روٹین بدل گئی۔ پی ڈی ایم تقسیمِ اقتدار پہ ایک دوسرے کے گریبان پہ لپک رہی ہے۔ وزیراعظم کے عہدے کے لیے جو شیروانیاں سلوائی گئی تھیں‘ وہ گاڑی کی ڈگی میں سڑ رہی ہیں۔ جس خوبی سے سندھ کی حکمران جماعت استعمال ہوئی اس کی دادنہ دینا زیادتی ہو گی۔ لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹنا بھول کر شہید بینظیر بھٹو کو لقب دیے گئے‘ بے توقیر کرنے کے لیے جہازوں سے تصویریں پھینکی گئیں۔ میں نواز شریف کے دور میں کراچی‘ اسلام آباد اور لاہور میں بی بی شہید کا وکیل رہا۔ اس لیے مجھ جتنا اور کس کو پتا ہو گا۔ دیسی کرسی اور بدیسی دوروں کے شوق میں پچھلا سب کچھ بھلا کر آلِ شریف کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار۔ میر مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا‘ صنم بھٹو کا بیٹا اور بیٹی‘ بھٹو خاندان کی بربادی کے شراکت داروں کے ساتھ اقتداری شراکت داری کا شاید سوچ بھی نہیں سکتے۔ جاتی امرا اور نواب شاہ کے مفاداتی ملاپ نے مگر یہ سب کچھ کر دکھایا۔
پی ڈی ایم رولر کوسٹر کی دوسری قسط میں الزامات کی ٹریڈنگ زوروں پر ہے۔ دونوں طرف کے طبلچی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے بیان دیتے بھی ہیں اور پھر ضرورت پڑنے پر اُن سے مکرنے میں بھی وقت نہیں لگاتے۔ عمران خان کے دور میں اسی جماعت کے ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کے نعرے مارنے والے آلِ شریف سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر پنجاب میں مٹھی بھر چاول کے برابر سیاسی رعایت کی بھیک مانگ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب آلِ شریف خود نواز شریف کیلئے Soloپلئینگ فیلڈ اور گرفتار نہ کرنے کی ضمانت کی بھیک مانگ رہی ہے۔
نواز شریف سے بہتر تجربہ کس کا ہے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف کے نعرے لگانے والے تو دور کی بات ہے‘ سیاسی ٹمپریچر میں ذرا سی گرمی ہو تو شہباز شریف کو 12گھنٹے تک لاہور ایئر پورٹ کا راستہ ہی نہیں نظر آتا۔ اتنی بڑی انقلابی ٹیم کی قیادت ایسے افراد کے پاس ہے جنہوں نے ابھی تک ملک کے چاروں صوبوں میں کسی سڑک پر پندرہ منٹ خدا کی بستی میں بسنے والے غریبوں کے ساتھ نہیں گزارے۔ پی ڈی ایم کے لیے انتخابی سیاست کی ابھی تو پارٹی شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔ انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے دیں پھر آپ کو Panic اٹیک والے اور سیاسی مرگی کے مریض کثرت سے دیکھنے کو ملیں گے۔
پی ڈی ایم کے رولر کوسٹر کا ایک اور میگا کریئٹر بھی ہے جس میں 16 مہینے کی محنت سے 14جماعتوں نے مل کر معیشت کو دھکا دیا۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں‘ یہ جاننے کے لیے ایک رپورٹ شدہ تاریخی واقعہ سننا کافی رہے گا۔ سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ کنگ سلمان بن عبدالعزیز پاکستان کے دیرینہ خیر خواہ رہے۔ کنگڈم کی بادشاہی سنبھالنے سے پہلے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز 48سال تک سعودی دارالخلافہ ریاض کے گورنر رہے۔ راوی کے مطابق پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے سفیر ایڈمرل شاہد کریم اللہ صدرِ پاکستان کا پیغامِ خاص لے کر ریاض پیلس پہنچے۔ شاہ سلمان نے پاکستانی سفیر سے ملاقات میں سفارتی گزارشات بڑے تحمل اور غور سے سنیں۔ پھر شاہ سلمان نے پاکستانی سفیر سے کُھل کر کہا ''ہم پاکستان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ہم ہر مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن برادر پاکستانی یہ بات یاد رکھیں کہ ایسے جذبات صرف ہماری نسل تک ہیں۔ ہماری اگلی نسل بڑی پریکٹیکل ہے۔ ہمارے بعد صورتحال کیا ہو‘ کسی کو پتا نہیں۔ اس لیے آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ اپنی قومی زندگی میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں‘‘۔ سفیرِ پاکستان شاہد کریم اللہ نے یہ پیغام من و عن سائفر بنا کر پاکستان میں ایوانِ صدر کو بھجوا دیا۔ ایسی ہی ایک مثال پاکستان تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں اُس وقت سامنے آئی جب فیڈرل فنانس منسٹر اور جنرل باجوہ امداد مانگنے کے لیے ابوظہبی جا پہنچے۔ ان دونوں حضرات کو ملنے والا مشورہ آخری رتبے کا برادرانہ تھا۔ یہی کہ ''کبھی آپ ہمارے لیے اوپر والا ہاتھ ہوتے تھے‘ اب ہمارا ہاتھ اوپر ہے۔ آپ ہمارے بھائی ہیں‘ آئیں اوپر یا نیچے والا ہاتھ بننے کے بجائے برابری سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ آپ کسی ملک سے بھی امداد نہ لیں‘ آپ سارے ملکوں سے بزنس کریں۔ آپ صرف اسی طریقے سے امیر ہوں گے‘‘۔ چین کا مشورہ بھی دو ٹوک رہا۔ چشم دید راوی بیان کرتا ہے ''آپ ایک ہی بار فیـصلہ کر لیں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ترقی یا لڑائی؟ مگر ترقی پہلے نمبر پر آتی ہے اور لڑائی دوسرے نمبر پر۔ آپ لوگ ترقی پر کمپرومائز نہ کریں‘‘۔
اگر ہم صرف چین کی مثال دیکھیں تو بھارت کے ساتھ چین کے تنازعات اتنے ہی پرانے ہیں جتنے ہمارے۔ چین کے ساتھ درۂ گولان میں تازہ خون ریز جھڑپیں بھی ہوئی۔ اس کے باوجود چین کا بھارت کے ساتھ تجارتی حجم بڑھتاہی چلا جا رہاہے۔ گُر کی بات یہ ہے کہ لڑائی اپنی جگہ اور تجارت اپنی جگہ۔ آئیے! تھوڑی دیر کے لیے ان تمام مشوروں کو سائیڈ پر رکھتے ہیں۔ دلی چلیں جہاں 9اور 10ستمبر کے روز G20کا سربراہی اجلاس تھا۔ بھارت نے ثابت کیا کہ وہ دنیا کی 20بڑی معیشتوں میں صرف شامل نہیں بلکہ اُن کا میزبان ہے۔ آج ہم کسی زمینی حقیقت کو کیا تسلیم کریں گے۔ ہم سے تو افغان سیانے نکلے۔ ابھی افغانستان کی ترقی کا ایک نیا کوریڈور تازہ تازہ کُھلا ہے۔ افغانی صوبے بدخشان سے چین کی سرحد تک واخان راہداری کے ذریعے اس نئی افغانی چھلانگ نے چین کا سی پیک پر دارو مداد کم کرنے کی راہ کھول دی۔ رپورٹ شُدہ معلومات کے مطابق افغانی حکومت نے 50کلومیٹر طویل نئی تجارتی سڑک واخان رہداری تک پہنچائی۔ بڑے شدید دشوار گزار پہاڑی علاقے میں یہ سڑک صرف دو سال کے عرصے میں مکمل ہو گئی۔ اگلے روز اس کا افتتاح کرتے ہوئے کابل حکومت نے اسے اپنا پہلا سب سے بڑا کارنامہ بتایا ہے۔ دوسری جانب چین کے پڑوس سے تجارت کے لیے اسے ورجن لینڈ ہاتھ آگئی ہے۔
ہم یہ آئینی تاریخ بھی بھلا بیٹھے کہ پاکستان کی بنیاد بنگالیوں نے رکھی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تاسیس بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں ہوئی۔ 23مارچ 1940ء کو قرادادِ پاکستان بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق نے پیش کی۔ ہم نے پاکستان کے دستور کے نیچے الیکشن لڑ کر جیتنے والی بنگالی قیادت کو دستوری اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ ایک بار پھر الیکشن کمیشن نے صدرِ مملکت کی آئینی کمانڈ ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ دراصل قوم کو دستوری اقتدار منتقل کرنے سے انکار ہے‘ آئین کی نفی ہے۔
آج ملک کی سب سے بڑی دستوری عدالت میں خوش گوار آئینی تبدیلی آئی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی نیچے تک کب پہنچے گی؟ پی ڈی ایم کے رولر کوسٹرکو نواز شریف کے آبائی وطن والی تازہ تقریر نے بوسٹر لگا دیا ہے۔ لگتا ہے نہ 21اکتوبر اور نہ 33دسمبر‘ نواز شریف کی واپسی بھی رولر کوسٹر کی نذر ہو گئی۔ احمد ندیم قاسمی نے شاید اسی کیفیت پہ کہا تھا؛
جب ترا حکم ملا ترکِ محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی