عزت مآب قصائی صاحب!

پروفیسر توفیق بٹ بلاشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ بطور استاد درس و تدریس کے شعبے میں ان کی خدمات کا زمانہ معترف ہے مگر جو ''استادیاں‘‘ انہوں نے کارزارِ صحافت میں دکھائی ہیں‘ بالخصوص جس جرأت، بے ساختگی، بے باکی اور مہارت سے وہ لکھتے ہیں‘ بقول مجیب الرحمن شامی صاحب: سود و زیاں سے بے نیاز‘ انہوں نے اپنے لیے ایک الگ مقام پیدا کر لیا ہے۔ انہیں اپنی معلومات کو الفاظ کے پیرہن میں سجا کر قارئین کے اذہان پر نقش کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ وہ بطور ادیب اور دانشور شعر و سخن کے اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی پر یکساں ملکہ حاصل ہے۔ ان کی تحریریں آپ سے براہِ راست گفتگو کرتی ہیں۔ انہیں یہ کمال حاصل ہے کہ اچھی بھلی سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے جب آپ کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں تو وہ اگلے ہی جملے میں آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں اور غم کے بجائے خوشی کے آنسو امڈ آتے ہیں۔ ان کے طنز کی کاٹ اتنی شدید ہے کہ مخاطب شاید برسوں اپنے زخم چاٹتا رہے مگر ان کی حسِ مزاح اتنی شائستہ، لطیف اور ملائم ہے کہ صدیوں سے اداس چہرے گلابوں کی طرح کھِل اٹھتے ہیں اور پڑھنے والا زندگی کی رعنائیوں میں کھو جاتا ہے اور اس کے اردگرد امید و آرزو کا ایک نیا جہان آباد ہو جاتا ہے۔
تمہید بلاوجہ طول پکڑ گئی۔ بٹ صاحب کا نام ہی ایسا ہے کہ بات چل پڑے تو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کی ''تو فیقات‘‘ نے سوشل میڈیا پر ہر وقت ایک رونق میلہ لگا رکھا ہوتا ہے جس سے کئی مرتبہ ' ذومعنی‘ چٹکلے جنم لیتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے مخاطب کی خوب دُرگت بناتے ہیں جسے ''کمبل کٹ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ عید کی صبح انہوں نے لگ بھگ نصف درجن بکروں کے ساتھ جو تصاویر پوسٹ کیں‘ ان کا عنوان تھا: ''عزت مآب قصائی صاحب کے انتظار میں‘‘۔ اس پر نظر پڑتے ہی بے اختیار قہقہہ بلند ہوا اور میں نے بٹ صاحب سے باقاعدہ اجازت طلب کر کے اسے اپنے کالم کا عنوان بنانے کا ارادہ ظاہر کیا جسے بٹ صاحب نے ایک قہقہے کے ساتھ قبول کر لیا۔ اگرچہ بٹ صاحب نے بقرہ عید کے موقع پر قصائی کی شان و شوکت ، طاقت اور رعب و دبدبے کو انتہائی اختصار کے پیرائے میں محض ایک جملے میں سمو دیا ہے مگر چونکہ وہ استاد ہیں‘ اس لیے چند الفاظ میں ہی اپنی پوری ''واردات‘‘ بیان کر جاتے ہیں۔ مسئلہ مگر ہم جیسے نوواردوں کا ہے کہ شاید وہی بات پورے کالم میں بھی مکمل طور پر بیان نہ کر پائیں۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف!
دراصل ہر شخص اس دنیا میں ایک خاص وقت، مخصوص جگہ، مخصوص حالات اور منفرد ہنر کے سبب ''ہیرو‘‘ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یا ہم اسے اپنی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کراسے وقتی طور پر ''ہیرو‘‘ بنا دیتے ہیں۔ آپ اپنی بیش قیمت گاڑی کی مرمت کے سلسلے میں ورکشاپ جائیں تو میکینک کے پھٹے پرانے لباس اور کالک سے آلودہ چہرے کے باوجود اس کی خوشامدانہ تعریف کرنے لگتے ہیں اور اس کی فنی مہارت کا اعتراف کر کے اس کی توجہ اپنی گاڑی کے مسئلے پر مرکوز کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تقریباً یہی حال سڑک پر کھڑے کانسٹیبل کے سامنے ہوتا ہے جب وہ اپنی 'قانونی طاقت‘ کا بھرپور مظاہرہ کر کے آپ کی گاڑی روک لیتا ہے اور ضروری کاغذات پورے ہونے کے باوجود مختلف حیلے بہانوں سے آپ کی بے بسی پر زیرِ لب مسکرانے لگتا ہے، ایسے میں آپ بڑے ادب سے اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دراصل قصائی کا خوف بچپن میں ہی ہمارے قلب و روح میں سما جاتا ہے۔ رہی سہی کسر اردو لغت میں بے دریغ استعمال ہونے والے اس جملے نے پوری کر دی ہے کہ ''بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی!‘‘ ہر بکرے کا انجام قصائی کی چھری کی تیز دھار اور ٹوکے کے خون آلود وار پر منتج ہونا ہے۔ قصائی ساری زندگی جیتے جاگتے جانوروں کے خون سے اپنے کپڑے آلودہ رکھتا ہے۔ اس کے ہاتھوں پر جانے کتنے بے زبان جانوروں کا خون ہوتا ہے اور اس کی چھری آئے روز خون کی ندیاں بہاتی جاتی ہے مگر کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اپنے انہی فرائضِ رُوزگار کی ادائیگی اسے ایک ہیبت ناک شخصیت کا استعارہ بنا دیتی ہے۔ یونیورسٹی میں ہمارے ایک استاد یہ جملہ اپنے مخصوص انداز میں باقاعدہ دہرایا کرتے تھے کہ بندہ‘ بندہ ہوتا ہے اور قصائی‘ قصائی! پھر کہتے کہ قصائی دراصل ایک کیفیت کا نام ہے جو کبھی بھی کسی پر بھی طاری ہو سکتی ہے اور چنگا بھلا بندہ اچانک قصائی بن سکتا ہے۔ عید قرباں‘ دراصل قصائی کی عید ہوتی ہے۔ آپ جتنا مرضی مہنگا جانور خرید لائیں اور اسے دودھ پلا کر، میوہ جات کھلا کر، سنتِ ابراہیمی کی انجام دہی کے لیے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ تیار کریں‘ عید کے روز آپ کو ایک عدد ''قصائی‘‘ کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ دیگر مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ پچیس کروڑ آبادی والے پاکستان میں بھی ہر صاحبِ استطاعت گھرانے میں قربانی کا کم از کم ایک جانور ضرور ذبح ہوتا ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے ہیر پھیر میں گنتی کے چند قصائی اصلی ہیرو کا روپ دھار لیتے ہیں اور اپنے کئی 'زیرِ تربیت‘‘ چھوٹوں کے ہجوم میں وہ اس طرح پروٹوکول کے ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں جس طرح کوئی صاحبِ اقتدار شخصیت اپنے پورے جاہ و جلال سے جلوہ افروز ہوتی ہے۔
ایک زمانے میں دیہاتی اور شہری قصائی کی وضع قطع، چال ڈھال اور بول چال میں واضح فرق ہوا کرتا تھا۔ دیہی معاشرے میں قصائی محض جانور کی چمڑی اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن پر اکتفا کیا کرتا تھا۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے اس نے بھی اپنی معیشت ڈالر کے ساتھ منسلک کر لی ہے اور اپنے بھائو تائو بڑھانے کے ساتھ ساتھ دیہی معاشرت سے نکل کر شہروں کا رُخ کر لیا ہے اور اب وہ بھی بڑی عید پر خوب مال کماتا ہے۔ اس کے نتیجے میں گائوں کے اکثر زمیندار اب ''نیم قصائی‘‘ بن چکے ہیں اوروہ اپنے جانور خود ذبح کرنے پر مجبور ہیں۔ البتہ اس صورت حال میں مولوی صاحب کی چاندی ہو گئی ہے اور قصائی کی عدم دستیابی کے سبب جانور ذبح کرنے پر ان کی ہی خدمات لی جاتی ہیں۔ ویسے یہ کالم میں نے قصائی کے خوف سے ڈرتے ڈرتے لکھ تو دیا ہے مگر اندر سے میں اب بھی سہما ہوا ہوں کہ اگر کسی قصائی نے اسے پڑھ لیا تو میری خیر نہیں۔ پھر یہ سوچ کر خود کو حوصلہ دیا کہ توفیق بٹ صاحب نے اپنے مخصوص انداز سے جس طرح قصائی کی عزت افزائی کی ہے‘ اصلی قصائی نے کون سا مان لینا ہے کہ یہ اس کے لیے لکھا گیا ہے۔ وہ یقینا یہی سمجھے گا کہ بٹ صاحب دراصل اس ''قصائی‘‘ سے مخاطب ہیں جو جانوروں کے بجائے انسانوں کی ''چمڑی‘‘ اتارتا ہے اور گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، ملاوٹ اور لوٹ کھسوٹ جیسے ہتھکنڈوں سے عام لوگوں کے خوابوں اور ارمانوں کے خون سے ہر روز اپنا دامن آلودہ کرتا ہے۔ اپنے کالموں میں آئے روز ہم ان ''قصائیوں ‘‘کا ذکر خوب کرتے رہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں