ڈرائیونگ لائسنس

برطانیہ سمیت سبھی ترقی یافتہ ممالک میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا جتنا صبر آزما اور مشکل مرحلہ ہے‘ اس کے برعکس پاکستان میں یہ اتنا ہی آسان ہے۔ وطنِ عزیز میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ہی تقریباً آدھی آبادی ٹریکٹر، موٹر سائیکل، کار اور دیگر گاڑیاں چلا رہی ہے اور اسے لائسنس کا تکلف بھی گوارا نہیں۔ کچھ ''صاحبان‘‘ تو اسے اپنے مقام و مرتبہ کی توہین سمجھتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی ٹریفک وارڈن روک کر لائسنس کا مطالبہ کرنے کی جسارت کر بیٹھے تو اسے موقع پر ہی سنگین نتائج کی دھمکیاں ملتی ہیں، گالم گلوچ کی جاتی ہے۔ معاملات نوکری سے معطلی یا برخاستگی تک جا پہنچتے ہیں۔ اس سلسلے میں آئے روز سوشل میڈیا پر وڈیوز دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں جن میں ٹریفک وارڈنز اُن صاحبانِ جاہ و حشمت کے غیظ و غضب کے سامنے بے بسی کی عملی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ سرکاری حیثیت میں بھی کئی مرتبہ ایسے متعدد صاحبان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جو تفاخر سے لبریز کہانیاں ایسے ناز و انداز سے بیان فرماتے تھے کہ جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو‘ جسے اب صرف گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرانا باقی رہ گیا ہو۔ چند ایک ''نیم وی آئی پی‘‘ شخصیات مجھ سے اس لیے بھی ناراض ہو گئیں کہ لائسنس بنوانے کے لیے انہوں نے جب مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے انہیں متعلقہ ٹریفک آفس جانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی جس پر وہ حضرات برا مان گئے اور یہ کہہ کر گفتگو تمام کر دی کہ اگر دفتر جا کر ہی ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ہے تو پھر آپ کی سفارش کا کیا فائدہ؟
المیہ یہ ہے کہ چند ایک نے اپنی ضد پوری کر کے چھوڑی اور بعد میں مجھے ''انتہائی نکما‘‘ افسر بھی قرار دیا۔ کچھ ایک نے تو مشترکہ دوستوں کے ذریعے مجھے یہ پیغام بھی بھیجا کہ انہوں نے کسی دفتر میں جائے بغیر ہی اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اب حالات بدل گئے ہوں اور بائیو میٹرک کی شرط کی وجہ سے سب کو بذاتِ خود حاضر ہونا پڑتا ہو مگر کیا لائسنس کے اجرا کے وقت ڈرائیونگ کی مہارت، خود اعتمادی اور روڈ سیفٹی کے دیگر امور کے متعلق مکمل آگاہی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے؟ یہ امر اپنے اندر کئی سوالات جنم دیتا ہے جن کے جوابات شاید ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں۔ بدقسمتی سے ان اہم امور سے بے اعتنائی، غفلت اور لاپروائی کے نتائج ہمیں آئے روز خوفناک اور جان لیوا ٹریفک حادثات کی صورت میں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں جن میں قیمتی انسانی جانوں کا زیاں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ٹریفک حادثات اور ان کے نتیجے میں زخمی ہونے اور مرنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔
مجھے برطانیہ آئے تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس دوران اپنی ریسرچ کے سلسلے میں بے پناہ مصروفیت کے باعث میں یہاں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کا عمل بروقت شروع نہیں کر سکا۔ البتہ کچھ وقت نکال کر میں نے اس سلسلے میں پہلا مرحلہ عبور کر لیا تھا۔ انٹرنیٹ پر موجود اس حوالے سے معلوماتی وڈیوز اور کچھ متعلقہ ایپس کی مدد سے تیاری کر کے میں تھیوری کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں۔ یہ امتحان خاصا مشکل ہوتا ہے اور اس کے دو حصے ہوتے ہیں؛ پہلے مرحلے میں ملٹی پل چوائس کے سوالات میں درست جواب کی نشاندہی کرنا ہوتی ہے جو برطانیہ کے ٹریفک کے جملہ قوانین، اصول و ضوابط اور روڈ سیفٹی سے متعلق ہوتے ہیں جبکہ اس ٹیسٹ کا دوسرا حصہ عملی ڈرائیونگ پر مبنی وڈیوز پر مشتمل ہوتا ہے جن میں ڈرائیونگ کے دوران پیش آنے والے ممکنہ خطرات کی نشاندہی کر کے درست جوابات دینا ہوتے ہیں۔ ان دونوں امتحانات میں کامیاب ہونا لازم ہے۔ کمپیوٹر پر ہونے والے اس ٹیسٹ کا رزلٹ اسی وقت آپ کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے اور آپ کے ای میل پر بھی اگلے چند لمحات میں نتیجہ موصول ہو جاتا ہے۔ ہر امیدوار اپنے مخصوص اور الگ کیبن میں اپنی مدد آپ کے تحت یہ ٹیسٹ حل کرتا نظر آتا ہے جہاں نقل مارنے یا دیگر کسی بھی طرح کی دو نمبری کے مرتکب امیدوار کو حسبِ ضابطہ سخت سزائوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لہٰذا تمام امیدواران انتہائی شرافت، متانت اور اپنی ذاتی محنت و ذہانت کے بل بوتے پر ہی ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے اس تھیوری ٹیسٹ کو حل کرتے ہیں۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ میں پہلی مرتبہ ہی اس ٹیسٹ میں کامیابی سے ہمکنار ہو گیا، وگرنہ اکثر و بیشتر حضرات و خواتین متعدد مرتبہ اس کٹھن آزمائش سے گزرتے ہیں اور پھر جا کر کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے۔
گزشتہ ماہ میں نے اپنی ریسرچ ڈیزائن کی تکمیل کے بعد یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق پروبیشن ریونیو پینل کے سامنے اس کا کامیابی سے دفاع کیا تو میرا پی ایچ ڈی کا ایک اہم سنگِ میل عبور ہو گیا۔ اب جبکہ تعلیمی مصروفیت میں کچھ وقفہ آیا تو دیگر کاموں کا خیال آیا۔ ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے تھیوری میں کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ روڈ ٹیسٹ کے عملی امتحان پر مبنی ہوتا ہے جس کے لیے برطانوی ڈرائیونگ لائسنسگ اتھارٹی کی طرف سے منتخب کردہ مخصوص اور کہنہ مشق ڈرائیونگ انسٹرکٹرز سے گاڑی چلانے کی عملی تربیت لینا لازم ہے۔ لہٰذا تعلیمی مصروفیات سے تھوڑی سی فراغت پاتے ہی میں نے اپنے ایک کلاس فیلو سے ایک ایسے مستند اور قابل استادسے متعلق معلومات حاصل کیں جس کی شاگردی میں وہ دوست خود بھی تربیت پا کر ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر نے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ ملاوی سے تعلق رکھنے والے اس شاندار اور شفیق انسٹرکٹر سے چھ ہفتوں میں کل آٹھ مرتبہ‘ ایک ایک گھنٹے پر مبنی تربیتی سیشن لے چکا ہوں۔ ڈرائیونگ کی عملی تربیت شروع کرنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ لگ بھگ پچیس سال تک پاکستان کی بے ہنگم ٹریفک میں کامیابی سے ڈرائیونگ کرنے کا تجربہ رکھنے کے باعث دو‘ چار مرتبہ انسٹرکٹر کے سیشن کے بعد ہی میں روڈ ٹیسٹ کے عملی امتحان کے لیے تیار ہو جائوں گا مگر آ ٹھ گھنٹے کی تربیت کے باوجود میں خود کو اس قابل نہیں بنا سکا اور نہ ہی میرا انسٹرکٹر ابھی تک مطمئن ہو سکا ہے۔ ہر مرتبہ میری ڈرائیونگ میں وہ نئی خامیاں دریافت کر لیتا ہے اور روڈ سیفٹی، رائونڈ ابائوٹ پر مستعدی اور محفوظ ڈرائیونگ کے لیے دیے گئے مروجہ عالمی اصول و ضوابط پر میری گرفت ابھی اس قدر پختہ نہیں ہو سکی جو یہاں گاڑی چلانے کے لیے ناگزیر ہے۔ ان تمام تربیتی اسباق کے علاوہ میں نے انٹرنیٹ پر ڈرائیونگ سے متعلقہ درجنوں وڈیوز دیکھی ہیں جن کا بنیادی نکتہ انسانی جان کا تحفظ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے تربیتی سیشن کے دوران انسٹرکٹر صاحب میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہمہ وقت اپنے سامنے کلچ اور بریک کے ذریعے باقاعدہ کنٹرول سنبھالے موجود رہتے ہیں کہ کسی بھی لمحے میری بے توجہی کے سبب خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے۔ اپنے ساتھ بیٹھے اس انسٹرکٹر کا خوف مجھے کم غلطیاں کرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
گزشتہ شام میں اپنا آٹھواں سیشن مکمل کرنے کے بعد بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میں اپنے اس ڈرائیونگ انسٹرکٹر کو اس کی فیس ادا کر کے اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا دیکھ کر اس لیے غلطی نہیں کرتا کہ وہ میری ڈرائیونگ سے دلبرداشتہ ہو کر کہیں مجھے اپنی شاگردی سے فارغ نہ کر دے۔ دوسری طرف خالقِ کائنات نے کراماً کاتبین میرے دونوں شانوں پر مستقل بٹھا رکھے ہیں جو ہمہ وقت میرے ایک ایک لفظ، ہر ایک فعل اور لمحہ بہ لمحہ گزرتی زندگی کا مکمل ریکارڈ مرتب کرتے جا رہے ہیں۔ اگر میں ان دو فرشتوں کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے اُس ڈرائیونگ انسٹرکٹر سے آدھا خوف ہی اپنے دل میں اجاگر کر لوں تو ربِ دو جہاں کی طرف سے دیے گئے واضح احکامات اور اس کے وضع کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں اپنی زندگی کی گاڑی بہتر انداز میں چلا سکتا ہوں۔ جس تندہی اور جانفشانی سے میں یہاں برطانیہ میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہوں‘ اس سے کہیں کم محنت سے یقینا میں خوشنودیِ الٰہی کے طلبگاروں میں شمار ہو سکتا ہوں۔ بس یہی خیال گزشتہ شام سے مجھے بے چین کر رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں