"AYA" (space) message & send to 7575

اب تو باتیں بھی ختم ہوچلیں

کوئی بات رہ گئی ہے کہنے کو؟ہر روز وہی رونا‘ وہی خبریں کہ روپیہ مزید کمزور ہو گیا‘ سونا اتنے فیصد مہنگا ہو گیا‘ بازار میں ڈالر نہیں مل رہے۔ آئی ایم ایف کی چھوٹی سی قسط دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کو نہیں مل رہی۔ قرض کی مے کب سے پی رہے ہیں لیکن اب وہ بھی نہیں مل رہی۔آٹے کی قیمت کہاں پہنچ چکی ہے۔ ہمارے دیہات میں گندم ساڑھے چار ہزار روپے فی من تک پہنچ چکی ہے۔اللہ خیر کرے‘ ہم جا کہاں رہے ہیں‘ ہمیں پہنچا کہا ںدیا گیا ہے؟
ہم جیسے بھی تھک گئے ہیں یہ کہتے کہتے کہ یار الیکشن کراؤ تاکہ کوئی آگے کا راستہ نکلے۔ اگلوں نے الیکشن کرانے نہیں‘ سہمے ہوئے ہیں ڈرے ہوئے ہیں۔نہ کرائیں‘ ہم کیا کرسکتے ہیں؟راستہ اور ہے نہیں‘ اسی لیے پکا راٹھتی ہے کہ آپ کے بس کی بات موجودہ صورتحال کو سنبھالنا نہیں تو الیکشن ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ شاید اُس سے کوئی بہتری نکلے۔عجیب صورتحال میں ملک پھنسا ہوا ہے۔ جن کو بٹھایا گیا ہے اُن سے نہ کچھ ہو رہا ہے نہ اُن کی سمجھ میں کوئی بات ہے۔ اختیار آپ کے ہاتھوں میں اور ناسمجھی کا ٹھیکا بھی آپ ہی نے لیا ہوا ہے۔ عمران خان بھی اب کہنے کو مجبور ہو گئے ہیں کہ الیکشن کہیں نظر نہیں آ رہے۔وہ تو ہمیں بھی نظر نہیں آرہے لیکن تماشا یہ ہے کہ کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔بس بگڑتی ہوئی صورتحال‘اوپر سے دہشت گردی جو پھر سے زور پکڑ رہی ہے۔ایک عدد بار پہلے عرض ہو چکی ہے‘ دہرائے دیتے ہیں کہ صرف ایک چیز ہے جس کی سرکاری قیمت نہیں بڑھی اور وہ ہیں مشروبات۔مزید کیا کہیں!
لند ن سے جو مسیحا بھیجے گئے جن کانام اسحاق ڈار ہے کچھ کرنے کی صلاحیت تو نہیں رکھتے لیکن بولنے سے باز نہیں آتے۔کل‘ پرسوں کسی تقریب میں فرما رہے تھے کہ ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ آئی ایم ایف کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔اب چہرہ مبارک ٹی وی سکرین پر نظر آتا ہے تو جی چاہتا ہے سکرین توڑ دی جائے۔لیکن جیسے قوم بہت کچھ برداشت کررہی ہے ان جیسے مسیحائوں کو بھی برداشت کرنا پڑتاہے۔کچھ سال پہلے یونان کی معاشی صورتحال بگڑی تو یورپی یونین اُس کی مدد کو آئی اور یونان کو سو سے زائد بلین یورو کی امداد دی گئی۔ملاحظہ ہو کہ سو سے زائد بلین یورو اور یہاں ہم ایک بلین ڈالرکو ترس رہے ہیں۔کل ہی اخبار میں خبر تھی کہ سعودی مہربانوں سے تین بلین ڈالر قرضے کی درخواست کی ہوئی ہے لیکن ابھی تک اُس پر فیصلہ نہیں ہوا۔
بہت عرصہ پہلے ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ یہاں کسی چیز نے نہیں سدھرنا لہٰذا رونا دھونا بیکار ہے۔جن کا کچھ نہ کچھ گزارہ ہو رہا ہے اُسی پر شاد رہیں اور اپنے محدود وسائل کے بیچ میں جو آسودگی کا سامان پیدا ہو سکتا ہے اُسی کی کوشش کریں۔جنہوں نے موجودہ صورتحال بنائی‘ جو اس کے موجد ہیں یعنی جنہوں نے رجیم تبدیل آپریشن اپریل میں کیا اُن کو کتنا کوسا جائے ؟کوس کوس کر بھی تنگ آ چکے ہیں۔محسنِ قوم‘ محسنِ ملت جنرل قمر جاوید باجوہ‘ خدا اُن کی عمردراز کرے‘ کا کتنی بار ذکر ہو سکتا ہے؟ وہ اور جو اُن کے دو تین ساتھی تھے اُنہوں نے جو کرنا تھا‘ کر دیا۔ ہماری تاریخ تباہ کاریوں سے بھری پڑی ہے لیکن یہ جو آٹھ ماہ کی تباہی ہے یہ اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ جو کچھ اُن کی محدود سمجھ میں آیا وہ کر گئے۔اُن کے کرنے سے جو نتائج پیدا ہوئے‘ قوم بھگت رہی ہے اور ایسے بھگت رہی ہے کہ اب تو چیخیں نکلنا بھی بند ہو گئی ہیں۔سبحان اللہ! اپنی عاقبت تو سنوار گئے‘ وہ تو ان کے ٹیکس ریٹرنوں سے پتا چلتا ہے‘ لیکن قوم کی جو درگت بنی اُس منظر کو ہم دیکھ رہے ہیں۔
چھوڑیں دل جلانے کی باتیں‘ ان سے کیا حاصل۔آج 2022ء کی آخری شام ہو گی۔ ظاہر ہے ہر کوئی تو نہیں منا سکے گا لیکن اس حوالے سے جو صاحبِ استطاعت کہلائے جاسکتے ہیں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں۔ صبح سے ہی کچھ تیاری باندھ لیں اس آنے والی شام کی۔ دیکھ لیا جائے شام کس کے ساتھ گزارنی ہے‘ محفل سجی تو کس انداز میں سجنی ہے۔کھانے پینے کا تو کچھ ہو ہی جاتا ہے لیکن ساتھ میں بھی کچھ ہو جائے تو شام کا سماں تب ہی بندھتا ہے۔جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے ہفتہ وار مزدوری کی خاطر لاہور آئے ہوئے ہیں۔ کسی کونے میں بیٹھ جائیں گے اور سوچیں گے کہ زندگی کا ایک اور سال گزر گیا۔ گزرے ہوئے سال میں کون سی توپیں چلائیں کہ آنے والے سال کے بارے میں امید رکھیں کہ فلاں توپ چلائیں گے۔یہ سال بس رونے دھونے میں گزرگیا‘ نیا سال قوم کو مبارک ہو‘ وہ بھی ایسے ہی گزر جائے گا۔ امید پہ لوگ جیتے ہیں لیکن کیا شاندار کارنامہ ہمارا ہے کہ یہاں امید بھی جان ہار چکی ہے۔اب سمجھ آتی ہے کہ سوچنے والے ذہنوں اور احساس رکھنے والے دلوں پر کیا بیتی ہوگی جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہو رہی تھی۔ کیا سوچتے ہوں گے وہ لوگ جب سلطنتِ مغلیہ لال قلعے تک محدود ہوکر رہ گئی تھی؟ چلیں سب کچھ ہاتھ سے جا رہا تھا لیکن لال قلعے میں مشاعرے تو ہو جایا کرتے تھے‘ مرزا غالبؔ اور استادذوقؔ کی آپس میں کچھ نوک جھونک تو ہو جاتی تھی۔ یہاں نہ مشاعرے نہ شعروشاعری۔بس ایک بانجھ پن‘ جس میں کچھ نئی چیز تخلیق نہیں ہوتی‘ کوئی نیا احساس دل میں نہیں اٹھتا‘ ذہن مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں۔سلطنتِ مغلیہ تو غیروں کے سامنے بے بس ہو گئی تھی‘ انگریز اپنا تسلط بڑھا رہے تھے۔ ہمارا اعزاز ہے کہ ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے غیروں کا کرنا نہیں‘ یہ ہمارا اپنا کارنامہ ہے۔اپنی تباہی اور کسمپرسی کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔لیکن ایک چیز کا اقرار کرنا پڑے گا کہ جو ہمارے مہربان ہیں‘ اُن کی اکڑ میں کوئی فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اس تباہی میں بھی بولتے ایسے ہیں جیسے ہرسوال کا جواب اُن کے پاس ہے۔اس دیدہ دلیری کی داد دینی پڑتی ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ خوش وقتی کی جگہیں بھی ہم نے نہیں چھوڑیں۔ 1977ء کا منحوس سال ایسا تھا کہ جو جگہیں مختص ہو اکرتی تھیں غم بھلانے کیلئے اُن کے دروازوں پر تالے لگا دیے گئے اور ایسے تالے کہ اب تک کوئی کنجی ایجاد نہیں ہوسکی اُن کو کھولنے کیلئے۔پرانے وقت ہوتے اور نئے سال کی شام آن پڑتی تو کسی غمگسار جگہ چلے جاتے۔اکیلے میں کیا غم مٹانا۔نہ کوئی دیکھنے والا‘ نہ ہم کسی کو دیکھ سکیں۔زیادہ سے زیادہ کوئی گانا لگا دیں گے۔ کسی دوست کو فون کر دیں گے‘ تھوڑا مذاق ہو جائے گالیکن پھر خیال آتا ہے کہ اتنی اداسی میں مذاق بھی کیا۔بہرحال اتنی افسردگی بھی اچھی نہیں۔ ڈپریشن ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔اوپر سے ہماری پارسائی‘ ہمارے نیک ہونے کے دعوے۔ بیوقوفی کی بھی انتہا ہوتی ہے لیکن لگتا ہے کہ ہم نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ تمام ایسی حدوں کو چھلانگیں مارکر عبور کرنا ہے۔
البتہ کچھ قومی کارنامے ہیں جن کا اعتراف ضروری ہے۔قوم کو شادی ہال مبارک ہوں‘ دنیا کے کسی اور ملک میں اتنے شادی ہال نہ ہوں گے۔ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار زندہ باد۔ شادی ہال اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں‘ انہی پر مشتمل قوم کا اثاثہ رہ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں