انگریزی کا ایک غیر سیاسی محاورہ ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ''چور ہمیشہ چوری کے مال کی تقسیم پر ایک دوسرے سے لڑ جاتے ہیں‘‘۔ ان دنوں پی ڈی ایم کی حکومت کے اندر پانچ‘ چھ لڑائیاں چل رہی ہیں۔ یہ تقسیمِ مالِ غنیمت کی لڑائیاں ہیں۔ یہ مال ایک قسم کا نہیں بلکہ کئی قسم کا ہے۔ آپ ان لڑائیوں کو قریبی جنگیں کہہ لیں۔ آپ درست سمجھے‘ صلیبی نہیں‘ قریبی جنگیں۔ پہلی جنگ آزادکشمیر کے انتخابی محاذ پر لڑی گئی ہے جس کے ایک فریق کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہ ملی‘ صرف انتخابی نشان ملا۔ چھاپے‘ گرفتاریاں اور انتظامیہ اس قدر متحرک رہی کہ اس پارٹی کو حقِ اجتماع کی کوئی جگہ ہی نہ آلاٹ ہو سکی۔ چنانچہ مقابلہ پی ڈی ایم بمقابلہ پی ڈی ایم رہا۔ باغ آزاد کشمیر کے ضمنی الیکشن جیتنے والے امیدوار کے ابّا نے اپنی انتخابی کامیابی کو منّے کے ابّا کے نام کر دیا۔
ان میں سے دوسری لڑائی عہدوں کی بندر بانٹ پر ہے جن میں سے پہلا عہدہ NADRA (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کی چیئرمین شپ کا ہے۔ (ن) لیگ کو یہ عہدہ خالی کروانا تھا جس پر میرے قبیلے کے ایک مردِ جری پروفیسر فتح محمد ملک کا بیٹا طارق ملک میرٹ کے ذریعے Overseas سے لایا گیا تھا۔ مجھے اس لڑائی میں اپنے ایک کالج جونیئر سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل مزمل کی کہانی کا ری پلے نظر آرہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل مزمل نے واپڈا کو جدید بنیادوں پر جس قدر متحرک کیا‘ اس کا ثبوت ان کے دور میں ہونے والے کئی عالمی معاہدے اور MOU اور بہت سارے پاور پراجیکٹس اور نئے ڈیموں کی تعمیر بھی شامل ہے۔ انہیں ہٹانے کے لیے الف لیلہ کی جھوٹی کہانی گھڑ کر اس عہدے کو سیاسی بنا دیا گیا۔ طارق ملک کے معاملے میں اسی ایکشن کا ری پلے کرنے کی کوشش ہور ہی ہے۔ تیسر ے نمبر پر مختلف محکموں کی بھرتیاں‘ قومی اسمبلی کی بھرتیاں‘ سینیٹ کی بھرتیاں آتی ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت کے پاس 90دن سے بھی کم کا عرصۂ اقتدار رہ گیا ہے۔ نئی کنگز پارٹی بنانے کے لیے کہیں سے اینٹ کہیں کا روڑا اٹھایا گیا ہے۔ اس لیے پی ڈی ایم حکومت کی ایکسٹینشن کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ دیکھ لیجئے گا‘ 90دن کے بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے انویسٹی گیٹو رپورٹرز بھرتیوں میں ''عجب کرپشن کی غضب کہانیاں‘‘ سیریز نکال لائیں گے۔
چند روز پہلے استحکامِ پاکستان پارٹی لانچ کروائی گئی۔ سیاسی جماعتوں کی لانچنگ کرنے کی روایت ہمیشہ سے یہ رہی کہ جیسا تیسا جلسہ کرکے تاثر دیا جاتا کہ نئی سیاسی جماعت عوام کے لیے بنائی گئی مگر IPPمیں خاص قسم کے خواص کو جمع کیا گیا۔ جن کے پاس نہ ایجنڈا‘ نہ منشور تھا۔ نہ کوئی بیانیہ‘ نہ نعرہ‘ نہ ہی پارٹی کا فائونڈنگ ڈاکیومنٹ۔ اکثر چہرے مدقوق اور مجبور نظر آئے۔ جن کوکیمروں نے شوٹ سے میم بنا ڈالا۔ اگر سال 2013ء سے مارچ 2022ء تک کے میڈیا آرکائیوز چیک کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ پی ڈی ایم والے IPPکے بڑے رہنمائوں کو ATMکہہ کر پکارتے آئے ہیں۔
ویسے اطلاعاً عرض ہے۔ پاکستان میں IPPپہلے سے ہی بہت مشہور اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب ہے انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز۔ ہم اس بحث میں نہیں جانا چاہتے کہ IPP'sنے بجلی کے نرخوں سے اور بجلی استعمال کرنے والوں کے الیکٹرک بلوں سے کیا سلوک کیا؟ مگر اتنا تو کہنا پڑے گا کہ نئی IPP پاور کاری ڈور کی چھتر چھایا میں پاور پالیٹکس کے تالاب میں کودی ہے۔
پاور پراجیکٹ سے یاد آیا‘ ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو قریب ترین پاور پراجیکٹ جنرل مشرف والا تھا۔ جس کے دوران پی ڈی ایم حکومت کی دونوں بڑی پارٹیوں میں سے IPP'sبرآمد کیے گئے۔پی پی پی میں سے جو پاور پراجیکٹ نکلا اس کا نام محبِ وطن یعنی Patriotرکھا گیا۔ چند لوگوں کو چند روزہ وزارتیں تو ملیں لیکن سیاسی طور پہ اُن کا کِریا کرم ہو گیا۔ نواز لیگ کی (ن) میں سے قاف نکالی گئی۔ اسے اقتدار کی ستم ظریفی کہیے کہ وہ دونوں پارٹیاں جن کے اندر سے پاور پراجیکٹ برآمد کیے گئے تھے‘ آجIPPکی تاسیس پر خوشی سے بغلیں بجانے میں مصروف ہیں۔
ان دنوں ایک اور دلچسپ دور کی تاریخ بھی دہرائی جا رہی ہے۔ ایک ایسا دور جس کے ظالم اور مظلوم دونوں آلو پیاز کی طرح اب ایک دوسرے کے اٹوٹ انگ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں محمود ایاز کا نام لینا چاہتا تھا مگر کہاں وہ غزنونی والے محمود ایاز اور کہاں یہ پی ڈی ایم والے آلو پیاز؟ ان کا تذکرہ یوں ذہن میں آیا کہ ضیاء دور میں سیاسی نومولود نواز شریف کے جو اتالیق و مشیر پی پی پی کو پاکستان سے اُٹھا کر بحیرۂ عرب میں پھینکنے کے دعویدار تھے‘ وہ اب تحریک انصاف کو اپنے ذہنی افلاس کے بحیرۂ مردار میں غرق کرنے کے لیے نعرہ زَن ہیں۔پی ڈی ایم اور اس کی لیڈرشپ کے بقول ATM‘ ان دونوں کا مستقبل ایک جیسا ہے۔ اس یکسانیت پر انگریزی کا ایک دیسی محاورہ بڑا فِٹ آتا ہے۔
Natha Singh and Prem Singh
One and the same thing
اس لیے دونوں کا مستقبل ووٹروں کے ذہن میں روزِ روشن کی طرح نہ صرف عیاں ہے بلکہ یکساں بھی ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی پبلک میں جانے کا رِسک نہیں لے سکتا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی ٹی وی سکرین پر قاسم کے ابّا کا نام نہیں لے سکتا۔ پاکستان میں پی ڈی ایم نے جمہوریت‘ شہری آزادیوں اور آئینی حقوق کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں انہوں نے بڑی محنت کے بعد روپے کو پہنچایا ہے‘ مہنگائی کو پہنچایا ہے اور انڈسٹری کو بھی پہنچادیا ہے۔ ظاہر ہے ایسی منزل پر پہنچنے کے بعد آگے کا سفر ختم ہو جاتا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کے مشترکہ خیالات یہ ہیں کہ تحریک انصاف ختم ہو گئی ہے۔ قاسم کے ابّا سے زیادہ حمزہ کا ابّا مشہور ہے مگر یہیں سے اگلی خبر شروع ہوتی ہے۔
ان دنوں اسلام آباد میں پاک سیکرٹریٹ کی دو وزاتیں سب سے زیادہ مشاورتی میٹنگ کر رہی ہیں۔ ایک وزاتِ قانون اور دوسری پارلیمانی امور کی وزارت۔ دونوں کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ وقت سے پہلے اسمبلی توڑیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ الیکشن کس طرح سے مارچ 2024ء تک کھینچے جا سکتے ہیں؟ پاکستان کو صاف ستھری تازہ لانڈری شدہ قیادت اور عوام کو تاریخی ریلیف دینے کے لیے اسے کہتے ہیں گریٹر لندن پلان۔ جہاں تک آئین کا تعلق ہے تو وہ چند شقیں پھاڑ کر پھینکنے میں زور ہی کتنا لگتا ہے۔ مومن خان مومن نے بہت پہلے کہہ چھوڑا تھا؛
تھی وصل میں بھی فکرِ جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب