آمریت کے زمانے میں حبیب جالب کو قیدِ قفس میں ڈالا گیا۔ زنداں کی آہنی دیوار کے پیچھے چھوٹی جیل کے قیدِ تنہائی والے سیل میں بیٹھ کر اپنے قیدی تجربے کا بہت حقیقت پسندانہ موازنہ حبیب جالبؔ نے باہر بڑی جیل میں گزرنے والی زندگی سے کیا تھا۔ نصف صدی پہلے اس شاہکارکا عنوان خودجالب ؔنے ''ملاقات‘‘ رکھا۔ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے اس ہفتے میری ملاقاتیں ہوئیں۔ گزرے کل تازہ ملاقات کرنے کیلئے میرا قریب ترین راستہ پنڈی کچہری سے گزرا جہاں راولپنڈی کی پرانی جیل آتی ہے۔ اسی جیل میں دستور ساز اسمبلی کے لیڈر آف دی ہائوس ذوالفقار علی بھٹو کو ہائی سکیورٹی رِسک کا بہانہ بنا کے چھوٹے سے سیل میں اکیلا قید رکھا گیا تھا۔ تحریکِ ختمِ نبوت کے زمانے میں 1974ء کے سال میں نے میانوالی جیل کے علاوہ پنڈی جیل کے ایک سپیشل سیل میں کئی ماہ کی قید کاٹی۔ پنڈی بوائے شیخ رشید‘ جو کل ہی مجھے ملنے کیلئے آئے تھے‘ ان کے علاوہ گارڈن کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر ملک ناظم الدین ناظم‘ سی بی کالج سٹوڈنٹس یونین راولپنڈی کے صدر فیاض ملک‘ ودود قریشی اور مختلف طلبہ تنظیموں کے عہدیدار اِس زنداں میں میرے ہم قفس تھے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے حبیب جالب کی ملاقات والے چند شعر یادِ ماضی کے جھروکے سے نکل آئے۔ عمران خان سے ملاقات شروع ہوئی تو میں نے انہیں اپنی کیفیت کا بتایا اور پھر انکے اصرار پر جالب ؔ کے شعر بھی سنائے۔
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن
انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
عمران خان جسمانی طور پر پہلے سے زیادہ فِٹ اور ذہنی طور پر پوری طرح سے فوکس اور الرٹ ہیں۔ قیدِ تنہائی میں ڈالنے سے پہلے ان کے صیاد کہتے نہیں تھکتے تھے کہ عمران ایک ہفتے میں تھک ہار کر معافی مانگتا ہوا جیل سے بھاگے گا۔ جمعرات کے روز قیدِ تنہائی میں انہوں نے اپنے وعدے پر ڈٹے ہوئے بار بار تین نکات پہ زور دیا۔ جو ان کی اوّل و آخر مصروفیات اور ترجیحات ہیں تاکہ قوم موجودہ بحران سے جان چھڑا سکے۔
قومی منظر نامہ بدلنے کے لیے عمران خان کی ترجیح نمبر ایک: 1973ء کا دستور پاکستان میں کانسٹیٹیوشنل ڈیموکریسی کا پورا فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ عمران خان کا تجزیہ ہے کہ پاکستان کی بدحالی اور قومی زندگی کے ہر شعبے میں اداروں کی تنزلی کا سفر آئین کی رو گردانی سے شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں ایلیٹ مافیاز نے جنم لیا‘ نان سٹیٹ ایکٹرز پیدا ہوئے اور ریاست کے اندر چھوٹے چھوٹے گروہوں نے اپنی اپنی ریاستیں بنا لیں۔ امنِ عامہ قائم رکھنے کے ذمہ دار اداروں میں سیاسی اثر و رسوخ کا راج شروع ہو گیا۔ کمزور اور طاقتور کا پاکستان‘ دو علیحدہ پاکستان بن گئے‘ قانون و انصاف کے دہرے معیار اور معاشی معاملات میں طبقاتی تقسیم نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ ملک میں رول آف لاء کی بالا دستی کی جگہ جبر اور استحصال کے ساتھ ساتھ طاقت کے استعمال نے لے لی۔ اس ہمہ جہت بحران میں سے کاسمیٹک ایکشن اور زبانی تقریریں 25کروڑ لوگوں کو نہیں نکال سکتیں۔ اسلئے اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں خلقِ خدا کی مرضی سے فیصلے ہوں جس کا واحد آئینی طریقہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہیں۔ الیکشن کرانے اور قانون نافذ رکھنے کے ذمہ دار لوگ ریفری کا کردار ادا کریں‘ پارٹی نہ بنیں۔ اٹک جیل اور اڈیالہ جیل کی قیدِ تنہائی میں 125دن گزارنے کے بعد بھی عمران کا عزم دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ وہ روز بروز حقیقی آزادی کے نظریے پر پختہ سے پختہ ترین حوصلہ اور ارادے رکھتے ہیں۔ مجھے اُنہوں نے بارہا کہا: بابر! لوگوں تک یہ پیغام ضرور پہنچانا‘ میں اگر جیل میں مَر بھی جائوں تو بھی پاکستانیوں کے خوابوں پر سودا نہیں کروں گا۔ آئین نے پاکستان کی فیڈریشن کو جوڑ رکھا ہے۔ اس لیے آئین کی بالادستی ہی سارے مسائل کا حل ہے۔
قومی منظر نامہ بدلنے کے لیے عمران خان کی دوسری ترجیح: عمران خان اس بات پر 100فیصد ڈٹے ہوئے ہیں کہ پاکستان کی معیشت مانگے تانگے کے جمع کیے ہوئے ڈالروں‘ غیر ملکی قرضوں اور خالی خولی نوٹ چھاپنے سے کبھی درست نہیں ہو سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں معاشی گروتھ کو 6فیصد تک لے کر گیا۔ اس دوران پاکستان پر دو قدرتی آفات نے خوفناک حملے کیے۔ جن میں سے ایک Covid-19تھا اور دوسرا ٹڈی دَل کا حملہ۔ اس کے باوجود میں نے عام آدمی تک دو درجن سہولیات کی سکیموں سے لے کر صحت اور علاج تک‘ قوتِ خرید سے لے کر منصفانہ تقسیم تک قوم کے اربوں کا رُخ نچلے طبقات کی طرف موڑ دیا۔ اس سے ملک کے اندر کارخانے ایک کی بجائے ڈبل شفٹ پر چلنا شروع ہوئے۔ صرف ساڑھے تین سال کے مختصر عرصے میں بڑے بڑے چیلنجز کے باوجود قوم میں امید پیدا ہوئی کہ ہم معاشی خود مختاری حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈونلڈ لُو کے ذریعے جو رجیم چینج ضمیروں کی منڈی لگا کر لائی گئی‘ اُس سے لوگوں کی امید ڈگمگا گئی۔ بڑے پیمانے پر تعلیم یافتہ یوتھ کے اندر برین ڈرین شروع ہو گیا۔ اس وقت اختیار ان کے پاس ہے‘ جن کے پاس ووٹ نہیں۔ جس کے نتیجے میں کوئی پیداواری شعبہ کام نہیں کر رہا۔ جہاں پیداواری عمل رُکا ہوا ہو‘ وہاں انویسٹمنٹ کیسے آئے گی؟ عالمی مالیاتی ادارے بار بار کہہ رہے ہیں۔ لوگ اپنی مرضی کی حکومت لائیں اور اپنی مرضی سے ملک چلائیں۔ عمران خان نئے الیکشن کے ذریعے PTIکی حکومت بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے اصل امیدِ پاکستان عام آدمی کے آزادانہ ووٹ سے جنم لے گی۔
قومی منظر نامہ بدلنے کے لیے عمران خان کی تیسری ترجیح: عمران خان مہنگائی بم‘ گیس بم‘ پٹرول بم کا خاتمہ ''بلّا بم‘‘ سے کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان اس بات پر رنجیدہ تھے کہ بجلی اور گیس‘ مہنگائی اور افراطِ زر نے عوام کی قوتِ خرید چھین لی ہے۔ عام آدمی کے لیے سبسڈی بھی ختم کر دی گئی ہے۔ حکمرانوں کی عیاشیوں میں ڈبل سے زیادہ اضافہ ہو گیاہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ساری زور زبردستی اور دھاندلی کے باوجود قوم حقیقی آزادی کیلئے کھڑی ہے ۔ اُن کا کپتان آخری گیند اور آخری سانس تک اُن کے لیے کھڑا ہے۔ میری تصویر‘ میری تقریر‘ میری تشہیر کوئی اہمیت نہیں رکھتی‘ اصل بات قوم کی تقدیر ہے۔ جو آئین کہتا ہے کہ قوم کی تقدیر‘ قوم اپنے ہاتھ سے بنائے گی‘ اس دستوری اصول پر سودا بازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عمران خان نے مجھ سے صرف ایک فرمائش کی۔ کہنے لگے: بابر! عدالت سے کہو یہ میری ورزش والے ڈمبل تو واپس کروا دیں۔ اقبال ؒ نے شاید ایسے ہی شاہین کے لیے کہا:
ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
باقی دعوے‘ خواہشیں جو خبر بنائی جاتی ہیں‘ آپ انہیں وغیرہ وغیرہ سمجھا کریں۔