جس دوران میں رکشہ ڈرائیور اور اس میں موجود مشکوک شخص سے چند بنیادی سوالات پوچھ رہا تھا‘میں دونوں کی گفتگو میں تسلسل کے فقدان، ربط کی کمی اور نمایاں تضادات کو غور سے نوٹ کر رہا تھا۔ پولیس کالج سہالہ کی تربیت اور تفتیش کے طریقہ ہائے کار کے سارے نکات ذہن نشین تھے جن کے مطابق ملزم سے کی گئی گفتگو اور اس کی باڈی لینگویج نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ روایتی تھرڈ ڈگری طریقہ کار اور اس کے ساتھ جڑے جسمانی تشدد کے بجائے ذہنی اور نفسیاتی طور پر ملزم کو بریک کرنا ہی دراصل جدید طرزِ تفتیش کا مقصود رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر شائستہ لب ولہجے کا قائل رہا ہوں لہٰذا ان دونوں سے کی گئی گفتگو کے دوران میں نے تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ میرے ساتھی اہلکاروں نے رکشے کی مکمل تلاشی لی اور انہیں اس میں کچھ بھی قابلِ ذکر چیز نظر نہ آئی۔ ان دونوں کی جامہ تلاشی کے دوران بھی کوئی ممنوعہ یا قابلِ اعتراض اشیا نہ ملیں، اس پر ہمارے ڈرائیور نے خاصی مایوسی کا اظہار کیا اور میرے قریب آکر آہستہ سے کہا کہ سر! ان کے پاس کچھ بھی نہیں‘ لہٰذا انہیں جانے دیں اور ہم ناکہ بندی ختم کر کے کھانا تناول کرنے چلتے ہیں۔ میں نے اپنے دونوں گن مین حضرات کی طرف دیکھا تو مجھے فوراً محسوس ہوا کہ وہ ڈرائیور کی عجلت پسندی سے غیر مطمئن ہیں۔ میرا شک اپنی جگہ مضبوط ہو رہا تھا لہٰذا میں نے اس مشکوک شخص کو پولیس گاڑی میں بٹھانے کا کہا۔ایک کانسٹیبل رکشہ میں سوار ہو گیا اور ہم سب تھانہ سول لائنز روانہ ہو گئے۔
اگلے پندرہ منٹ میں ہم تھانے کے صحن میں پہنچ گئے جہاں دوبڑی لائٹس کی تیز روشنی میں رکشے کی دوبارہ تلاشی کا کام شروع ہوگیا۔ دریں اثنا میں نے ملزم کو ایس ایچ او کے آفس میں بلوا کر اس سے پوچھ گچھ کو آگے بڑھایا۔ میں نے اس سے راولپنڈی سے فیصل آباد سفر کی تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں کہ وہ کون سی بس سروس سے فیصل آباد پہنچا تھا اور اس سے ٹکٹ کے متعلق بھی پوچھا، کرایہ کتنا ادا کیا؟ وہ راولپنڈی جس گھر میں مقیم رہا وہاں کسی فرد سے بذریعہ ٹیلیفون تصدیق کرانے کا کہا۔ ان تمام سوالات کے اس کے پاس جوابات نہیں تھے۔ اپنی باتوں میں موجود مسلسل تضادات سے وہ خود بھی پریشان ہوتا جا رہا تھا۔ اسی دوران رکشے کی سیٹوں کے آگے نصب کیے گئے کارپٹ‘ جسے پیچ لگا کر مضبوطی سے فکس کیا گیا تھا‘ کے نیچے چھپائی گئی چرس برآمد ہو گئی جس کی مقدار لگ بھگ ایک کلو تھی۔ گولڈن رنگ کے چمکیلے اوراق میں پلاسٹک شیٹ کے اندر نفاست سے پیک کیے گئے آدھا آدھا کلو کے دو پیکٹ میرے سامنے میز پر رکھ دیے گئے۔اتنی مقدار میں منشیات کی برآمدگی یقینا ایک بڑی کامیابی تھی۔پہلے ہی دن نہایت خالص قسم کی چرس کی برآمدگی اور وہ بھی اتنی بڑی مقدار میں یقینا میرے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔تھانے میں موجود سب اہلکاران اس کامیاب کارروائی پر بہت خوش دکھائی دیے۔ رکشہ ڈرائیور اور شریک ملزم کو حوالات میں بند کر دیا گیا اور میں نے محرر صاحب کو بلا کر ان دونوں کے خلاف حسبِ ضابطہ کارروائی کرنے کا کہہ دیا۔ میں نے وائرلیس سیٹ اٹھا کر کنٹرول روم کو اس بڑی کارروائی کی اطلاع دی جسے سنتے ہی ڈی آئی جی کی طرف سے بذریعہ آپریٹر مجھے وائرلیس پر شاباش کا پیغام دیا گیا۔ اس کے اگلے ہی لمحے ایس ایس پی صاحب خود وائرلیس سیٹ پر آئے اور اس شاندار کارکردگی کو خوب سراہا۔ میرے لیے وہ لمحات نہایت خوشگوار تھے اور پہلی ہی شام مجھے اپنی اس بڑی کارروائی پر بہت خوشی ہوئی۔
تھانہ محرر نے بذریعہ ٹیلی فون ایس ایچ او صاحب کو اطلاع کر دی تھی لہٰذا موصوف وقت ضائع کیے بغیر اگلے پندرہ منت میں تھانہ تشریف لا چکے تھے۔ آتے ہی مجھے شاباش دی اور دیگر اہلکاروں کو کمرے سے نکلنے کا حکم صادر فرمایا۔ ایس ایچ او صاحب نے اپنی گفتگو وہیں سے شروع کی جہاں انہوں نے شام کو ختم کی تھی۔ مجھے فرمانے لگے کہ جپہ صاحب! آپ کو پتا ہے آپ نے کس خطرناک اور عادی مجرم پر ہاتھ ڈال دیا ہے؟ اس کا پورا خاندان منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث ہے۔ یہ ہر روز پکڑے جاتے ہیں مگر ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں جس کے باعث یہ بہت جلد رہا ہو جاتے ہیں۔ ہم ان کو چالان کر دیں تو بھی عدالتوں سے یہ ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں لہٰذا اب آپ ریسٹ ہائوس جائیں اور آرام کریں، میں ان سے خود ''اچھی طرح‘‘ نمٹ لوں گا۔میں نے ایس ایچ او صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میں بذریعہ وائر لیس پہلے ہی اس کارروائی کی اطلاع پولیس کنٹرول کو دے چکا ہوں جس کے بعد جناب ڈی آئی جی اور ایس ایس پی صاحب مجھے شاباش بھی دے چکے ہیں لہٰذا آپ کی ساری گفتگو ایک طرف مگر میں اپنی نگرانی میں یہ پرچہ درج کروں گا اور اس سلسلے میں مجھے کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ موصوف فوراً جلال میں آئے، کرسی سے اٹھے اور فرمانے لگے: جپہ صاحب! یہ بہت خطرناک لوگ ہیں۔ آپ ابھی محکمے میں ڈائریکٹ انسپکٹر بھرتی ہوئے ہیں آپ کا لمبا کیریئر ہے اور آپ ڈی آئی جی تک آسانی سے پروموٹ ہوتے جائیں گے۔ آپ کو یہ عادی مجرم بہت خراب کریں گے۔ من گھڑت اور خود ساختہ درخواست بازی کے ذریعے آپ کی شکایات لگائیں گے، آپ کے خلاف اعلیٰ حکام تک پہنچیں گے اور آپ کو بدنام کر کے آپ کی کردار کشی کریں گے۔ اس انتہائی جذباتی تقریر کے دوران موصوف میری طرف بڑھے اور پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمانے لگے: آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں‘ اسی لیے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں۔ آپ جائیں اور سکون کی نیند سوئیں، باقی سب کچھ مجھ پر چھوڑ دیں۔ میں نے کہا: سر! آپ کی ہمدردانہ گفتگو کی میں دل سے قدر کرتا ہوں مگر میں اس کارروائی کو حسبِ ضابطہ انجام تک خود پہنچائوں گا اور پرچہ درج کیے بغیر بھلا میں کیسے آرام کی نیند سو سکتا ہوں۔ میرے اصرار پر بالآخر ایس ایچ او صاحب اور محرر حسبِ ضابطہ کارروائی عمل میں لانے پر مجبور ہو گئے اور رات گئے میں واپس ریسٹ ہائوس آ گیا۔
اگلے چند روز ایک طرف ایس ایچ او صاحب کا موڈخراب رہا تو دوسری طرف مجھے کبھی سفارشی کالز اور کبھی سنگین نتائج کے دھمکی آمیز پیغامات ملنے کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کارروائی کے ایک ہفتے بعد وہی ہوا جس کی پیش گوئی ایس ایچ او صاحب پہلے ہی کر چکے تھے۔ مجھے ڈی آئی جی آفس سے اطلاع ملی کہ آپ کے خلاف حکامِ بالا سے چند شکایتی درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور اس سلسلے میں ڈی آئی جی صاحب نے آپ کو اگلے روز اپنے آفس طلب فرمایا ہے۔ میں نے تھانہ محرر کے ذریعے ملزم اور اس کے خاندان کے خلاف مختلف تھانوں میں درج ہونے والے تمام مقدمات‘ جو دودرجن سے زائد تھے‘ کی فہرست مرتب کرائی اور اسے اپنے پاس ایک فائل میں محفوظ کر لیا۔ اگلی صبح جب میں ڈی آئی جی صاحب کے سامنے حاضر ہواتو ملزم اور اس کے خاندان کے خلاف درج ہونے والے تمام مقدمات پر مبنی فہرست ان کے سامنے پیش کر دی۔ انہوں نے ایک نظر فائل میں موجودان مقدمات پر ڈالی اور مسکراتے ہوئے بولے کہ اگر آپ 10گرام منشیات کا پرچہ درج کر دیتے تو آپ کے خلاف یہ شکایتی درخواستیں موصول نہ ہوتیں۔ وہ میرے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آئے۔ انہیں وائرلیس پر دیا گیا اپنا وہ پیغام بھی یاد تھا کہ انہوں نے مجھے اس کارروائی پر شاباش دی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کی نوکری میں جرائم پیشہ افراد ایماندار پولیس افسران کے خلاف ایسی بے سروپا درخواستیں آئے روز دیتے رہتے ہیں۔ میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے انہوں نے مجھے آئندہ بھی اسی فرض شناسی اور دیانتداری کی تلقین کر کے رخصت کر دیا۔ میں نے انہیں سیلوٹ کیا اور واپس آگیا۔
قارئینِ کرام! کیا میرے خلاف ملزمان کی طرف سے دی گئی ان شکایتی درخواستوں کے پیچھے ایس ایچ او صاحب کا ہاتھ تھا یا نہیں؟ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟