مانچسٹر ایئرپورٹ پر کچھ دیرینہ احباب میرے منتظر تھے اور وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئے جہاں ایک رات قیام کے بعد میں نے اپنی یونیورسٹی میں رجسٹریشن کے لیے پہنچنا تھا۔ اگلی صبح تیار ہو کر ہم نیلسن سے لیسٹر کے لیے عازمِ سفر ہوئے تو تقریباً تمام راستے میں ہلکی ہلکی بارش نے ہمارا ساتھ دیا اور یوں ایک خوبصورت موسم اور سازگار فضا میں پہلے دن کا آغاز ہوا۔ تقریباً تین گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم یونیورسٹی کی مین لائبریری کے فرنٹ ڈیسک پر پہنچ گئے۔ ای میل کے ذریعے مجھے رجسٹریشن کے متعلق تمام ضروری معلومات پہلے ہی پہنچا دی گئی تھیں۔ وہاں میری طرح اور بھی کئی ممالک سے آئے ہوئے طلبہ اور طالبات اس عمل سے گزر رہے تھے۔ میری باری آنے پر سٹاف نے مجھ سے صرف یونیورسٹی آئی ڈی کے متعلق دریافت کیا اور اگلے پانچ منٹ میں میرا ای میل اور پاسورڈ بنا کر مجھے یونیورسٹی کے پورٹل کے ساتھ منسلک کر دیا۔ سٹاف کی نگرانی میں ایک خود کار نظام کے تحت میں نے اپنے لیپ ٹاپ پر لگ بھگ دس منٹ میں رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا۔ اس کے بعد میرا یونیورسٹی کارڈ میرے حوالے کر دیا گیا جو دراصل یونیورسٹی کیمپس اور ہوسٹل کے تمام کمرہ جات، دفاتر، لائبریری اور کلاس رومز تک رسائی کا واحد ذریعہ تھا۔ چونکہ تمام دروازے ایک خود کار نظام سے منسلک ہونے کی وجہ سے خود بخود کھلتے اور بند ہو جاتے ہیں لہٰذا صرف یونیورسٹی سے متعلقہ افراد ہی اپنے کارڈ کو سوائپ کر کے ان میں سے گزر سکتے ہیں۔
اب میرا اگلا مسئلہ رہائش کا بندوبست تھا جس کے لیے ایک بار پھر میں کائونٹر پر موجود خاتون کے سامنے ضروری معلومات کے لیے پہنچ گیا۔ اس نے مجھے لائبریری کے عقب میں موجود ایک دوسرے آفس کے بارے میں گائیڈ کرتے ہوئے دوعدد نقشہ جات میرے حوالے کر دیے جن میں سے ایک یونیورسٹی کیمپس کی مکمل رہنمائی کرتا تھا تو دوسرا لیسٹرشہر اور اس کے تمام نمایاں مقامات اور سفری معلومات پر ایک جامع دستاویز تھی۔ چند منٹ بعد متعلقہ دفتر کے ایک خوش گفتار صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے میری رہائش کے بارے میں ترجیحات دریافت کیں۔ چونکہ میں پی ایچ ڈی سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ تدریسی فرائض کے لیے بھی منتخب ہو چکا تھا لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ میں یونیورسٹی کی ایسی بلڈنگ یا بلاک میں رہائش اختیار کروں جہاں ایم فل یا پی ایچ ڈی طلبہ ہی رہائش پذیر ہوں۔ اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر کچھ دیر متوجہ رہنے کے بعد انہوں نے مجھے شہر کے ایک معروف ہوٹل میں دوراتوں کے لیے قیام کی تجویز دی کیونکہ متعلقہ بلاک میں میرے لیے اس وقت تک کمرہ میسر نہ تھا۔ اس نے ساتھ یہ بھی وضاحت کی کہ ہوٹل میں قیام کے اخراجات یونیورسٹی برداشت کرے گی کیونکہ میں سکالرشپ ہولڈر تھا اور شعبہ تدریس کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی سٹاف کا رکن بھی بن چکا تھا۔ یہ سب کچھ میرے لیے بہت خوشگوار اور ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ قدم قدم آسانیوں پر مبنی میں ایک نئی دنیا کے جہانِ حیرت میں داخل ہو چکا تھا جہاں ہر لمحے ایک نیا مشاہدہ اور مختلف تجربہ میرا منتظر تھا۔
اگلے روز ہوٹل سے ٹائی سوٹ میں ملبوس ہو کر میں بزنس سکول جا پہنچا جہاں میری ملاقات اپنے سپروائزر کے ساتھ پہلے سے طے شدہ تھی۔ تینوں پروفیسرز صاحبان نے بڑی گرم جوشی اور نہایت مشفقانہ انداز سے پی ایچ ڈی پروگرام میں مجھے خوش آمدید کہا۔ اس تعارفی ملاقات کے دو دن بعد پورے ڈیپارٹمنٹ کی میٹنگ میں دیگر رفقائے کار اور پی ایچ ڈی سکالرز سے بھی ملاقات کا موقع مل گیا۔ مگر جس چیز نے مجھے حیران کیا وہ لباس کی سادگی اور تصنع سے پاک بے باک گفتگو تھی جس میں جونیئر اور سینئر کی کوئی تفریق موجود نہیں تھی اور کسی بھی قسم کے پروٹوکول کا شائبہ تک موجود نہیں تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ٹائی سوٹ کے بجائے جینز‘ جوگر اور جیکٹ ہی مناسب لباس رہے گا کیونکہ کہتے ہیں نا: جیسا دیس ویسا بھیس۔
اس ضمن میں پہلی ملاقات میں میرے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے‘ جو میرے سپروائزر بھی ہیں‘ مجھ پر واضح کر دیا کہ مجھے سابقہ تعلیمی سفر اور بطور سول سرونٹ پیشہ ورانہ کیریئر کو پسِ پشت ڈال کر ایک مرتبہ پھر طالب علم کے طور پر اپنا سفر شروع کرنا ہے اور میری نئی پہچان میرے ریسرچ ورک اور اس کی کوالٹی پر منحصر ہو گی۔ لہٰذا میں نے فارمل لباس ترک کر کے سمارٹ ڈریسنگ شروع کردی۔ ایک دن انجانے میں ہوڈی پہنے ہوئے میں نے وضو کے لیے عینک اتاری تو اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ کر فریم سے الگ ہو گئی جس کے باعث مجھے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ میرے پاس کوئی متبادل عینک موجود نہیں تھی۔ اسی اضطراب میں سٹی سنٹر جا کر میں نے اپنی عینک کی مرمت کے لیے مختلف عینک ساز دکانوں پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا مگر سب نے اس سے پہلے میری نظر کے معائنے کی شرط عائد کرتے ہوئے نئی عینک بنوانے کا مشورہ دیا جس میں دس دن سے لے کر دو ہفتے کا وقت لگ سکتا تھا۔ مجھے یہ باور کرایا گیا کہ آئی سپیشلسٹ کے معائنے کے بغیر نظر کی عینک بنانا خارج ازامکان ہے۔ اب اتنے دن عینک کے بغیر کون انتظار کرے اور روز مرہ معمولات میں دشواری کا سامنا اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت تھی۔ میں نے پاکستان اپنی شریکِ حیات کو فون کر کے گھر میں موجود دو عدد متبادل عینکیں بذریعہ کوریئر فوری بھجوانے کا کہہ دیا جو تقریباً پانچ دنوں میں مجھے موصول ہو گئیں۔ مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ اس دوران میں اپنی ٹوٹی ہوئی عینک ہی مسلسل استعمال کرتا رہا کیونکہ اس کے بغیر میرے لیے روز مرہ کے امور انجام دینا ممکن نہیں تھا۔ میں بدستور یونیورسٹی، ہوسٹل اور شاپنگ مالز میں آتا جاتا رہا مگر کسی شخص نے میری ٹوٹی ہوئی عینک پر کوئی ردِ عمل ظاہر کیا اور نہ ہی میرا تمسخر اڑایا۔ یہ میرے لیے خاصا خوش گوار تجربہ تھا کیونکہ وطنِ عزیز میں تو اپنے گھر والے ہی جینا حرام کر دیتے۔ اندازہ لگائیں کہ اگر کوئی سرکاری عہدیدار اسی طرح ٹوٹی عینک کے ساتھ آفس آنے کی ہمت کرے تو اس کا حال کیا ہو گا؟
ہوسٹل میں چند ہفتے گزارنے کے بعد پرائیویٹ رہائش کرایہ پر حاصل کرنے کے لیے مختلف اسٹیٹ ایجنٹس کی ویب سائٹس پر موجود گھروں کی معلومات کا جائزہ لے کر چند ایک کو موقع پر دیکھنے کے لیے وقت کا تعین کیا گیا۔ چار‘ پانچ گھر دیکھنے کے بعد ایک مالک مکان سے معاملات طے پا گئے تو متعلقہ پراپرٹی ڈیلر نے لگ بھگ بیس صفحات پر مبنی کرایہ نامہ مجھے ای میل کر دیا جس کے لیے ایک عدد گارنٹر بھی درکار تھا۔ گارنٹی دینے والے شخص کے لیے لازم تھا کہ اس کی ماہانہ آمدن طے شدہ کرایہ سے کم ازکم تین گنا زیادہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ برطانوی شہری ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے چال چلن کا مالک بھی ہو۔ ان تمام شرائط کی تکمیل کے بعد گھر کی چابیاں ملیں تو اگلہ مرحلہ اس میں فرنیچر اور دیگر ساز و سامان کا بندوبست تھا جس سے مجھے نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں۔ پراپرٹی ایجنٹ نے مجھے گائیڈ کیا کہ یہاں رجسٹرڈ کمپنیاں موجود ہیں جو آپ کو تجربہ کار پلمبر، الیکٹریشن، کارپینٹر اور اسی طرح کے دیگر ہنرمند افراد مہیا کرتی ہیں، چونکہ ہر شخص صرف اپنی سپیشلٹی یعنی مہارت تک کام کرنے کا متحمل ہوتا ہے لہٰذا وہ دوسرے کسی کام کی نہ ہامی بھرتا ہے اور نہ ہی اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ بھی میرے لیے ایک خوشگوار تجربہ تھا کیونکہ پاکستان میں تقریباً ہر دوسرا شخص 'ہر فن مولا‘ ہونے کا دعویدار نظر آتا ہے۔ اپنے کام کے علاوہ اس سے جو مرضی کروالیں‘ ہمہ وقت تیار ملے گا۔ ایک حجام کی مثال ہی لے لیں۔ دورانِ حجامت جس روانی سے وہ حالات ِ حاضرہ پر تبصرہ کرتا ہے اس پر رشک آتا ہے۔ دیگیں پکانے اور ختنے کرنے کے علاوہ وہ فنِ جراحی کی دولت سے بھی مالا مال ہوتا ہے اور بڑے سے بڑا آپریشن ''کامیابی‘‘ سے کر گزرتا ہے بھلے اس دوران کوئی جان ہی سے گزر جائے۔ سونے پر سہاگا یہ کہ اسے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ بس یہی ہے وہ راز کی بات جس کے لیے آپ کو انتظار کی ''زحمت‘‘ اٹھانا پڑی۔ افراد ہوں یا اقوام‘ ممالک ہوں یا معاشرے‘ ایک مضبوط، شفاف اور مربوط نظام سے ہی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں، جگاڑ کے ''فضائل ‘‘ سے ہر گز نہیں۔