دل دہلا دینے والے مناظر ہیں‘ دل گرفتہ تصاویر اور سینہ چیر کر رکھ دینے والے وڈیو کلپس‘ جنہوں نے گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر کہرام مچا رکھا ہے۔ ایک طرف یتیم ہونے والے بچوں کی آہ و بکا تو دوسری طرف بوڑھے والدین‘ جو اپنے نوجوان بیٹوں کی کربناک موت پر نوحہ کناں ہیں۔ 13اور14جون کی درمیانی شب پاکستان کے تین سو سے زائد گھرانوں پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب لیبیا سے اٹلی جانے والی ایک کشتی بحیرۂ روم کی بپھری ہوئی لہروں میں ایسے گھری کہ سمندر کی گہرائیوں میں اتر گئی اور آٹھ سو کے قریب بدقسمت تارکین وطن‘ جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی تھی‘ یونان کے ساحلوں کے قریب تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ تاخیر کی شکار امدادی کارروائیوں کے سبب محض 104خوش قسمت افراد کو زندہ بچایا جا سکا اور محض 80لاشیں تلاش کی جا سکیں۔ اندازہ ہے کہ لگ بھگ چھ سو بد نصیب افراد تقریباً 5کلو میٹر گہرے پانیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گئے ہیں۔ اب مزید امدادی کارروائیوں کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔
وہ جو آنکھوں میں ایک سنہرے مستقبل کے سہانے خواب سجا کر گھر سے یورپ کے لیے نکلے تھے اور جن کے دلوں میں معاشی آسودگی اور ایک بہتر مستقبل کے لیے بے پناہ منصوبے اور اَن گنت خواہشات کا ہجوم تھا‘ وہ اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ اپنے بچوں کی قسمت بدلنے کا خواب دیکھنے والے اور اپنے بوڑھے والدین کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے بے تاب جواں سال بیٹے اپنے پیاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روتا چھوڑ کر اس جہان جا پہنچے ہیں جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں لوٹ سکا۔ اب تک ملنے والی تقریباً 80لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے اور لواحقین اب اس انتظار میں ہیں کہ کم از کم اپنے پیاروں کا آخری دیدار کر کے انہیں اپنے ہاتھوں سے آسودۂ خاک کر سکیں، ورنہ ان چھ سو میں سے‘ جنہیں بحیرۂ روم کی خونیں لہریں ہمیشہ کے لیے اپنا لقمہ بنا چکی ہیں‘ تین سو سے زائد وہ پاکستانی ہیں جنہیں دیکھنے کو ان کے پیاروں کی آنکھیں ہمیشہ ترستی رہیں گی۔ یہ اس دردناک المیے کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو ہے اور یقینا اس سے بڑھ کر ان بدقسمت خاندانوں کے لیے کوئی بڑا صدمہ نہیں ہو سکتا۔
اس المناک سانحے میں متاثرہ خاندانوں کی واضح اکثریت کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے میر پور اور کوٹلی کے علاوہ پنجاب کے اضلاع گجرات اور گوجرانوالہ سے ہے جس کی وجہ اس خطے کا تاریخی پسِ منظر ہے جسے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ دراصل 1960ء کی دہائی میں منگلا ڈیم کی تعمیر کے نتیجے میں میر پور اور اس کے گرد و نواح کے متاثرین کے لیے فیلڈ مارشل ایوب خان کی درخواست پر ملکہ برطانیہ نے اپنے ملک میں سکونت کے دروازے کھولے جس کے باعث ہزاروں افراد نہایت آسان عمل سے گزر کر ہمیشہ کے لیے برطانیہ میں رہائش پذیر ہو گئے جہاں معاشی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ میر پور سے متصل جہلم اور گجرات کے اضلاع میں یہی رواج پروان چڑھا اور لوگ برطانیہ کے ساتھ ساتھ یورپ کے دیگر ملکوں میں جوق در جوق جانے لگے۔ بارانی علاقے اور کم زرعی آمدنی کی وجہ سے اس خطے میں معاشی آسودگی کی شدید ضرورت تھی ۔دوسری طرف چونکہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتی کارخانوں کی بڑھتی ہوئی پیداوار کے لیے برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں پاکستان سمیت دیگرترقی پذیر ممالک کے لیے امیگریشن کے قوانین اور ضوابط خاصے نرم اور لچکدار رکھے گئے تھے‘ اس وجہ سے لاتعداد لوگوں نے یورپی ممالک کا رخ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے لوگوں نے اپنی شبانہ روز اور اَن تھک محنت اور خداداد صلاحیتوں کے سبب برطانیہ سمیت یورپ اور امریکہ میں نہ صرف معاشی طور پر خود کو مستحکم کیا بلکہ وہاں کی سیاست میں بھی بھرپور کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔
اس معاشی و سیاسی استحکام کے نتیجے میں میر پور، کوٹلی، جہلم، گجرات اور منڈی بہائوالدین کے گلی کوچوں میں دولت کی ریل پیل نظر آئی۔ ڈالرز، یورو اور پائونڈز کی ترسیل عام ہوئی اور یہاں اُن کے آبائی علاقوں میں عالیشان محلات تعمیر ہونے لگے۔ مہنگی مہنگی گاڑیاں خریدی جانے لگیں، کاروباری مراکز، شادی ہال اور جدید طرز کے منافع بخش منصوبوں کا آغاز ہوا تو گویا اس پورے علاقے میں برطانیہ، یورپ اور امریکہ کی چکاچوند معاشی ترقی کا عکس واضح طور پر دکھائی دینے لگا۔ 1960ئاور 1970ء کی دہائی میں محنت اور مزدوری کرنے والی پہلی نسل نے اپنے بہن بھائیوں کے بچوں کے ساتھ رشتہ داری کو آگے بڑھایا، انہیں سپانسرکیا اور اس طرح انہیں بھی ترقی کے اس عمل میں حصہ دار بنایا۔ 1980ئاور 1990ء کی دہائیوں میں ان اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ اپنے عزیزو اقارب اور رشتہ داروں کے ذریعے بیرونِ ملک سیٹل ہونے میں کامیاب ہوئے مگر اس کے ساتھ ہی ایجنٹ ما فیا کی بھی چاندی ہو گئی۔ اگر آپ گجرات اور منڈی بہائوالدین کے دیہات میں جائیں تو سنگ مرمر اور دیگر بیش قیمت تعمیراتی سازو سامان سے آراستہ کروڑوں روپے کی مالیت کے محلات آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیں گے۔ کئی دیہات میں تین چار بینک اپنی شاخیں قائم کر کے بیرونِ ملک سے آنے والی غیر ملکی کرنسی کی ترسیلات کو آسان بنا رہے ہیں۔ آپ نے یقینا سوشل میڈیا پر ان اضلاع میں ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات میں ڈالروں اور پائونڈز کی ویلیں نچھاور ہوتی ہوئی دیکھ رکھی ہوں گی۔ مال و زر کے ان چکا چوند نظاروں نے آج کی نوجوان نسل کو ایک جانب اپنی طرف مائل کر رکھا ہے تو دوسری جانب ملک میں سیاسی عدم استحکام، مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی نے لوگوں کو عجیب و غریب اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے جس کے سبب لوگ دن رات یورپ اور امریکہ جانے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ کے مکروہ دھندے میں ملوث افراد ان سہانے سپنوں میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں اور اس طرح سادہ لوح، کم علم رکھنے والے، معاشی بدحالی سے مجبور افراد آئے روز اپنے زیورات اور مکان بیچ کر اپنی جمع پونجی ان موت کے سوداگروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو ایران، ترکیہ، لیبیا، یونان اور اٹلی کی بدنامِ زمانہ غیر قانونی گزرگاہوں کے ذریعے انہیں یورپ تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھا لیتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ سب کی سب کشتیاں ڈوب جاتی ہیں اور سہانے سپنوں کے دیس یورپ میں کوئی بھی نہیں پہنچ پاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ایجنٹ مافیا کا یہ دھندہ کب کا ٹھپ ہو چکا ہوتا۔ مگر یہ سوال اہم نہیں کہ کس کی کشتی بخیرو عافیت بحیرۂ روم کے خونیں پانیوں کو چیرتی ہوئی اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہے اور کس بدنصیب کو یہ بے رحم موجیں اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہیں۔ جو امر زیادہ توجہ طلب ہے وہ ان محرکات اور عوامل کا احاطہ کرنا ہے جو وطنِ عزیز کے نوجوانوں پر معاشی آسودگی، مستحکم روزگار اور روشن مستقبل کے دروازے بند کر کے ان میں مایوسی، بے چینی، غیر یقینی اور اضطراب کے احساس کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب تک ان توجہ طلب امور پر سنجیدگی سے غور کر کے اس ضمن میں ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک دیارِ غیر میں جا کر اپنی معاشی پسماندگیوں اورمحرومیوں سے چھٹکارا پانے کے خواب سجائے ہمارے خوبرو مگر بدنصیب نوجوان مختلف ممالک کی سرحدوں پر فائرنگ رینج اور بحیرۂ روم کی قہر آلود لہروں کے سامنے بے بس ہو کر اپنی زندگی کی بازی ہارتے رہیں گے اور ایسے المناک سانحات آئے روز ہمارا مقدر بنے رہیں گے۔معراج فیض آبادی کے یہ دو اشعار رنج و آلام کے ان لمحات کی خوب منظر کشی کرتے نظر آتے ہیں:
بھیگتی آنکھوں کے منظر نہیں دیکھے جاتے
ہم سے اب اتنے سمندر نہیں دیکھے جاتے
وضع داری تو بزرگوں کی امانت ہے مگر
اب یہ بکتے ہوئے زیور نہیں دیکھے جاتے