دعائیں پیچھا کرتی ہیں

ہماری جنریشن خوش نصیب ہے کہ ہم نے زمانۂ طالب علمی میں ٹیکسٹ بکس پڑھیں، لائبریری میں وقت گزارا، نوٹس بنائے اور مارکرز اور ہائی لائٹرز کے استعمال سے نصاب کی کتابوں کے صفحات کو رنگ کیا۔ آج کا گوگل، وکی پیڈیا، سوشل میڈیا اور معلومات کے انبار کا زمانہ بھی دیکھ لیا۔ اینڈ رائیڈ فون میں علم و آگہی کا ایک جہان سمٹ آیا ہے اور کسی بھی سوال کا جواب اب محض چند ٹچ کی دوری پر ہے۔ ایم اے انگلش کے دوران قائداعظم لائبریری لاہور میں زیادہ وقت گزارنے کا عمل شروع ہوا جس کا دورانیہ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کے دوران مزید بڑھ گیا۔ صبح سے شام تک ہمارا وہاں پڑائو ہوتا، علامہ اقبال ٹائون میں اپنی رہائش سے قریب ایک تنور سے قیمے والے نان خصوصی طور پر تیار کرا کے لائبریری کے پاس واقع کینٹین پر رکھوا دیے جاتے اور دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران کینٹین کے سامنے ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھ کر باجماعت یہ نان تناول کیے جاتے۔ ہمارے گروپ میں ایک صاحب ان قیمے والے نانوں کے اس قدر شیدائی ہو گئے کہ وہ لنچ بریک سے لگ بھگ ایک گھنٹہ پہلے ہی انگلش لٹریچر والے سیکشن کے مشرقی کونے میں موجود میرے کیبن کے لگاتار چکر لگانا شروع کر دیتے اور دیگر احباب کو بھی وقت سے پہلے کھانے کے لیے قائل کرتے رہتے مگر ہم بھی اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے کی ٹھان چکے تھے، لہٰذا ٹھیک ایک بجے ہی لنچ کے لیے وقفہ ہوتا۔ موصوف نان کے بڑے بڑے نوالوں کو منہ کی دونوں اطراف میں اس طرح ٹھونس لیتے کہ رخسار پھول کر مینڈک کی تصویر بن جاتے۔ وہ جناب اس پور ے عرصے میں صرف ایک دن اپنے گھر سے خفیہ طور پر کھانا لائے اور اسی درخت کے نیچے اکیلے بیٹھ کر کھاتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ آج کل وہ بھی سول سروس میں اعلیٰ عہدے پر براجمان ہیں‘ لہٰذا نام اور محکمہ صیغہ راز میں رکھا جائے گا تا کہ ان کا بھرم قائم رہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری کتاب دوستی باقاعدہ عشق میں بدل گئی۔ حتیٰ کہ ہفتہ وار چھٹی کے دن انار کلی اور مال روڈ کے سنگم پر فٹ پاتھ کے طول و عرض میں پھیلی پرانی کتابوں کی خریداری کرنے پہنچ جاتے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں واقع خالد بن ولید ہاسٹل میں رہائش کی وجہ سے علم کا یہ بیش قیمت خزانہ زیادہ دور نہ تھا اور ہفتہ وار چھٹی والے دن پرانی انارکلی کے شیشم کے درخت کے نیچے واقع دکان سے سٹیل کے دیوہیکل گلاس میں لسی نوش کرنا ہمارا معمول تھا۔ واپسی پر دیگر رفقا ہاسٹل کی راہ لیتے تو میں ٹولنٹن مارکیٹ کے سامنے مال روڈ کی مغربی طرف فٹ پاتھ پر بکھرے علم و ادب کے فن پاروں کی ورق گردانی کرنے بیٹھ جاتا۔ بھلا زمانہ تھا اور فی کتاب قیمت دس روپے فکس تھی۔ کتاب جو بھی آپ پسند کریں‘ قیمت کم نہ زیادہ۔ لہٰذا میں ناشتے سے بچ جانے والی رقم کی کتابیں خرید لیا کرتا تھا جن کی تعداد عام طور پر تین سے پانچ ہوا کرتی تھی۔ میں نے ہر ہفتے کتابیں خریدنی شروع کیں تو فٹ پاتھ پر بکھری ان کتابوں والی دکانوں کے مالکان سے میری دوستی ہو گئی۔ وہ دونوں 'بابے‘ بھلے مانس، سادہ لوح اور عجز و انکسار کی عملی تصویر تھے۔ میں ان کے پکے گاہکوں کی لسٹ میں پرموٹ ہو کر جلد ہی ان کے گاہکوں کی فہرست میں ٹاپ پوزیشن پر پہنچ گیا تھا۔
تقریباً دو ماہ تک تسلسل سے میری خریداری نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ اگلی مرتبہ جب میں کتابیں منتخب کرنے لگا تو ان میں سے ایک بابا جی میرے پاس آئے اور تعجب سے پوچھنے لگے کہ ''ہر ہفتے اتنی کتابیں خرید کر لے جاتا ہے‘ ان کو پڑھتا بھی ہے کہ محض اپنے پاس ذخیرہ کر رہا ہے؟‘‘ میں نے بابا جی کو بڑے ادب سے بتایا کہ میں جو بھی کتابیں لے کر جاتا ہوں‘ وہ میری پسندیدہ ہونے کے سبب مجھے اس وقت تک بے چین رکھتی ہیں جب تک میں انہیں پڑھ کر ان سے وہ معانی نہ کشید کر لوں جو اُن کے ٹائٹل اور انڈیکس کے صفحات پر موجود موضوعات واضح کر رہے ہوتے ہیں۔ میری یہ بات نہ صرف بابا جی نے بڑی توجہ سے سنی بلکہ دوسرے بابا جی بھی اپنی بوری والی سیٹ سے اٹھ کر میرے پاس آ گئے اور میری کتاب دوستی کی کھل کر تعریف کرنے لگے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ پہلے والے بابا جی نے مجھ سے مزید استفسار کیا کہ میں کوئی ملازمت کرتا ہوں؟ ہر ہفتے کتابوں پرخرچ کرنے کو اتنی ساری رقم کہاں سے آتی ہے؟ میں نے پھر عرض کی کہ میں تو بس ایک طالب علم ہوں اور میں اپنی سیونگز کا سب سے بہترین مصرف کتابوں کی خریداری ہی کو سمجھتا ہوں۔ اس پر ان دونوں نے چند لمحات کے لیے مجھ سے ذرا فاصلے پر کھڑے ہو کر آپس میں کچھ کھسر پھسر کی اور پھر میرے پاس آکر انہوں نے مجھے ایک حیرت انگیز پیشکش کر دی۔
انہوں نے مجھے کہا کہ ہر ہفتے میں جتنی کتابیں خریدنا چاہوں‘ اس کے بدلے میں پچھلی خریدی گئی کتابیں وہاں رکھ دیا کروں اور اتنی تعداد میں دیگر کتابیں مجھے وہاں سے مفت مل جایا کریں گی۔ یہ آفر میرے لیے ناقابلِ یقین حد تک خوشگوار تھی۔ ایک طالب علم کے لیے اس زمانے میں ہر ہفتے سیدھی سیدھی چالیس‘ پچاس روپے کی بچت تھی۔ پھر میرا یہ معمول رہا کہ میں انار کلی ہفتہ وار ناشتے کے لیے جب بھی نکلتا تو اپنے ساتھ تین‘ چار پڑھی گئی کتابیں بھی رکھ لیتا۔ سیدھا ان بابوں کے پاس پہنچ کر انہیں ادب سے سلام کرتا۔ میرے ہاتھ میں کتابوں کی تعداد دیکھ کر وہ مجھے اشارہ کر دیتے کہ اتنی کتابیں میں منتخب کر کے اپنے ساتھ لے جائوں۔ میں انہیں کتابیں دکھا کر رخصت ہوتا تو وہ مجھے مسکرا کر الوداع کہتے۔
یہ غیر معمولی اور قطعی غیر کاروباری عمل لگ بھگ تین‘ چار برس تک باقاعدگی سے چلتا رہا۔ ایک روز میں وہاں بیٹھا کتابیں ٹٹول رہا تھا کہ وہ دونوں بابے میرے پاس آئے اور کہنے لگے ''پتر ایتھے وڈے وڈے لکھاری وی آندے نیں، کیوں کہ کجھ لکھن لئی ڈھیر سارا پڑھنا پیندا اے۔ اسیں ایہہ سوچ رہے ساں کہ اک دن توں وی لکھاری بن جانا ایں‘‘ (بیٹا یہاں بڑے بڑے ادیب بھی آتے ہیں کیونکہ کچھ لکھنے کے لیے کافی مطالعہ درکار ہوتا ہے، سو ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ایک دن آپ بھی لکھاری بن جائیں گے)۔ میں ان کی بات سن کر بہت خوش ہوا اور حیران بھی کہ بظاہر بھولے بھالے دونوں بابے اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ کچھ لکھنے کے لیے بہت کچھ پڑھنا بھی پڑتا ہے۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا کہ بابا جی !میں کتابیں لکھوں گا اور پھر آپ دونوں نے انہیں اسی فٹ پاتھ پر بیچنا ہے۔ وہ دونوں یہ بات سن کر مسکرا دیے، میں نے اپنی کتابیں اٹھائیں اور چل دیا۔
پھر جب میں بطور لیکچرار گورنمنٹ کالج کمالیہ جا پہنچاتو وہ تسلسل ٹوٹ گیا۔ ماہ و سال گزر گئے، زمانے بیت گئے۔ سرکاری ذمہ داریوں کے باعث کئی شہروں کی خاک چھانی۔ ٹولنٹن مارکیٹ شفٹ ہو گئی۔ گوگل، انٹرنیٹ، کمپیوٹرز، موبائل فونز اور سوشل میڈیا نے ایک طرف لائبریریاں اجاڑ دیں تو دوسری طرف فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کتابیں منتخب کرنے والے، خریدنے اور پڑھنے والے بھی کم ہو گئے۔ وقت تیزی سے آگے بڑھ گیا اور زمانہ بہت بدل گیا۔
گزشتہ دنوں میری کتاب ''دیہاتی بابو‘‘ اسی مال روڈ کے فٹ پاتھ پر پڑی کسی کو نظر آئی تو اس نے اس کی تصویر اپنے موبائل کے کیمرے میں محفوظ کر لی اور وٹس ایپ پر گھومتی گھماتی یہ میرے پاس بھی پہنچ گئی۔ کتاب دیکھتے ہی مجھے تین دہائیاں قبل مال روڈ کے فٹ پاتھ پر ان دو بابوں کیساتھ اپنا وہ خوبصورت زمانہ یاد آ گیا اور ان کی اخلاص بھری بے لوث دعائوں کے وہ الفاظ میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ تصویر میں میری کتاب کے ساتھ سارا منظر نامہ وہی تھا‘ بس وہ دو نوں بابے نہیں تھے۔وہ جانے کب کے آسودۂ خاک ہو چکے مگر ان کی دعائیں آج بھی زندہ ہیں کیونکہ دعائیں کبھی مرتی نہیں‘ وہ ہمارا پیچھا کرتی ہیں اور ہمیشہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں