نئی ٹیکنالوجی آئی تو محلے میں لاؤڈ سپیکر آگئے۔ لاؤڈ سپیکر ترقی کرتے کرتے آئس کریم کی سائیکلوں‘ سبزی کے ٹھیلوں اورچندہ مانگنے والی سوزوکیوں پہ چڑھ بیٹھا۔ کوئی دور تھا جب آباد گلی میں ننگے سر گھومنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ اب ایل سی ڈی سکرینیں آگئی ہیں‘ جن کے ذریعے سُندر لال چڈا کے چڈے سے بھی مختصر چڈی پہنے ہوئے ہم سے زیادہ سمارٹ‘ ہینڈسم اور مسل دکھانے والا ریسلر ہمارے ڈرائنگ روموں سے ہوتا ہوا ہمارے بیڈ رومز میں گھُس چکا ہے۔ مگر اس طرح کی ساری ایجادات سے بڑی ایجاد ٹشو پیپر کی ہے جسے استعمال کر کے صاف جگہ پہ نہیں بلکہ گندی جگہ پہ پھینکا جاتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ٹشو پیپر کو استعمال کرنے والے نے صاف جگہ استعمال کیا یا کسی گندے مقامِ ممنوع پر اسے مسل دیا۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ ٹشو پیپر اور مفاد پرستانہ سیاست کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ خاص طور پہ رجیم چینج کے بعد ملک میں بننے والی امپورٹڈ حکومت کے ہولناک دورِ اقتدار میں ٹشو پیپرز پہلے سے زیادہ مقبول بھی اور مہنگے بھی ہوئے۔ بالکل ویسے ہی جس طرح گزرے منگل اور بدھ کے روز دنیا بھر کے سارے برانڈز کی خام تیل قیمت گر گئی ۔ مگر منگل‘ بدھ کی درمیانی رات کو غیر منتخب نگرانی برانڈ رجیم میں پٹرول اور ڈیزل 290روپے فی لٹر کی قیمت کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ اگر اہلِ وطن سے محبت کا یہ عالم رہا تو 90روزہ الیکشن سے پہلے پہلے ڈیزل شریف اور پٹرول بی بی 500کو پہنچ جائیں گے۔ جن ڈسپوز ایبل ٹشو پیپرز کا ذکر ہو رہا ہے‘ وہ کئی رنگوں کے تھے ۔ اُن کا برانڈ بھی اپنا اپنا تھا مگر اب وہ استعمال شدہ ٹشو پیپر کسی کے کام کے نہیں رہے۔
اقتدار سے رخصتی کی پہلی تین راتوں کے بعد ہی جنم جلی دلہن کی طرح پی ڈی ایم کی مفاد پرستانہ پارٹیوں والے الیکشن بروقت کروانے کی چیخیں مارنا شروع ہو گئے ہیں۔ ذرا ٹھہرو‘ تھوڑا صبر کرو‘ سانس لو بلکہ گہری سانس لو جسے انگریزی میں Deep breathکہتے ہیں۔ کیا تم نے صوبہ پنجاب کا الیکشن بروقت کروانے کی حمایت کی تھی؟ ساتھ یہ بھی بتاتے جائو کہ خیبر پختونخوا صوبے میں کیا بروقت الیکشن ہوگئے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان دونوں صوبوں میں نگران حکومتیں بغیر کسی آئینی جواز کے دھونس اور دھاندلی کی طاقت پر چلتی ہی جا رہی ہیں۔ شہباز شریف نے 12سال مسلسل اقتدار میں گزار ے۔ سندھ حکومت نے 15سال مسلسل حکومت کرنے کے بعد پہلی رات ہی مریم اورنگزیب کے بیان کو سچ ثابت کر دیا۔ یہی کہ روؤ‘ پیٹو‘ چیخو بلکہ چیختے ہی چلے جائو۔
ان دنوں اسلام آباد کے ٹاپ کمرشل سنٹرز میں پی ڈی ایم کی تین بڑی جماعتوں (ن) لیگ‘ پی پی‘ جے یو آئی ایف کے نگران وزیراعظم والے امیدوار درزیوں سے لڑتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ تکرار اس بات پر جاری ہے کہ شیروانی بے برکتی تھی‘ مجھے فِٹ نہیں آرہی‘ تم نے کپڑا بھی خراب کر دیا‘ اب یہ واپس لو اور میرے پیسے موڑ دو۔ ٹیلر ماسٹر صاحب کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ ٹشو اور پہنی ہوئی شیروانی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اس لیے خریدا ہوا مال جانے اور خریدار کی قسمت جانے۔ استعمال شدہ ٹشو پیپر کے فوائد اور سیاست کچھ گَڈمَڈ ہو رہی ہے۔ اس لیے آئیے ذرا اگلے منظر کی طرف چلتے ہیں۔ جہاں ایک ہزار کے قریب خواتین و حضرات کو پرائیڈ آف پرفارمنس‘ ستارۂ امتیاز اور پتہ نہیں کس کس ظاہر و خفیہ خدمات کے عوض قومی اعزازات کے لنڈے بازار سے نوازا جا رہا ہے۔ کبھی یہ اعزار لینے والے صاحبِ اعزاز ہوا کرتے تھے۔ اب یہ اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ لینے کے لیے ضمیر خاموشی‘ اندھیرے فروشی اور خورو نوشی سکہ رائج الوقت بن گیا ہے۔ اس پر بیچارہ پرائیڈ آف پرفارمنس خود بھی شرمندہ شرمندہ ہے۔ صرف شرمندہ نہیں بلکہ حیران و پریشان ہے کہ وہ جسے ملنے جارہا ہے‘ اس کی کون سی پرفارمنس ایسی تھی جو اس قوم اور اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ کیلئے پرائیڈ کا باعث ہو۔
پرائیڈ آف پرفارمنس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انتخابی پرفارمنس یاد آگئی۔ جو پاکستان کے الیکشن کی انتخابی فلائٹ کا بلیک باکس ثابت ہوئی۔ یہ آدھی رات کو کھلنے والی عدالت ہے۔ جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک فاضل بنچ الیکشن کمیشن سے یہ جاننا چاہ رہا ہے کہ وہ کتنے عرصے میں الیکشن کروانے کی تیاری رکھتا ہے۔ یہ اُس دن کا واقعہ ہے جس دن میرے سمیت سپریم کورٹ کے بنچ نمبر ایک میں سینئر ASCکو داخل ہونے کے لیے پہلی بار اندر سے بند دروازہ ملا۔ تقریباً 15‘ 20منٹ کے صبر آزما انتظار کے بعد جب دروازہ کھولا جانے لگا تو سب سے پہلے اہلکاروں نے میرا نام بلایا۔ میں نے پیچھے کھڑے سینئر وکلاء کے نام لیے کہ یہ بھی اندر بلائیں‘ اس طرح ہم کمرۂ عدالت میں پہنچے۔ ابھی بنچ اسیمبل نہیں ہوا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان وکلاء کے پیچھے وزیٹرز کی کرسیوں کی سب سے اگلی صف میں بیٹھا ہوا وکیل دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔
سب کو یاد ہے یہ اُسی دن کی بات ہے جب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ ہم چار ماہ کے عرصے میں الیکشن کی تیاری مکمل کرکے فوری الیکشن کروا سکتے ہیں۔ آج چار ماہ کا وہ عرصہ چار مرتبہ گزر چکا ہے۔ اس دوران امپورٹڈ حکومت گئی‘ قومی اسمبلی گئی۔ اسلام آباد کے ایک رپورٹر نے 48گھنٹے پہلے الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ الیکشن کب ہوں گے؟ جس کا جواب صُمٌ بُکمٌ والی خاموشی سے دیا گیا۔ 24کروڑ 10لاکھ لوگوں کے خرچ پر چلنے والا ادارہ ان کروڑوں لوگوں کو بروقت الیکشن دینے سے انکاری ہے۔ اگر نہیں تو آج کا وکالت نامہ پڑھ کر الیکشن کمیشن انتخابی تاریخ کا اعلان کرے۔ یہ راکٹ سائنس نہیں کہ اُنہیں ٹیوٹرکی ضرورت ہے۔ آئین کی کتاب کھولیں۔ 90دن میں الیکشن کروانا بڑی سادا انگریزی میں لکھا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کے برابر تنخواہ‘ سہولتیں‘ مراعات اور گاڑیاں رکھنے والے حضرات اتنی سی جراتِ اظہار تو کریں۔ جس کی صدا شورش کاشمیری نے دورِ آمریت میں یوں بلند کی تھی۔
ترس گئے ہیں نوا ہائے خوشنما کے لیے
پُکار وادیٔ خاموش سے! خدا کے لیے
ٹشو پیپر‘ ٹشو پیپر ہوتا ہے ۔ چاہے امپورٹڈ ہو یا لوکل‘ سادا ہو یا رنگین‘ استعمال کرنے کے بعد اسے کوئی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔