پشاور ہائی کورٹ بھی پہلی بار رات کو کھل گئی۔ اندھیرے میں انصاف ہوا مگر پوری قوم کو کھلی آنکھوں سے ہوتا ہوا نظر بھی آیا۔ ایک بیٹی کی پُکار اور سسکیاں خیبر پختونخوا کے منصفِ اعلیٰ کو وفاقی دارالحکومت سے رات گئے عدالتِ عالیہ میں واپس لے آئیں۔ موسمِ سرما کی طے شدہ تعطیلات اور فیملی مصروفیات پیچھے چھوڑ کر۔
میرا دھیان 31دسمبر‘ عیسوی کیلنڈر کے سال 695کے منطقۂ حجاز کی طرف چلا گیا۔ شہرکا نام ہے طائف۔ جہاں القاسم ابن محمد ابن الحاکم اور حبیبہ العظمیٰ کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمد بن قاسم الثقفی رکھا گیا۔ یہ بنو اُمّیہ کے خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نوخیز عرب جنگجو کو اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے سال 708ء میں سربراہِ لشکرِ سندھ بنا کر پاکستان کی موجودہ وادیٔ مہران کی طرف روانہ کیا۔ اس حوالے سے ہماری سرکاری تاریخ اور سندھ کی تاریخ لکھنے والوں کے مطابق 711ء میں دیبل کے مقام پر جنگ ہوئی جسے جنگِ اروڑ بھی کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بندرگاہ پر بحری قزاق ایک کشتی کو لوٹ رہے تھے جس میں سوار مائی کولاچی نامی لڑکی نے خلیفۂ بغداد کو مدد کے لیے پکارا تھا۔ جنگِ دیبل کے تاریخی واقعے کے تنازعاتی موضوعات کی طرف جانے کے بجائے صرف اتنا کہنا آج کے حوالے سے اہم ہے کہ بیٹی چاہے کسی کی بھی ہو‘ جب وہ بے کسی کی چیخ مارے یا جبر اور بربریت کی طاقت اُس کے آنسو نکال دے‘ تو منصفِ شہر تڑپ اُٹھتا ہے۔ محمد بن قاسم الثقفی 18جولائی 715ء میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا مگر اُس کی تاریخ تین جنوری 2024ء کو دریا ئے کابل کے کنارے واقع شہرِ پشاور میں دہرائی گئی۔ جہاں پاکستان کی ایک پختون بیٹی زرتاج گُل وزیر کی آنکھوں سے سرکاری افسروں کے جبروت نے آنسوؤں کی جھڑی گرائی۔ اگرچہ پچھلے دو مہینے میں مَیں پشاور ہائی کورٹ میں دو مقدمات‘ ہری پور سیشن جج کی عدالت میں ایک مقدمے اور پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بنچ میں کیسز وکالت کر چکا ہوں۔ لیکن اسے اتفاق کہیے‘ میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب محمد ابراہیم خان کی عدالت میں ابھی تک پیش نہیں ہوا۔
پچھلے تین دن میں پشاور ہائی کورٹ کے وکلا نے بڑی بہادری سے جبر و استبداد کا سامنا کیا۔ ہائی کورٹ کے دروازے پر کالے کوٹ کی بے توقیری کی گئی۔ سرزمینِ بے آئین میں Access to Justice کے بنیادی انسانی حق کے خلاف کھلی پولیس گردی ہوئی‘ جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا۔ پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرار صاحب کے عدالتی اور سرکاری کام میں مداخلت ہی نہیں ہوئی بلکہ اُنہیں دھکے شاہی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ میرے پاس برادر وکلا کی بتائی ہوئی کافی تفصیلات ہیں‘ لیکن میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے حکم سے ہونے والی انکوائری کو متاثر نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے تھوڑے لکھے کو آپ زیادہ سمجھ لیں۔تین جنوری 2024ء‘ بدھ کا دن کا اس اعتبارسے تاریخ ساز ہے کہ اس دن ہر گھر میں‘ ہر پاکستانی کے دل کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے طریقۂ انصاف نے Touch کر لیا۔
زرتاج گُل وزیر کی ضمانت کو مکینکل ڈیوٹی سمجھ کر ادا نہیں کیا گیا بلکہ بیٹی کی آبرو اور تکریم کا لافانی اور کبھی نہ بھولنے والا مظاہرہ قاضیِ شہر کی عدالت میں ہوا۔ ''بیٹی آپ مت روئیں میں آگیا ہوں‘ بیٹی کو کھانا کھلائیں‘‘۔ ''اگر میں انصاف نہیں کر سکتا تو میں استعفیٰ تو دے سکتا ہوں‘‘۔ ان الفاظ کو سننے کے لیے پاکستان کی بیٹیوں کے کان ترس رہے تھے۔ وہ مظلوم بیٹیاں جو ہر طرح کے رِسک لے کر رول آف لا کے لیے کھڑی ہیں۔ ان کا تعلق چاہے بلوچستان سے ہو‘ ہر جگہ عدل پہ ایقان کا جھونکا پہنچا ہے۔ مظلوموں کی داد رسی کا ایسا جھونکا جس کے بارے میں پچھلی صدی کے قد آور ادیب و شاعر عبدالکریم شورش کاشمیری نے یوں فریاد کی تھی؛
ترس گئے ہیں صدا ہائے خوش نما کے لیے
پکار! وادیٔ خاموش سے خدا کے لیے
عدل و انصاف تک عام آدمی کی رسائی اور عدل کا معیار چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے نزدیک کیا ہے‘ اس بارے میں چلیے اُن کے اپنے الفاظ پڑھتے ہیں‘ جو اُن کی پشاور ہائی کورٹ بار میں تقریر سے یہاں درج کیے جا رہے ہیں۔
''اللہ معاف کرے یہ پتہ نہیں ہے کہ شاید وہ بے گناہ ہو تو پھر کیا بنے گا‘ وہ تو پھر ہم سب کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اور میری تو سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ مجھ سے ضرور پوچھا جائے گا۔ دیکھیں میری عبادات یا میری Honesty‘ یہ میرے کسی کام نہیں آئے گی۔ ایک عورت ذات بیچاری‘ اگر فرض کریں خدا نخواستہ اس کو کسی جگہ سے وہ انصاف نہیں مل سکا جس کی وہ حقدار ہے تو بڑا مشکل ہو جائے گا ہمارے لیے۔ تو کوشش کر لیا کریں کہ ہمارے پاس وہی کیسز رجسٹر ہو جائیں جن میں واقعی ایک انویسٹی گیشن لیول اس Honesty کا ہو کہ جس کی بنیاد پہ انصاف ہو۔ کمپلیننٹ کے ساتھ بھی انصاف ہو اور ایکیوزر کے ساتھ بھی انصاف ہو تاکہ خدانخواستہ کل روزِآخرت اللہ کے حضور ہمیں کسی ناکردہ گناہ میں وہ سزا نہ ملے جو اُس عورت نے اس دنیا میں گزاری ہو۔ میں حاضر ہوں آپ کے سامنے‘ اس کو بھول جائیں کہ میں نے آپ کے ساتھ اچھا وقت گزارا ہے۔ اس کے بعد بھی ایک وقت گزارا ہے‘ میں ڈی آئی خان میں سیشن جج رہا ہوں‘ ہنگو میں سیشن جج رہا‘ احتساب عدالتوں کا جج رہا ہوں‘ ایڈمنسٹریٹو جج رہا ہوں‘ انسدادِ دہشت گردی عدالت کا جج رہا ہوں۔ الحمدللہ کوئی 23 سال میں نے ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں گزارے ہیں اور پھر اللہ مجھے ہائی کورٹ لے کے آیا تو احتساب سے ہم مبرا نہیں ہیں۔ آپ کا چیف جسٹس بالکل مبرا نہیں ہے۔ میں ہر جگہ یہی کہتا ہوں کیونکہ اگر میرا احتساب ہو گا اور اگر میں ایک ماڈل کے طور پہ آپ کے سامنے آؤں گا تو Definitely اس کا بڑا اثر ہوتا ہے اور بہت ضروری بھی ہے۔
لہٰذا جتنے بھی جج صاحبان ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں‘ میری بہنیں ہیں‘ میری بیٹیاں ہیں‘ میرے بھائی بھی ہیں‘ سارے خوش ہیں۔ احتساب سے جہاں آپ کا چیف جسٹس مبرا نہیں ہے تو کوئی جج بھی مبرا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ بے شک رازدارانہ طور پر‘ اگر کوئی ایسی بات خدانخواستہ میں کسی پہ شک نہیں کرتا‘ کوئی ایسی بات ہے کہ یہاں پہ خدانخواستہ کوئی ایسا جج ہے‘ جو جج بننے کے قابل نہ ہو وہ یہاں پہ نوکری نہیں کر سکے گا۔ آپ کے پاس جتنے بھی جج صاحبان کام کرتے ہیں الحمدللہ وہ ایماندار بھی ہیں محنت بھی کرتے ہیں‘ سارا کچھ کرتے ہیں لیکن پھر بھی دیکھیں ہر ایک کا احتساب بہت ضروری ہے اور میں اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرتا ہوں‘‘۔(جاری)