آخر کار وہی ہوا جس کا انتظار بھی تھا اور خدشہ بھی۔ انتظار اس لیے کہ سوشل میڈیا پر یہ ''واردات‘‘ تقریباً ہر دوسرے شخص کے ساتھ ہوتی نظر آرہی تھی اور پچھلے کچھ دنوں سے اس کی سنگینی اور تواتر میں تیزی آچکی تھی۔ ڈر اس لیے کہ جو بھی ''شریف آدمی ‘‘ فیک آئی ڈی کے ذریعے میرے جاننے والوں کو مختلف حیلے بہانے سے ''چونا لگانے ‘‘کی کوشش کرے گا‘ اس سے ایک طرف تو میری بدنامی ہوگی کہ اسے کیا ہو گیا ہے کہ پیسے مانگنے پر آگیا ہے۔ حالانکہ ہمیشہ میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی جناب اور غیب کے خزانوں سے نوازنے اور مالی تنگ دستی سے پناہ مانگنے کو ہر نماز کی دعائوں میں شامل رکھا ہے۔ربِ ذوالجلال سب کو خیرِ کثیر سے مالی آسودگی کی دولت سے سرفراز فرمائے اور انسانی کمزوریوں، اخلاقی بیماریوں اور مالی پریشانیوں سے محفوظ اور مامون رکھے۔ یہ دعا بھی میں ہر کسی کے لیے مانگتا رہتا ہوں کیونکہ محض اپنے لیے مانگنا مجھے پسند نہیں اور نہ ہی میرے نزدیک کسی خود غرضانہ دعا میں اتنی تاثیر ہو سکتی ہے جتنی خیر اور قبولیت اس دعا میں ہے جس میں اجتماعی خیر و برکت کا ذکر بھی ہو اور اخلاص بھی۔ اوروں کی خیر مانگنا اور ان کے لیے ہدایت اور راست بازی کی دعا کرنا میرا شروع ہی سے پسندیدہ عمل رہا ہے۔ مگر ہونی کو کون ٹال سکتاہے...! بات کچھ زیادہ ہی دور نکل گئی‘ بات ہو رہی تھی فراڈ اور چونا لگانے کی۔
دوسرا خوف اس بات کا تھا کہ میرے دوست احباب، ملنے ملانے والے اور مجھے بے پناہ محبت سے نوازنے والے قارئین اس ''بھلے مانس‘‘ آدمی کی اس قبیح حرکت سے پریشان ہوں گے، اضطراب کا شکار ہوں گے اور ذہنی صدمے سے دو چار ہوں گے کیونکہ نجانے پیسے بٹورنے کے لیے وہ موصوف کیا کیا تاویلیں گھڑ کر ان کے سامنے پیش کرے۔ گزشتہ چند دنوں سے مختلف احباب کی فیس بک وال پر ایسے واقعات اور اس کے ردِ عمل میں وارننگ پر مبنی پوسٹ دیکھ کر مجھے دھڑکا لگا رہا کہ سوشل میڈیا کی اس بے ہنگم ڈیجیٹل کمیونٹی میں ہونے والے سائبر کرائمز میں ہوشربا اضافے کے باعث مجھے بھی اس اذیت سے دو چار ہونا پڑ سکتا ہے۔ ہاں‘ مگر اس ذہنی انتشار اور کشمکش کا ایک مثبت پہلو یہ بھی رہا کہ میں ذاتی طور پر اس ممکنہ واردات کے لیے تیار ہو چکا تھا۔
کہتے ہیں کہ جرم نشان چھوڑ جاتا ہے اور جرائم کا ارتکاب کرنے والے جتنی مرضی مؤثر حکمتِ عملی اپنا لیں اور جامع منصوبہ بندی کر لیں، وہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسی غلطی کر جاتے ہیں جس سے جرم کا سراغ لگانے اور مجرموں تک رسائی کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔ میری فیک آئی ڈی بنانے والے نے بھی یہی کیا۔ اس نے دو بڑی غلطیاں کیں یا اس سے غیر ارادی طور پر سرزد ہو گئیں۔ اس نے میری فیس بک آئی ڈی کی جو پروفائل پکچر کاپی کی اور اسے اپنی ڈی پی کے طور پر لگایا‘ وہ فیس بک اکائونٹ گزشتہ دو سال سے میرے استعمال میں نہیں ہے۔ میرا نیا اکائونٹ میرے تقریباً سبھی دوستوں کے علم میں ہے اور اس اکائونٹ پر میری تصویر مختلف ہے۔ دوسری بڑی ٹیکنیکل غلطی موصوف نے یہ کی کہ وہ میرے کچھ احباب تک اپنے موبائل نمبر سے بذریعہ واٹس ایپ رابطے میں آیا۔ گپ شپ شروع کی، دعا سلام کے بعد فوراً پچاس ہزار روپوں کا مطالبہ کر دیا جس پر ظاہر ہے کہ میرے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا۔ انہوں نے فوراً اس گفتگو کا سکرین شاٹ لیا اور مجھ تک پہنچادیا جس میں اس ''شریف آدمی‘‘ کا موبائل نمبر واضح طور پر موجود تھا‘ جسے متعلقہ حکام تک پہنچا دیا گیا ہے اور اب حسبِ ضابطہ کارروائی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
صد شکر کہ وہ شخص میرے کسی دوست کو ''چونالگانے ‘‘ میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس میں جہاں ربِ کائنات کا بے پناہ فضل و کرم شامل ہے اور کچھ میری خوش نصیبی ہے‘ وہاں وطنِ عزیز پاکستان میں 'چونا لگانے‘والے افراد کا بھی عمل دخل ہے جنہوں نے صبح، دوپہر، شام لوگوں کو ٹھگی، فراڈ، جعل سازی، جھوٹ، مکر و فریب، لوٹ مار، گراں فروشی، چور بازاری اور نوسر بازی کے نت نئے طریقوں سے روشناس کرادیا ہے جس سے عوام کی ٹریننگ کا عمل تیزی سے جاری ہے اور ان میں لٹ جانے کے خدشات اور رجحانات میں خاطر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ماہرینِ معاشیات کا یہ خیال ہے کہ شاید لوگوں کے پاس اب لٹانے کے لیے کچھ رہ ہی نہیں گیا لہٰذا اب فیس بک پر جعلی آئی ڈی بنا کر سادہ لوح معصوم لوگوں سے پیسے بٹورنے کا عمل اتنا آسان نہیں رہا۔
ویسے بھی اللہ بھلا کرے اُس ایزی لوڈ والی لڑکی کا‘ جس نے مختلف حیلوں بہانوں سے گزشتہ کئی سالوں سے پیسے مانگ مانگ کر جہاں ہمارے معاشرے میں بے شمار فراڈیوں کو بے نقاب کیا وہاں لوگوں میں ایسے بدقماش عناصر کے خلاف فطری اور شعوری ردِ عمل اجاگر کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں ملنے والی امدادی رقم کے نام پر ہونے والی بے دریغ وارداتوں کا کردار بھی نمایاں رہا ہے جس سے عوام میں شعور بڑھا ہے اور اب ان کے لیے ایسے عناصر کی نشاندہی اور پہچان کرنا قدرے آسان ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا سے ہٹ کر عام زندگی میں بھی قدم قدم پر انہیں چونا لگانے والوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جس سے ان کی مفت ٹریننگ کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ جس تعلیمی ادارے کو وہ بھاری بھرکم فیس ادا کرتے ہیں‘ وہاں ان کے بچوں کے جعلی رزلٹ تیار ہوتے ہیں اور محض بہتر کارکردگی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہان کو ضلعی سطح پر پرائیویٹ اداروں سے سبقت حاصل کرنے کی واضح ہدایات دی جاتی ہیں اور بورڈ امتحانات کے مراکز پر نقل کے ذریعے پرچے حل کرانے کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ حال ہی میں ایک بورڈ کے امتحانات میں ٹاپ کرنے والے طالب علم کے متعلق سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ موصوف کبھی کسی تعلیمی ادارے میں داخل ہی نہیں رہے اور جب اس کی امتیازی سند وصول کرنے کیلئے اس ادارے کے متعلقہ سربراہ کو سٹیج پر دعوت دی گئی تووہ اس امر پر حیران رہ گئے، کیونکہ اس طالب علم کا اس ادارے میں کلی طور پر کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں تھا۔ ''چونا لگانے‘‘ کی اس سے بڑی اور عمدہ مثال بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟
اشیائے خورو نوش میں ملاوٹ عام ہے اور کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دودھ میں پانی ملانے والا گوالا یہ 'نیکی ‘کر کے خوش ہو جاتا ہے کہ وہ محض صاف پانی صاف ڈالتا ہے ورنہ وہ گندے پانی یا کیمیکلز کی ملاوٹ بھی کر لے تو اس کا کسی نے کیا بگاڑ لینا ہے؟ بیف کڑاہی میں گدھے اور مٹن کڑاہی میں کتے جیسے حرام جانوروں کا گوشت پیش کرنے کی بابت بھی اکثر خبریں سننے کو مل جاتی ہیں۔ کچھ دوا ساز ادارے پانی کے ٹیکے بیچ رہے ہیں تو بعض ڈاکٹر حضرات جعلی سٹنٹ ڈال کر دل کے آپریشنز کر رہے ہیں۔ کل ہی ہمارے ایک سینئر طارق عباس‘ جن کا پولیس سروس سے تعلق ہے‘ فیس بک وال پر بتا رہے تھے کہ دو ہم نام خواتین مریضوں کے فیصل آباد میں غلط آپریشن کر دیے گئے۔جس کا پتا نکالنا تھا‘ اس کے گھٹنے کا آپریشن کر دیا گیا اور جس کے گھٹنے کی سرجری کرنا تھی اس کے پتّے کا 'کامیاب آپریشن ‘کردیا گیا تھا۔ قصہ مختصر ''چونا لگانے ‘‘والے وطنِ عزیز میں چہار سو موجود ہیں اور وہ پورے جوش و خروش سے پاکستان کو ''چونا منڈی‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پروفیسر سیف اللہ خالد کے یہ دو اشعار اس پریشان کن صورتحال کی خوب ترجمانی کرتے ہیں:
ہر اک لٹنے پر تیار‘ لوٹ کر نازاں
عجیب ماحول اس شہرِ پُر ہوس میں ہے
اڑے تو بنے جانے کس عقاب کی خوراک
غریب فاختہ سہمی ہوئی بیٹھی قفس میں ہے