مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری شروع کی تو اس سلسلے میں رہنمائی کیلئے خوب تگ و دو کرنا پڑی۔ سول سروس کی کئی قد آور شخصیات سے طے شدہ وقت پر ملاقات کے ذریعے سوالات و جوابات کی نشست میں مختلف مضامین کے انتخاب سے لے کر ان سے متعلق مستند کتابیں، نوٹس اور مصنفین پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی۔ اس دوران ہمیں تین قسم کے افسرانِ بالا سے واسطہ پڑا۔ ان سینئر سول سرونٹس میں ایک کلاس ایسے افسران کی تھی جنہوں نے بہت فراخ دلی سے رہنمائی کی‘ اعلیٰ ظرفی دکھائی‘ کسی طور پر بھی اپنی بڑائی، فوقیت یا ٹھاٹ باٹ سے ہمیں مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کی اور گائیڈنس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انسپائر بھی کیا۔ دوسری قسم ایسے افسران کی تھی جن کے اندازو اطوار نرالے تھے۔ انہوں نے گائیڈ کرنے کے بجائے اپنی ذہانت، قابلیت، محنت اور علم و فراست کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی اور سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کو دنیا کے مشکل ترین اہداف میں سے ایک قرار دیا۔ انہوں نے یوں باور کرایا کہ جیسے یہ امتحان کچھ نہایت خاص اور بے پناہ قابل افراد ہی پاس کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ گویا یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ تیسری قسم کے افسران ایسے تھے جنہوں نے ملنے کیلئے وقت ہی نہیں دیا اور اپنی بے پناہ مصروفیات کا بہانہ بناتے ہوئے پتلی گلی سے نکل گئے۔
پھر وقت بدلا اور میں خود سی ایس ایس پاس کر کے سول سروسز اکیڈمی لاہور جا پہنچا۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا لہٰذا بالمشافہ ملاقات کے ذریعے رہنمائی حاصل کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اکیڈمی میں تقریباً ہر روز ایسے نوجوان آ تے جو اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے میں راہ نمائی کو ضروری سمجھتے تھے۔ میں انہیں تفصیل کے ساتھ گائیڈ کرتا اور ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دینے کی حتی المقدور کوشش کرتا۔ سی ایس ایس کی تیاری کے دوران اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر میں نے یہ ٹھان لیا تھا کہ تا دمِ حیات علم و فکر کی شاہراہ کے ہر مسافر کی راہ نمائی اور معاونت میں انتہائی خندہ پیشانی اور عاجزی سے کام لینا ہے اور خیر کی خیرات تقسیم کرنے میں کوئی کسر باقی اٹھا نہیں رکھنی۔ مگر مجھے اس وقت شدید رنج ہوتا جب میرے پاس ایسے نوجوان بھی پہنچ جاتے جو میرے کسی بیچ میٹ سے ملنے آتے تھے مگر یا تو انہیں وہ صاحب مل نہیں پاتے تھے یا ان سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے تھے اور روکھے سوکھے انداز میں چند رسمی باتیں کر کے انہیں چلتا کرتے۔ اب میں سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ وہ مجھ تک کیسے پہنچ جاتے تھے اور کیسے مجھ سے انتہائی بے تکلفی سے اپنی پریشانی بیان کرتے اور پھر سی ایس ایس کی بابت اپنے سوالات کا سلسلہ شروع کر دیتے۔لہٰذا میں اپنے آپ کو انتہائی خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ ربِ کریم نے مجھ تک ایسے ہزاروں نوجوان بھیجے جن کی زندگی کی راہوں میں آنے والے مصائب، پریشانیوں اور کیریئر سے متعلق الجھنوں کو سلجھانے میں مَیں ان کے کسی کام آ سکا یا ان کی رہنمائی کر کے ان کے راستوں میں بچھائے گئے کانٹوں کو ہٹانے میں ان کی معاونت کر پایا۔ پولیس میں کانسٹیبل کی بھرتی سے سول سروس کے امتحان تک‘ میں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ رہنمائی کیلئے آنے والے ہر نوجوان کی ڈھارس بندھائی جائے، اس کا حوصلہ بڑھایا جائے، اس کے کندھے پر تھپکی دی جائے اور اس کے دلِ بے قرار میں امید و آرزو کے پھول کھلائے جائیں تا کہ وہ اپنے لیے ایک نیا جہان تلاش کر سکے جس میں اس کے بلند ارادوں کی تکمیل بھی ہو اور اپنے شاندار مستقبل کیلئے دیکھے جانے والے ہر خواب کی تعبیر بھی۔
زندگی کے ماہ و سال گزرتے گئے اور مختلف سرکاری محکموں میں پوسٹنگز ہوتی رہیں مگر ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھا اور ہر عام و خاص کی جائز مدد و معاونت کو اپنے لیے باعثِ سعادت گردانا۔ حضرت علی المرتضیٰؓ سے منسوب ایک قول ہے کہ ضرورت مند لوگوں کا اپنی حاجات کیلئے تم تک پہنچ جانا دراصل ربِ کریم کی تم پر عنایت ہے ورنہ وہ انہیں کسی اور دہلیز پر بھی بھیج سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو دینے والا ہاتھ بنایا گیا ہے تو یہ اُس مالک کا کرم ہے۔ میں اس تجربے سے بارہا دو چار ہوا۔ بہت سے ملاقاتی مجھ تک ایسے بھی پہنچے جو اپنے کسی عزیز، چاہنے والے یا کسی قریبی رشتہ دار سے ملنے آئے تھے مگر صاحب بہادر کی سرد مہری سے وہاں سے دلبرداشتہ ہو کر اٹھے اور میرے پاس آگئے۔ ایسے کئی واقعات مجھے یاد ہیں۔ ایک دفعہ ایک افسر کے ماموں آئے مگر اس نے انہیں ملنے سے انکار کر دیا اور اپنے سٹاف کو کہا کہ انہیں کہہ دو کہ صاحب ضروری میٹنگ میں مصروف ہیں اور انہیں دیر ہو جائے گی لہٰذا وہ جا سکتے ہیں۔ اپنی دکھ بھری داستان میں ان بزرگ نے مجھے بتایا کہ ''بڑے صاحب‘‘ کو کس طرح وہ زمانۂ طالبعلمی میں مالی طور پر سپورٹ کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ سول سروسز اکیڈمی کے زیرِ تربیت عرصہ میں بھی انہوں نے اسے معاشی طور پر آسودہ رکھا مگر اس دن وہ احسان فراموش اپنے محسن و مربی سے آنکھیں چرا گیا۔ اسی طرح کی بے شمار مثالیں ہیں اور اس سے زیادہ تکلیف دہ مثالیں بھی ہیں کہ ایک بھائی اپنے سگے بھائی سے نہیں ملا اور ایک بدنصیب بیٹے نے اپنے سگے باپ کو سکیورٹی سٹاف کے پاس بٹھا کر پہلے انتظار کرایا اور پھر یہ کہہ کر کہ یہ شخص اس کے گائوں کا کوئی کمی کمین ہے‘ اسے دفتر سے نکالنے کا حکم دے دیا۔ بہت سے تکلیف دہ قصے ہیں، اَن گنت کہانیاں ہیں اور ہوشربا واقعات‘ جو گزشتہ بیس سالوں میں ہر روز میرے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔
یہاں جو سوال سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ایسا رویہ کیوں اختیار کر تے ہیں؟ ایک چھوٹی سی کامیابی ملنے کے بعد اپنوں سے ہی کیوں بیگانے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں ماتھے پر کیسے سجا لیتے ہیں؟ عوام کے مسائل حل کرنے اور ان کیلئے آسانیاں تلاش کرنے کے بجائے مشکلات بڑھانے میں پیش پیش کیوں نظر آتے ہیں؟ غرور، تکبر، گھمنڈ، رعونت، سرد مہری اور بدکلامی کیوں ان کی شخصیت کی پہچان بن جاتی ہے؟ وہ کامیابی کو اپنی محنت، ذہانت اور قابلیت کا نتیجہ کیوں سمجھتے ہیں اور احساسِ برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر کیوں گردانتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی عقلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور یہی خوش فہمی دراصل ان کی بہت بڑی بھول بن جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی ڈرائیور سالوں تک گاڑی چلائے اور کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہونے پر اپنی مہارت کے گن گاتا رہے۔حالانکہ یہ سراسر خدا کا فضل و کرم ہے، اس سے زیادہ چالاک، حاضر دماغ اور پھرتیلے ڈرائیور ہر روز خوفناک حادثات کا شکار ہو جاتے اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بسا اوقات حادثات میں غلطی کسی اور کی ہوتی ہے اور اپنی جان سے جانے والوں کا کچھ قصور نہیں ہوتا۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات کا بھی احساس رہتا ہے کہ میں ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال بھی کرتا رہا ہوں حتیٰ کہ میسجز کے جواب دینے لگ جاتا مگر سفر بخیر و خوبی انجام پا جاتے رہے لیکن اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا اور نہ ہی میری ڈرائیونگ کا کوئی عمل دخل تھا۔ مجھ سے زیادہ توجہ، مہارت اور یکسوئی سے گاڑی چلانے والے صبح ہنسی خوشی گھرسے نکلے اور وہ ان کا آخری سفر ثابت ہوا، ایک مہلک حادثہ انہیں موت کی گھاٹی میں لے اترا۔ اسی طرح اگر آپ ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں، صاحبِ اولاد ہیں، صحتمند ہیں، صاحبِ حیثیت و مرتبہ ہیں یا طاقت، دولت، عزت، شہرت اور قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہے تو اس میں آپ کا ذاتی کوئی کمال نہیں۔ یہ مقام و مرتبہ، دنیاوی جاہ و حشم اور ساری کامیابیاں دراصل اس مالک کی عطا کردہ ہیں وگرنہ مجھ سے‘ آپ سے زیادہ حسین، ذہین، قابل، محنتی اور خوش گفتار زندگی کی پریشانیوں سے لڑتے لڑتے وقت سے پہلے بوڑھے ہو چکے یا اُس جہان جا پہنچے ہیں جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ میں اور آپ اگر اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں تو اپنی کامیابیوں پر اترانے کے بجائے اپنی ذات سے تنہائی میں یہ صرف سوال ضرور پوچھیں کہ ''وائی می‘‘ ''میں ہی کیوں؟‘‘۔ کیا میں اور آپ ان سب انعاماتِ خداوندی کے مستحق ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہماری بہت سی خوش فہمیوں اور پریشانیوں کا حل موجود ہے۔