اٹک جیل میں بند قیدی نمبر804کس قدر قصور وار ہے اُس کا اندازہ لگانے کے لیے اٹک جانا ضروری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شائد ہی کوئی دوسر ا قیدی ان حالات میں اور ایسے سلوک کے ساتھ پورے قدسے کھڑا ہے۔ان دنوں سوشل میڈیا پر حضرت یوسف علیہ السلام کے قید خانے کے وزٹ پر مبنی بہت سارے وی لاگ آئے۔ عزیزِ مصر کی بیوی کی جھوٹی اور بے ہودہ شکایت پر‘مردانہ وجاہت اورحیا کے پیکر حضرت یوسف علیہ السلام کوجرمِ بے گناہی میں گرفتار کر لیا گیا۔قاہرہ کی آبادی سے ہٹ کر ایک گرم اور گرد آلود ویرانے میں واقع جیل میں حضرت یوسف علیہ سلام کو لے جایا گیا۔ اس جیل کو ایک بڑے اہرامِ کے نیچیِ زمین کھود کر بنایا گیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ بادشاہوں کا چھپا ہوا قبرستان تھا۔ زیرِ زمین تیسرے فلور پرقبروں کے سامنے ایک چھوٹا سا کمرا ہے۔ جس کویوسف علیہ السلام کے بندی خانے کے طورپر استعمال کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک جھوٹے اور بے ہودہ الزام میں اٹک کے قید خانے میں بند ہوئے تین ہفتے گُزر گئے۔تب کہیں جا کر مجھے قیدی نمبر804کو ملنے کی اجازت دی گئی۔وہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ کے تحریری آرڈر کے بعد۔ میرے لاء آفس سٹاف نے ہائی کورٹ کا آرڈراٹک جیل کے حکام کو پہنچایا۔واٹس ایپ پرڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کو بھی۔ہائی کورٹ نے ملاقات کا ٹائم1تا3بجے فکس کیا تھا۔میں نے حسن ابدال سے موٹروے چھوڑی اور گوگل میپ کی رہنمائی میں جی ٹی روڈ کے اُس راستے پر چڑھ گیا جو کیمبلپور روڈ کہلاتی ہے۔ اٹک شہر اس کے غربی جانب آباد ہے۔سال1961ء میں پنڈی تحصیل کے جس حصے کو کاٹ کرہمارے نئے دارالخلافہ اسلام آباد کا نام ملا‘وہ اسی کیمبلپور کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ پھرکیمبلپور کے ساتھ وہی ہوا جو لائلپور کے ساتھ ہوا تھا۔کیمبلپور اٹک ہوگیا اور لائلپور فیصل آباد۔
دوسری جانب جو ں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے D.Bنے قیدی نمبر 804سے ملاقات کی اجازت دی‘ اٹک سے مختلف ٹی وی چینلز اور پریس کلب کے نمائندئوں کے فون آنا شروع ہو گئے کہ آپ کب اٹک پہنچ رہے ہیں؟ اٹک کے درجن بھر بیرونی دیہات سے گزرنے کے بعد ایک چھوٹا سا بازار نظر آیا جس کے بائیں طرف ایک دکاندار نے پاکستان تحریک انصاف کا بڑے سائز کا پرچم لہرا رکھا تھا‘جہاں کچھ لوگ ہماری گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ ہم آہستہ ہوئے‘ اُنہوں نے پُرجوش انداز میں وکٹری کا نشان بنایا اور دوموٹر سائیکل‘ جن پہ پُرعزم نوجوان بیٹھے تھے‘ گاڑیوں کے آگے لگ گئے۔
اٹک جیل سال 1905ء میں ریت کے ٹیلوں کے درمیان بہت بڑے ایریاپر ہماری زمین پہ قابض غاصب فرنگی نے تعمیر کی تھی‘جہاں لمبی غلامی سے حقیقی آزادی مانگنے والے وطن کے بیٹوں کو قیدِ تنہائی میں رکھا جاتا۔جیل کے تقریباًایک کلومیٹرباہراٹک کے صحافیوں کا گروپ کھڑاپایا۔ صحافیوں سے چند سو گز آگے پولیس اور سفید پوشوں کا ایک بے ہنگم ناکہ لگا تھاجس کو دیکھ کر کسی چوکی کا گمان گزرا۔یہاں ہمیں روک دیا گیا۔ پھر ''ابھی آپ کو اندربھجواتے ہیں‘‘والا صبر آزما مرحلہ شروع ہوا۔اس دوران پہلے SHOآیا‘ پھر DSP‘پھر گاڑیاں‘ موٹر سائیکل اور ڈالے آنا شروع ہوگئے۔ تقریباً50 منٹ کے بعد بتایا گیا کہ مجھے پولیس کی گاڑی میں بیٹھ کر جیل کے اندر جانا ہوگا۔ میرے ساتھ نہ کوئی اہلکار جائے گا‘ نہ منشی‘ نہ سکیورٹی گارڈ اور نہ ہی ڈرائیور۔ لڑکوں نے دس پندرہ منٹ مذاکرات کئے جس کے بعد مجھے ڈرائیور سمیت قید ی نمبر 804کو ملنے کے لیے اٹک جیل کے گیٹ نمبر دوپر پہنچایا گیا۔گیٹ نمبر دوتک پہنچنے سے پہلے بھول بھلیوں سے گزر کر دو عدد گیٹ اور بھی کراس کروائے گئے۔تیسرے پر اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ جیل اور سٹاف نے مجھے ایک چھوٹے کمرے میں جا بٹھایا جو زیادہ سے زیادہ 10فٹ چوڑا اور 12فٹ لمبا تھا۔ درمیان میں میز رکھی تھیں جس کے دو طرف آمنے سامنے فاصلے پر دو کرسیاں تھیں۔میں نے جیل سٹاف سے پوچھا:قیدی نمبر804کون سے پہرہ نمبر میں بند ہیں(پہرہ جیل کی زبان میں بلا ک کو کہا جاتا ہے)۔بتایا گیا‘قیدی نمبر804نئے بلاک میں ہیں جو نیا‘نیا تعمیر ہوا ہے۔ میرا اگلا سوال تھااس کے احاطے میں کتنے سیل ہیں؟جواب ملا‘ جی صرف ایک سیل ہے۔یہ سیل بھی نیا بنا ہے اور قیدی نمبر804اس سیل کے پہلے قیدی ہیں۔ اس دوران میں زمانہ طالب علمی 1974ء سے 1997ء کے زمانۂ وکالت تک اپنی ''جیل یاترا‘‘کی یادداشتیں تازہ کر کے فرینڈلی ماحول میں ٹھہرے سوال پوچھتا چلا گیا۔ میرا اگلا سوال تھا‘ بلاک نمبرتین کے احاطے میں کوئی مشقتی موجود ہے؟(جیل کے اندر مشقتی کا لفظ طویل بامشقت قید کاٹنے والے قیدی کے لیے استعمال ہوتا ہے جو بہتر کلاس یعنی Aکلا س اور Bکلاس قیدیوں کے ساتھ اُسی احاطے میں بند کئے جاتے ہیں تا کہ چھوٹی موٹی ضروریات میں قیدی اور جیل حکام کے درمیان رابطہ رہے)۔جواب تھا‘جی نہیں۔قیدی نمبر 804جب سے اس بلاک نمبرتین میں آئے ہیں‘ وہ اکیلے بند ہیں۔
پھر یکایک عملے میں ہل چل سی مچی‘ مجھے بتایا گیا عمران خان آپ سے ملنے کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ یہ سن کر میں کرسی سے اٹھا اور میرے سامنے عزم اور حوصلے کی چٹان آگئی۔ ہم ملنے کے لیے آگے بڑھے تو ڈپٹی نے کہا آپ ہاتھ نہیں ملا سکتے۔ ہم نے کھڑے کھڑے علیک سلیک شروع کی اور مجھ سے قیدی نمبر804نے پوچھا کیا جیل مینوئل میں ہاتھ ملانے پر پابندی ہے؟میں نے نظریں ڈپٹی کے چہرے پر گاڑیں اور کہا: بالکل کوئی پابندی نہیں۔عمران خان نے قہقہہ لگایا اور بولے اسے پتہ نہیں بابر‘ہم ویسے بھی ہاتھ نہیں ملاتے‘ ہم گلے ملتے ہیں اور ہم بھرپور طریقے سے گلے ملے۔ میرے سامنے عمران خان قیدی نمبر 804کی حیثیت سے بیٹھے تھے۔شتابی لہجہ‘عقابی آنکھیں‘گلابی چہرے پر ہلکی خشخشی داڑھی جس کا کوئی بال سفید نہیں تھا۔ورزش والے جاگرز‘ ٹریک سوٹ پہنے قیدی نمبر 804سے ملاقات یوں شروع ہوئی۔
شکر ہے بابر!لمبے عرصے بعد فرصت ملی جس میں بڑی اچھی کتابیں پڑھ رہا ہوں۔ قرآن پاک انگریزی ترجمے کے ساتھ تقریباًمکمل ہو گیا ہے۔ پھرکچھ ذاتی اور سیاسی سوال و جواب چل پڑے۔قیدی نمبر 804 نے کہا: میری طرف سے جاکر لوگوں کو بتانا‘ میں مر سکتا ہوں لیکن 25کروڑ لوگوں کی حقیقی آزادی سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ لوگوں کو یہ بھی بتانا کہ حقیقی آزادی آئینی جمہوریت کے بغیر نہیں مل سکتی۔ آئین کے سب نیچے ہیں۔ رُول آف لاء کے بغیرترقی خواب ہے‘ سراب ہے بلکہ دھوکہ ہے۔قیدی نمبر804سے مل کر باہر نکلا تو نواز شریف کی طرح نہ کوئی ایمبو لینس کھڑی تھی‘ نہ گھر سے کھانوں کے دیگچے آتے دیکھے۔ ڈھلتے سورج میں نہ عمران خان کی عمر ڈھلتی نظر آئی نہ ہی استقامت۔
غروب آفتاب کو دائیں ہاتھ چھوڑ کر موٹروے سے گولڑہ کی طرف مڑے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی قید پھر یاد آگئی۔ آپ کو قید تنہائی میں ڈالا گیا۔ جب رہائی ملی تو سیدھے عزیز مصر کی کرسی تک جا پہنچے۔اٹک کے صحافیوں نے پوچھا تھاقیدی نمبر804کے پاس کوئی سہولت ہے؟ جواب آیا :اس نام کی کوئی چڑیا بلاک نمبر3میں پَر نہیں مار سکتی۔گولڑہ موڑ پہ پیر نصیر الدین نصیر کے الفاظ ذہن و قلب میں گونجے ؎
خونِ حسینؓ کی قسم یہی ہے ارضِ کربلا
لاکھوں یزید ہیں یہاں‘ کلمۂ حق اٹھا کے دیکھ