پولیس یونیفارم میں پہلی شام

پولیس کالج سہالہ میں لگ بھگ تیرہ ماہ پر مبنی صبر آزما پیشہ ورانہ تربیت اور اس کے بعد ایلیٹ پولیس ٹریننگ سکول بیدیاں روڈ لاہور کے تین ماہ پر مشتمل کمانڈو کورس کے بعد ہم سب پنجاب بھر کے اضلاع میں واپس پہنچ گئے جہاں ہم نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بطور انسپکٹر پولیس محکمہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لہٰذا میں بھی اپنے دیگر کورس میٹس کے ہمراہ فیصل آباد آن پہنچا جہاں پولیس پریکٹیکل ورک کے اسرار و رموز سے روشناس کرایا جانا تھا۔ اگلے چند دنوں میں فیصل آباد پولیس کے نامور ایس ایچ او صاحبان کے ساتھ ہمیں ڈی کورس کے لیے بطور ایڈیشنل ایس ایچ او تعینات کر دیا گیا اور میں سول لائنز تھانہ میں تعینات ہو گیا۔
جب تعیناتی کے آرڈر موصول ہوئے تو میں اسی شام پولیس یونیفارم زیب تن کر کے تھانہ سول لائنز حاضری کے لیے پہنچ گیا۔ تھانے کے ایس ایچ او ایک نامی گرامی سب انسپکٹر تھے جنہیں پولیس کی عملی کارروائیوں اور قانونی پیچیدگیوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ انہیں میری تعیناتی کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی اور حاضری کے لیے پولیس ریسٹ ہائوس سے روانگی سے قبل میں نے انہیں بذریعہ فون اپنی آمد کے ضمن میں مطلع کر دیا تھا لہٰذا وہ تھانے میں مقررہ وقت پر میرے منتظر تھے۔ میں نے جاتے ہی نہایت احترام سے انہیں سلام کیا اور بطور استاد ان سے بہت کچھ سیکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے بڑی شفقت سے مجھے اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا، پُرتکلف چائے کا اہتمام کیا اور اگلے ایک گھنٹے میں اپنے وسیع تجربات اور کئی خوفناک واقعات پر مبنی مخصوص افسانوی اندازِ بیاں میں پُرمغز لیکچر دیا۔ میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا گیا اور وقفے وقفے سے ان کی دلیری، بے باکی اور مہارت پر انہیں داد و تحسین بھی دیتا رہا کیونکہ اگلے چند ماہ میں مجھے اُن سے بہت کچھ ''سیکھنا‘‘ تھا۔
ان کی گفتگو کا لبِ لباب یہ تھا کہ میں چونکہ ضرورت سے زیادہ پڑھا لکھا، خوش گفتار، تمیزدار اور بظاہر ایک شریف آدمی معلوم ہوتا ہوں لہٰذا مجھے محکمہ پولیس میں نہیں آنا چاہئے تھا۔ انہوں نے اپنے اس موقف کو مزید تقویت دیتے ہوئے مجھے چوروں، ڈاکوئوں اور شر پسند عناصر کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں اور دیگر خطرات سے بھی آگاہ فرمایا اور نصیحت کی کہ میں اپنی ساری توجہ لکھائی پڑھائی پر دوں اور تھانے میں زیادہ وقت ''ضائع‘‘ نہ کروں۔ دراصل موصوف میری موجودگی اور تھانے کے معاملات میں بلاوجہ ''مداخلت‘‘ کے باعث پیش آنے والے مستقبل کے معاملات کی پیش بندی فرما رہے تھے کیونکہ گزشتہ ڈیڑھ سال تک جس تندہی، انہماک اور جدید ترین اصولوں پر مشتمل پولیس سروس کے نامور کمانڈر جناب ناصر خان درانی کی سربراہی میں دیگر باصلاحیت اور اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران نے ہماری تربیت کی تھی‘ اس کا شہرہ پاکستان کے طول و عرض میں پھیل چکا تھا۔ ہمارا بیچ تقریباً 280 افسران پر مشتمل تھا اور ہم سے پنجاب پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کے لیے بہت سی توقعات وابستہ کی جا رہی تھیں۔
میں نے ایس ایچ او صاحب کی تمام باتوں سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے محض ایک بات سے اختلاف کرنے کی جسارت کی کہ میں ان کے وسیع تجربے سے استفادہ کیے بغیر بھلا کیسے رہ سکتا ہوں‘ لہٰذا میں پوری دیانتداری اور مکمل یکسوئی سے ان کے زیرِ نگرانی اپنا ڈی کورس مکمل کروں گا۔ میں نے انہیں یہ ''خوشخبری‘‘ بھی سنائی کہ میں رات کا گشت تھانے کی گاڑی میں اور ملازمین کے ہمراہ خود کیا کروں گا تا کہ شہریوں کی جان و مال کی مکمل حفاظت اور ان کے ذہنی سکون کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے بادل نخواستہ مجھ سے اتفاق کرنے میں ہی عافیت سمجھی کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ میں ان کی کسی بھی ''شاطرانہ چال‘‘ میں پھنسنے والا نہیں تھا۔
میں اپنی کرسی سے اٹھا۔ سامنے والی دیوار پر تھانے کی حدود اور اہم مقامات کی نشاندہی کرتا ہوا ایک دیدہ زیب نقشہ لٹکا ہوا تھا۔ میں اس نقشے کی مدد سے ایس ایچ او صاحب سے مختلف جرائم اور مجرمانہ سرگرمیوں کے حوالے سے حساس علاقوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگا۔ مزید برآں میں نے تھانے کے محرر کو بلا کر رات کے گشت کے پروگرام کے بارے میں مطلع کیا اور اسے چاق و چوبند پولیس ملازمین اور گاڑی کی تیاری کے سلسلے میں کچھ ہدایات کیں۔ محرر صاحب نے حسبِ توقع ایس ایچ او صاحب سے آنکھیں چار کیں، کچھ مخصوص اشارے کیے مگر چار و ناچار میری ہدایات پر عمل داری کے لیے اثبات میں سر ہلا کر وہ اپنے دفتر میں واپس چلا گیا۔
ایس ایچ او صاحب کی بریفنگ کے دوران مجھے دو نہایت اہم اور حساس علاقوں کی نشاندہی ہوئی۔ ایک زرعی یونیورسٹی کے ساتھ راجے والی کی طرف جانے والی تنگ و تاریک سڑک تھی جہاں اندھیرے کے سبب شہرسے گھر جاتے ہوئے کاروباری حضرات سرِ شام راہزنی کا شکار ہو جاتے تھے اور دوسرا حساس مقام لاری اڈہ کے عقب میں طارق آباد ریلوے پھاٹک تھا جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی گزرگاہ تھی۔ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ موٹر سائیکل سکواڈ راجے والی روڈ پر اپنا گشت بڑھائے گا اور شام سے لے کر رات گئے تک اپنی موجودگی وہاں یقینی بنائے گا جبکہ میں‘ ہمراہ ملازمین‘ طارق آباد پھاٹک کے معاملات پر خود نظر رکھوں گا۔ لہٰذا تقریباً رات آٹھ بجے میں گشت کرتے ہوئے مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا اور پھاٹک کے قریب گلی کی اوٹ میں اپنے ملازمین کے ہمراہ پوزیشن سنبھال کر ناکہ بندی شروع کر دی۔
یہ سردیوں کی ایک اندھیری شام تھی۔ اگلے ایک گھنٹے میں یکسر موسم تبدیل ہوا، تیز ہوا کے ساتھ گہرے سیاہ بادلوں نے رات کی تاریکی میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ ہم آنے جانے والے مشکوک افراد کی جامع تلاشی لے رہے تھے، شناخت کے متعلق چند روایتی سوال و جواب مگر انتہائی شائستہ انداز میں۔ موسم کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ گفتگو کا یہ لب و لہجہ یقینا ان لوگوں کے لیے ایک خوشگوار تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ ہم اسی عمل میں مصروف تھے کہ بارش شروع ہو گئی جس پر ہم سب گاڑی میں آکر بیٹھ گئے اور یوں رات کے دس بجے کے قریب ڈرائیور اور گن مین صاحبان کی طرف سے اچھی ناکہ بندی کے انعام کے طور پر رات کا کھانا کھلانے کی فرمائش کی جانے لگی۔ انہوں نے مجھے دو تین لذیذ کھانوں والے ریستوران سے آگاہ کیا اور وہاں سے ناکہ بندی ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے کھانا کھلانے کی ہامی بھر لی مگر واضح کیا کہ ناکہ بندی رات بارہ بجے تک ہر صورت جاری رہے گی۔
ہم ابھی یہی معاملات طے کر رہے تھے کہ لاری اڈہ کی طرف سے آنے والے ایک رکشے نے اچانک بریک لگائی، لائٹس آف کیں اور پھاٹک سے دو گلیاں پہلے ہی ایک تنگ سی گلی میں مڑ گیا۔ ہم نے فوراً اس کے تعاقب کا فیصلہ کیا اور اگلے چند لمحات میں اس رکشے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جو کوشش کے باوجود بارش کے باعث پھسلن کی وجہ سے زیادہ دور نہیں جا سکا تھا۔ اس رکشے میں صرف ایک شخص سوار تھا۔ رکشہ ڈرائیور سے اچانک راستہ بدلنے اور اس تنگ و تاریک گلی میں مڑنے کی وجوہات دریافت کیں تو اس کے پاس کوئی معقول وضاحت نہیں تھی۔ رکشہ میں سوار شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں سے تشریف لا رہا ہے تو اُس نے بتایا کہ وہ راولپنڈی کسی عزیز کے ہاں گیا تھا اور ابھی ابھی لاڑی اڈہ میں بس سے اتر کر طارق آباد اپنے گھر واپس جا رہا تھا کہ ہم نے اسے روک لیا۔ وہ ہمیں مطمئن کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا مگر ابتدائی پوچھ گچھ سے ہی وہ کافی پریشان دکھائی دیا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں