نظامِ کائنات چند بنیادی اصولوں پر استوار ہے۔ اس کے اپنے ضابطے ہیں، اپنی اقدارہیں اور سکہ بند فارمولے ہیں جو انسانی زندگی کا ہمہ وقت احاطہ کرتے ہیں اور سفرِ زیست میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ ان میں ایک طے شدہ اور مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں سے آپ انسپائر ہوتے ہیں اور اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں انہیں رول ماڈل سمجھتے ہیں‘ وہ کہیں نہ کہیں آپ سے مل جاتے ہیں اور پھر مختلف امور پر تبادلۂ خیال کر کے آپ بہت سی مشترکہ صفات کی موجودگی اور زندگی کے نظریات کے متعلق ملتی جلتی سوچ پر حیران رہ جاتے ہیں۔ مدتوں پہلے آپ نے کسی شخص کے بارے بہت کچھ سن رکھا ہو اور پھر اس سے مل کر بالکل اسی طرح محسوس ہو جس طرح آپ نے اپنے چشمِ تصور میں اس کی تصویر بنا رکھی تھی تو آپ کو یقین نہیں آتا کہ روحوں کا ملاپ شاید ہمارے جنم سے پہلے کہیں اور ہو چکا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں ہم کسی بہانے سے مل جاتے ہیں یا قدرت ہمیں ملانے کا اہتمام کر دیتی ہے۔ مجھے یہ تجربہ کئی بار ہوا ہے۔
بچپن میں کرکٹ کھیلنا شروع کیا تو رمیز حسن راجہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز اوپننگ بیٹسمین تھے۔ بالخصوص فاسٹ بائولنگ کو وہ سیدھے بلے کے ساتھ نہایت دلکش انداز سے کھیلتے تھے۔ مجھے ان کا یہ انداز اچھا لگا اور میں نے بھی اپنی ٹیم میں اوپننگ بیٹسمین کی حیثیت سے جگہ بنائی۔ سیدھے بلے کے ساتھ مڈآن، مڈ آف اور کور پر سٹروک کھیلنا شروع کیے جبکہ گائوں کی کرکٹ میں محض لیگ سائیڈ پر ہی کھیلنے کا رواج تھا۔ وقت تیزی سے آگے بڑھ گیا اور میں گورنمنٹ کالج لاہور پڑھنے کے لیے آ گیا۔ پھر یونیورسٹی کا زمانہ آیا۔ ایم اے انگلش کے دوران میں شام کے وقت ایک قومی سطح کی نیوز ایجنسی کے انگلش ڈیسک پر بطور سب ایڈیٹر کام کرنے لگا اور بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کر کے فنِ تحریر کی ریاضت میں مصروف ہو گیا۔ انگریزی سے اردو اور اردو سے انگریزی زبان میں خبریں بنانا اور ایڈیٹر صاحب کی کانٹ چھانٹ کے بعد مختلف قومی اخبارات کی زینت بنانا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اسی دوران میری ایک خبر پر رمیز راجہ نے میرے ایڈیٹر صاحب کو فون کر کے میری تحریر کی بے پناہ تعریف کی اور مجھے اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔ بس اس کے بعد وہ تعلق ایک دیرپا اور مضبوط رشتے میں بدل گیا۔ ان کے والدِ گرامی چونکہ سول سرونٹ تھے لہٰذا رمیز بھائی نے مجھے سی ایس ایس کے امتحان کے لیے ہمیشہ موٹیویٹ کیا۔ اس طرح کی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔
پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے جب ہم منتخب ہو کر انسپکٹر پولیس کی ٹریننگ کے لیے پولیس کالج سہالہ پہنچے تو وہاں ہمارے کورس کمانڈر ناصر خان درانی ٹھہرے جو چند سال قبل ہمارے آبائی ضلع جھنگ کے ایس ایس پی رہ چکے تھے اور پولیس سروس میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت، نیک نامی اور دلیری کی وجہ سے میری پسندیدہ شخصیت تھے۔ سہالہ کالج میں میرے ساتھ پہلے تعارفی انٹرویو میں وہ انتہائی شفقت سے پیش آئے اور چند دنوں بعد میری صلاحیتوں کے اعتراف میں مجھے کورس لیڈر مقرر کر دیا۔ پھر نیاز مندی کا یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ اسی دور کے جو چند پولیس افسران دیانتداری اور اچھی شہرت کے باعث مجھے انسپائر کرتے تھے انہی میں ایک نام ڈاکٹر سید کلیم امام کا تھا۔ ایس ایس پی راولپنڈی اور ایس ایس پی اسلام آباد تعینات رہے تو میرٹ، پیشہ ورانہ کنڈکٹ اور اصول پسندی کی وجہ سے بہت عزت کمائی۔ اس وقت کی ایک طاقتور شخصیت کی ایک ناجائز خواہش پوری نہ کرنے کی سزا بھی پائی اور بطور ایس ایس پی اسلام آباد نوکری سے معطلی خندہ پیشانی سے قبول کر لی مگر اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کر دیا۔ کچھ اسی سے ملتی جلتی کارروائی میرے ساتھ بھی ہوئی جب میں نے اپنے ایک اعلیٰ افسر کے غیر قانونی حکم کو پورا کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے ''اپنے بندوں‘‘ کو خلافِ قانون سرگرمی کرنے پر حسبِ ضابطہ گرفتار کر کے پابندِ سلاسل کر دیا کیونکہ دوسری طرف ایک بیوہ اور اس کی تین کم سن بیٹیاں تھیں جن کی میرٹ پر داد رسی کرنا بطور ایس ایچ او میری پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی۔ لہٰذا میرے اس ''جرم‘‘ کی پاداش میں مجھے صاحب بہادر نے معطل کر کے لگ بھگ ایک درجن شوکاز نوٹس جاری کر دیے اور اپنے تئیں میری نوکری کے خاتمے کا بندوبست کرنا شروع کر دیا۔ مگر راہِ حق میں اس طرح کی تکالیف دراصل دھویں کے بادل ثابت ہوتی ہیں اور وقتی اندھیرے کے بعد پھر روشنی اور پریشانی کے بعد ذہنی آسودگی اور روحانی اطمینان نصیب ہو تا ہے۔ تمہید کچھ زیادہ ہی ہو گئی!
بات ہو رہی تھی ڈاکٹر کلیم امام کی‘ جو آج کل برطانیہ آئے ہوئے ہیں اور چند روز قبل لندن میں اتوار کا دن اس کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ گزشتہ سال اپریل میں پولیس سروس آف پاکستان میں 33سالہ طویل اور شاندار کیریئر کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں تو اب ان کے پاس گپ شپ کا وافر وقت ہوتا ہے۔ لہٰذا زندگی کے مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی جس میں پولیس کے شعبہ میں موجود نقائص، ناہمواریوں اور ان معاشرتی و معاشی مسائل کا بھی احاطہ کیا گیا جن سے آج کل ہمارا ملک دو چار ہے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کالم لکھنا شروع کر رکھا ہے اور تواتر کے ساتھ وہ قارئین سے اپنے تجربات اور مشاہدات پر مبنی فکر انگیز مضامین کے ذریعے ہم کلام ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح وہ اسم با مسمٰی ثابت ہوئے ہیں اور اپنے نام کی لاج رکھے ہوئے ہیں۔ انہی مضامین کو ترتیب میں لا کر انہوں نے اپنی پہلی کتاب ''کوتوال نامہ‘‘ کے نام سے شائع کی جو اپنی اشاعت کے ساتھ ہی بے حد مقبول ہو چکی ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن جون میں اشاعت کے محض 45روز بعد ہی ختم ہو چکا اور اب اس کا دوسرا ایڈیشن زیرِ طبع ہے۔
لندن میں ہونے والی ہماری ملاقات کے دوران ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس تصنیف کی ایک کاپی مجھے بھی عنایت کی جسے میں نے چند گھنٹوں میں ہی ختم کر لیا۔ اگرچہ یہ کتاب ضخامت کے لحاظ سے بہت بڑی نہیں ہے مگر ڈاکٹر صاحب کے اختصار میں جامعیت بھی ہے اور جاذبیت بھی۔ وہ بغیر تصنع کے‘ سادہ اور برجستہ انداز میں قاری سے گفتگو کر تے نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کی شخصیت انہیں اللہ کریم نے عطا کر رکھی ہے۔ درحقیقت یہ کتاب ان کی ذات کی عکاس ہے۔
ڈاکٹر سید کلیم امام بھی اپنے والدِ گرامی کے نقشِ پاکی کھوج میں فارن سروس آف پاکستان کو جوائن کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر پولیس سروس آن پہنچے، اس پر ان کی والدہ اس بات پر پریشان ہو گئیں کہ ان کا پڑھا لکھا، شریف النفس اور دھیمے مزاج والا بیٹا چوروں، ڈاکوئوں اور ظالموں سے کس طرح نبرد آزما ہوگا۔ پندرھویں کامن سے تربیت پا کر بطور اے ایس پی کوئٹہ میں نوکری کا آغاز کیا، پھر اس قبائلی معاشرے میں مسلسل 10سال گزار کر خوفناک مجرموں کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے کرتے ایس ایس پی کوئٹہ کی پوسٹ تک جا پہنچے اور بلوچستان کے مشکل ترین تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن بن گئے۔ اپنے 33سالہ طویل کیریئر میں پانچ مرتبہ آئی جی کی مسندِ توقیر کے مستحق قرار پائے اور پانچ سال تک اقوامِ متحدہ میں خدمات سرنجام دیں۔ فلاسفی کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے سید کلیم امام پاکستان پولیس کے واحد آفیسر ہیں جنہیں سب سے زیادہ مرتبہ آئی جی بننے کا اعزا نصیب ہوا‘ اس لیے اگر ہم انہیں ''کوتوالوں کا امام ‘‘کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔