر اپنے آبائی گائوں کے پولنگ سٹیشن میں کئی مرتبہ اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کا ''وسیع تجربہ ‘‘بھی تھا۔ لہٰذا مجھے اس بات کا تجسس تھا کہ بھلا گورے ہمارے مقابلے میں کس قدر مختلف انداز میں انتخابی عمل سے گزرتے ہیں۔ میں نے اپنے موبائل کے کیلنڈر میں 4 مئی کو منعقد ہونے والے الیکشنز کا ریمائنڈر لگا لیا کہ تاکہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے سبب اس عمل سے غافل نہ ہو جائوں جس کے نتیجے میں 80 پائونڈز کی بھاری رقم کا جرمانہ ادا کرنا پڑنا تھا۔
وقت گزرتا گیا اور 4مئی کا دن قریب آرہا تھا مگر مجھے کہیں پر بھی بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں کوئی گہما گہمی نظر نہ آئی۔ کارنر میٹنگز، جلسے، جلوس، ریلیاں، سائیلنسر کے بغیر موٹر سائیکلز، گاڑیوں پر فلیکس بینرز یا انتخابی امیدواروں کی تصاویر کے ساتھ ''ان شاء اللہ کونسلر‘‘ اور ساتھ وکٹری کا نشان بناتی ہوئی انگلیاں‘ کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ نہ ہی کسی امیدوار نے اشتہار پر یہ درج کروایا؛بے داغ ماضی، کردار کا غازی، عوام کا ہمدرد، سب کا دوست، سب کا بھائی، اعلیٰ تعلیم یافتہ، غریبوں کا مددگار، نوجوانوں کا ساتھی۔ میں یہ سب سیاسی دعوے اور دلپذیر نعرے ڈھونڈتا رہا مگر میری آنکھیں ان خوبصورت عبارات کے دیدار سے محروم رہیں۔ میں یہ سوچنے لگ گیا کہ گورے انتہائی ''بور‘‘ قسم کے لوگ ہیں جنہیں اپنی سیاسی اور انتخابی مہم مؤثر انداز میں چلانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ کئی مرتبہ یہ خیال آیا کہ میں اپنے وسیع اور ذاتی تجربے کو استعمال میں لائوں اور باقاعدہ ایک فرم رجسٹرڈ کروا کے انہیں اپنی پیشہ ورانہ خدمات پیش کروں، انہیں انتخابی مہم کو ''چار چاند ‘‘لگانے کے گُر سکھائوں۔ مگر میں چونکہ یہاں ایک طالب علم کی حیثیت سے آیا ہوں لہٰذا مجھے قانون ایسے کسی کام کی اجازت نہیں دیتا۔
انتخابات سے 4 ہفتے قبل مختلف امیدواروں کی طرف تعارفی سے پوسٹرز ملنا شروع ہوگئے تھے جن پر ان کا منشور واضح الفاظ میں درج تھا۔ اس کیساتھ مقامی آبادی کو درپیش مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی اور ان کے ممکنہ حل کے ضمن میں اقدامات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ یہاں چونکہ 'رائل میل‘ خط و کتابت کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے اور ہر گھر کے مین دروازے پر خط وصول کرنے کیلئے بڑی مہارت سے ایک مخصوص جگہ بنائی گئی ہے جو پاکستان میں ہمارے یونیورسٹی کے ہوسٹلز کے کمروں میں بھی موجود ہے۔ یوٹیلیٹی بلز ہوں یا این ایچ ایس کے ڈاکٹرز سے اپائنٹمنٹ، سب رائل میل کے ذریعے ہی موصول ہوتا ہے اورہر صبح باقاعدگی سے چند خطوط پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے باعث جرمانوں کے سندیسے بھی ڈاک ہی کے ذریعے ملتے ہیں۔ لہٰذا سیاسی امیدوار بھی اپنے پوسٹرز اور بینرز گھروں میں بھجوا کر اپنی انتخابی مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے نظر آئے۔ میں اس کمپین کی سادگی دیکھ کر حیران تھا اور پریشان بھی کہ بھلا اس پھیکی اور بے رنگ انتخابی مہم کے بعد کون انہیں ووٹ دے گا۔
بالآخر اسی ذہنی کشمکش میں 4 مئی کا دن آن پہنچا اور میں علی الصباح یونیورسٹی جانے کے لیے تیاری کرنے لگا۔ ناشتہ کر کے اپنا پاسپورٹ جیب میں ڈالا اور پانچ‘ سات منٹ کی واک کے بعد اپنے پولنگ سٹیشن پر پہنچ گیا۔ سکول کے باہر چار‘ پانچ گاڑیاں نظر آئیں اور کوئی بھی انتخابی اشتہار یا سیاسی امیدواروں کی تصاویر پر مبنی بینرز نہ دیکھ کر مجھے لگاکہ میں شاید غلط جگہ پر آگیا تھا۔ سکول کے مین گیٹ پر محض سفید کاغذ پر پولنگ سٹیشن کے دو الفاظ اور اندر کی طرف اشارہ کرتا ہوا تیر کا نشان مجھے یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ یہاں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ میں بلڈنگ کے اندر داخل ہوا تو راہداری میں دو افراد خوش گپیاں لگاتے ہوئے نظر آئے۔ میں ان کے قریب پہنچا اور اپنا ''شک‘‘ دور کرنے کیلئے استفسار کیا کہ کیا یہی پولنگ سٹیشن ہے؟ انہوں نے بیک زبان ہو کر میرے سوال پر اثبات میں جواب دیا اوربتایا کہ دراصل وہی دونوں الیکشن کے امیدوار ہیں جن میں سے ایک کو میں نے اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔ میں حیران تھا کہ یہ کون سا پولنگ سٹیشن ہے اور وہ کیسے امیدوار ہیں۔ نہ شامیانے، نہ جلیبیاں، نہ ڈھولچی، نہ نعرے، نہ لڈیاں، نہ ووٹرز کو پکڑ دھکڑ کر اپنی طرف مائل کرنے والے حربے۔
خیر‘ مجھے ان دونوں بھلے مانس لوگوں نے اپنا تعارف کرایا اور چند قدم آگے چل کر دائیں طرف مڑنے کا کہا ۔ اگلے ہی لمحے میں ایک بڑے ہال میں داخل ہو ا اور دروازے کے ساتھ بیٹھے ہوئے دو افراد نے مجھ سے میری رہائش کا ایڈریس پوچھا۔ بتانے پر انہوں نے مجھے بائیں طرف موجود ایک ٹیم کی طرف جانے کا کہا جنہوں نے مجھ سے میرا پاسپورٹ طلب کیا۔ اپنے سامنے موجود ووٹر لسٹ پر انہوں نے میرا نام دیکھا، اس پر ٹک مارک کیا اور مجھے ایک چھوٹا سا کاغذ کا ٹکڑا دے کر بتایا کہ یہ آپ کا بیلٹ پیپر ہے‘ باکس میں جا کر جس پر مجھے اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام کے سامنے کراس کا نشان لگانا تھا۔ ہال کے کونے میں رازداری کے ساتھ ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے چند بڑے میز لگائے گئے تھے جن پر لیڈ (کچی) پنسلیں موجود تھیں۔ میں نے ایک میز پر جا کر ایک پنسل اٹھائی، ایک امیدوار کے نام کے سامنے باکس میں کراس کا نشان بنایا اور سامنے موجود ڈبے میں اپنا بیلٹ پیپر ڈال کر قانونی اور اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو گیا۔ مجھے اس سارے عمل میں زیادہ سے زیادہ ایک منٹ لگا۔ میں نے وہاں سے نکل کر بس پکڑی اور یونیورسٹی کے لیے روانہ ہو گیا۔
واپس جاتے ہوئے میں یہی سوچتا رہا کہ ان ترقی یافتہ اقوام نے پوری دنیا پر ایسے ہی نہیں راج کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی اقدار، روایات اور رویے بلاشبہ ہمارے جیسے معاشروں کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں