"SBA" (space) message & send to 7575

2024ء کا پاکستان

2023ء کی رات آخری تحریر جو میں نے پڑھی وہ سابق امریکی صدر Donald Trumpکی سپریم کورٹ آف سٹیٹ آف کولوراڈو میں دائر کی گئی اپیل تھی۔کولوراڈو کے سپریم کورٹ کی بلڈنگ کے ماتھے پہ عدالت ِ عظمیٰ کا ماٹولکھا ہوا ہے۔یہ ماٹو بلڈنگ کے حصے کے طور پرسٹرکچر کے اندر شامل ہے: ''Equal Justice under the Law‘‘۔
پچھلی رات12بج کرایک منٹ پردھیان''دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو ‘‘کی جانب چلا گیا۔ گزرے ہوئے سال میں کیا ہم مساوات لے سکے یا دے سکے؟سوسائٹی ‘ سماج ‘ ملازمت‘ ریاست ‘عدل اور راج نیتی کے ایوانوں کی ایک سالہ کارکردگی میں جس کوEqualityنظر آئے وہ ہاتھ کھڑا کر کے قوم کو بتا دے ۔ صرف اتنی سی بات کہ مساوات کا تصور ہم نے بحال کیا یا پامال کیا؟اس موضوع پر بولنے کا میں نے نہیں کہا۔اس لیے کہ جہاں اپنی پسند کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا سوچنے والے پاکستانیوں کو RO'sکے دفتروں کے اندر اور باہر سے اُٹھا لیا جائے ‘اغوا کاری کے وڈیو کلپ موجود ہوں مگر ہم تماشائی سے آگے کا کوئی کردار ادا نہ کر سکیں‘ایسے میں بولنے کابھاری رِسک کسی کے نازک کندھوں پر نہیں لادا جا سکتا۔ سپریم کورٹ آف کولوراڈو کے ماٹو کا دوسرا حصہJustice ہے۔ جس کا مطلب ہے اندھا انصاف۔ ایسا اندھا جو عدالت کا در کھٹکھٹانے والے کو اُس کے سوشل سٹیٹس سے نہیں بلکہ اُس پہ لگنے والے الزام کی آنکھ سے دیکھے۔یہ آنکھ نہ بھینگی ہو نہ کانی۔تاکہ نہ کسی کی طرف سے منہ پھیرا جا سکے اور نہ کسی سے دل لگایا جا سکے۔اس موضوع پر آخری حوالہ Lawکا آیا ہے۔ قانون صرف لکھے ہوئے حرف کو نہیں کہا جا سکتا بلکہ لکھے ہوئے حرف کے عملی نفاذ کو رول آف لاء کہا جاتا ہے۔کیا گزرا ہوا 2023ء کا سال پاکستان میں رول آف لاء کا سال تھا؟اس کا جواب اگر ہاں میں ہے تو پھر ہاں کرنے والے کو دعا دینی چاہیے کہ اُسے اگلے سال میں بھی ایسا ہی انصاف نصیب ہو۔ اگر اس کا جواب نہ میں ہے توپھر2024ء کا پاکستان تبدیل کرنا پڑے گا۔ جہاں مساوات‘ انصاف اور قانون کی حکمرانی ہو۔ مافیازکے راج میں مہذب دنیا کے یہ تصورات خواب نہیں بلکہ سراب سے بھی بدتر ہیں۔
واہگہ بارڈر کے دوسری جانب بھارت کی لوک سبھانے انڈین پینل کوڈ 1860والا فرنگی راج کا قانون دفنا دیا۔ اس کی جگہ نیو انڈین کوڈ2023ء پارلیمنٹ نے پاس کیا۔ کریمنل پروسیجر کوڈ1898ء کوبھی تاریخ کی گرد میں اُڑا دیا گیا۔ اس کی جگہ بھارتی شہریوں کے تحفظ کا قانون 2023ء بن گیا۔ انڈین ایویڈنس ایکٹ1872ء کی جگہ لوکل شہادت ایکٹ2023ء متعارف کروایا گیا۔اس کے علاوہ1923ء کا بنا ہوا بغاوت کا قانون ‘ جو انگریزی راج نے اپنی حکمرانی کے تحفظ کے لیے بنایا تھا‘جس کا واحد مقصد اختلافی آوازیں خاموش کروانا تھا‘ بھارتی لوک سبھا نے اُس قانون کو مکمل طور پر منسوخ کر دیا۔بغاوت کے کالے قانون کوRepealکرنے کے لیے جو بِل سامنے آیا اُس میں کہا گیا ہے کہ اب یہاں جمہوریت ہے ‘ سب کو بولنے کا حق ہے‘ رائے تلخ ہو یا کڑوی محض بولنے سے کوئی غدار نہیں بن جاتا۔
اپنے ہاںسال 2023ء میں قانون میں عام آدمی کے مفاد کی کون سی ریفارمزہوئیں‘ جن کے ذریعے سے لوگوں کو عزت‘آبرو اور تحفظ کا احساس دلایا گیا؟اگر ریفارمز ہوئی ہیں تو پھر آئین بے بس کیوں‘ نظامِ انصاف پر عام آدمی کا عدم اعتماد کیوں‘ ایک ملک میں دو دستور کیوں‘ ایک نظام میں دو طرح کے انصاف کیوں؟بڑے کیلئے بڑے بڑے پروٹوکول اور چھوٹے کیلئے بڑی بڑی ڈانگیں کیوں؟ کیا یکم جنوری 2024ء سے آگے یہ سب کچھ بدل جائے گا؟اگر جواب ہاں میں ہے تو 2024ء کے سال کو خوش آمدید۔اگر نہیں‘ تو کیا پاکستان میں کوئی ایساThink Tank‘ کوئی ایسی درسگاہ ‘ کوئی ایسی لیب موجود ہے جہاں ملک کو اس گمبھیرتا سے نکالنے کے لیے دن رات سوچ بچار کرنے والے بیٹھے ہوں تاکہ 2024ء کے پاکستان کا نقشہ اور وے فاروڈ بنایا جاسکے؟
بڑے بڑے قومی ادارے ‘ریلوے ‘ سٹیل ملزاور PIAکے سائز والے‘ کیا 2024میں دوڑنا شروع کر دیں گے؟ PIAکے 18آپریشنل جہاز ‘ 641ایئر کرافٹ انجینئرز‘چھ ڈائریکٹرز‘42جنرل منیجرز‘106ڈپٹی منیجرز‘ چار ملین تنخواہ کے قریب والا چیف ایگزیکٹو‘7300کی مین پاوّر۔ رُک جائیے‘ دو ادارے تو ایسے ہیں جو ہر وقت پاکستانی Tax Payers سے وصولیاں کرتے رہتے ہیں۔ سرکاری TVآپ لگائیں نہ لگائیں بجلی کے بل میں آپ اُس کا خرچہ ادا کرنے کے پابند ہیں۔ ٹیکس ادا کرنے والے پاکستانی شہری PIAمیں بیٹھیں‘ ایئر پورٹ کے اندر جائیں یا نہ جائیں‘ تب بھی پاکستان کا ہر شہری PIAکو ماہانہ ہزاروں روپے کا جبری ہرجانہ ادا کرنے پر مجبور ہے۔
قارئین وکالت نامہ!2024ء کا پاکستان کیسا ہوگا؟ اس بارے میں سینکڑوں سوال ایسے جو آپ کے ذہن میں ہیں ۔ اُن کو لکھنے کے لیے کالم نہیں بلکہ کتاب چاہیے۔ اُن میں سے زیادہ تر نئے سال کے بارے میں خدشات ہیں ۔کیا ایسا تو نہیں جو چند خاندان خوشحال ہیں اُن کا2024ء کا پاکستان اور زیادہ خوشحال ہو جائے گا؟ صرف اُن کے لیے نہیں بلکہ اُن کی آنے والی 25‘ 30نسلوں کے لیے بھی۔ اور جو مفلوک الحال ہیں یا بدحال ہیں اُن میں امید کی جوت کیسے جگائی جائے؟ کوئی درباری خطیب ‘ کوئی سرکاری ادیب‘ شعور کے اس سونامی میں جھوٹی امید کا کاروبار نہیں چلا سکتا ۔اس کے لیے قوم کے اجتماعی شعور کا احترام کرنا لازم ہے۔اس احترام کا آغاز قوم کی رائے کے اظہار سے ہوتا ہے۔کوئی فتویٰ ‘ کوئی سرکاری حکم نامہ‘ قوم کے اس اجتماعی شعور کا اور قوم کے اس اظہارِ رائے کا متبادل نہیں ہوسکتا۔حبیب جالب نے کیا خوب کہا ؎
بہت میں نے سنی ہے تیری تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اَب تک میری تقدیر مولانا
چلئے اب سوچ کا ذائقہ بدلنے کے لیے 2024ء کے پاکستان پہ کچھ شاعری دیکھ لیں۔
فریاد آزر نے کہا ؎
نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے
حفیظ میرٹھی یوں بولے ؎
اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
لو ساتھ چھوڑنے لگا آخریہ سال بھی
عزیز نبیل کا تخّیل کہنے لگا ؎
پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ
راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی
ظفر اقبال کا کمال دیکھیے ؎
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
دیوار سے پرانا کلینڈر اُتار دے
فاروق انجینئر نے پولیٹکل انجینئرنگ کا پردہ چاک کیا ؎
پچھلا برس تو خون رُلا کر گزر گیا
کیا گُل کھلائے گا یہ نیا سال دوستو
مرزا غالب کا مغلوب کر دینے والا حاصل ِ کلام؎
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتّوں سے کیا فیض
اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں