درشنی پہلوان چاہے جتنا مرضی بڑا ''گرز‘‘ پکڑ لے‘ وہ کنگ آف ریسلنگ نہیں بن سکتا۔21اکتوبر 2023ء کے دن قوم کے وسائل پر پلنے والی سرکاروں نے ہوا بھر کر ایک بیلون اسلام آباد ایئر پورٹ پر لانچ کیا تھا۔ قوم کو بیوقوف سمجھنے والوں نے اسے امیدِ پاکستان کا نام دیا۔ یہاں تک کہ جس جہاز پہ اسے سوار کرایا گیا‘ وہ فلائٹ بھی امیدِ پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی۔ امیدِ پاکستان فلائٹ انتہائی مختصر تھی۔ صرف 35منٹ مسافت کی کیونکہ اس امید نے دارالحکومت اسلام آباد سے ہوا میں اُڑ کر لاہور کی زمین پر لینڈ کرنا تھا۔
جس کے بعد فیملی ڈرامہ سٹیج کیا گیا‘ وہ بھی گریٹر علامہ اقبال پارک میں۔ پر کٹے کبوتر ہوا میں اُڑانے کے لیے چھوڑے گئے مگر نہ وڈّی سرکار کی بھری ہوئی ہوا والا غبارہ پنجاب میں اُڑ سکا اور نہ ہی پر کٹے کبوتر پنجاب کی فضاؤں میں بلند ہوئے۔ صرف 90دن کے بعد اس غبارے کی ہوا حافظ آباد پہنچ کر خارج ہو گئی۔ حافظ آباد جلسے کی ناکامی پر میاں نواز شریف کے مُوڈ کافی چڑچڑا تھا۔ نہ تو انہوں نے انتخابی مہم کے افتتاحی جلسے میں انتخاب کا نام لیا اور نہ ہی کسی انتخابی وعدے کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے اپنی سیاسی تاریخ کی سب سے مختصر تقریر حافظ آباد جلسی میں کی۔ آغاز سے انجام تک مبلغ 10منٹ کی جلسی۔ اس جلسی کے بعد جلسی نمبر 2میں جانے سے وہ انکاری ہو گئے۔ ساتھ ہی انتخابی مہم کا تیسرا جلسہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ دیکھتی آنکھوں‘ سنتے کانوں اور زندہ و بیدار دماغوں نے جان لیا کہ پنجابی واقعی جاگ گیا ہے۔ نہ صرف پنجابی جاگا بلکہ اس نے (ن) لیگ والوں کی سیاسی پگ کو نہ صرف داغ لگایا بلکہ پکا والا داغ لگا دیا۔ اچھی اُردو میں ایسے داغ کو داغِ مفارقت کہتے ہیں۔ بالکل ویسا ہی داغِ مفارقت جیسا انڈیا کی ٹینس سٹار ثانیہ مرزا اور ان کے معزز خاندان نے ایک لااُبالی پاکستانی کرکٹر کو دیا۔
میاں نواز شریف لندن پلان کے ذریعے پاکستان تو واپس لائے گئے مگر انہیں پاکستان واپسی سے پہلے اور واپسی کے بعد شہرِ اقتدار میں صرف سرکاری گاڑیوں اور درباریوں کے پروٹوکول کی حد تک وزیر اعظم مانا گیا ہے۔ جو قارئین وکالت نامہ پڑھتے ہیں یا میڈیا‘ سوشل میڈیا پر مجھے فالو کرتے ہیں اُنہیں معلوم ہے کہ میں پہلے دن سے میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنتا ہوا نہیں دیکھ رہا۔ اس 90روز کے عرصہ میں میاں نواز شریف کی سیاسی عدت کا وقتِ رخصت ہو گیا۔ آئیے ان کی چوتھی مدت کے سفر سے ایڈوانس واپسی کے بڑے اشارے آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
رخصتی کا پہلا بڑا اشارہ: میاں نواز شریف‘ جن کو قیدی نمبر804 عمران خان کا متبادل سمجھ کر میدان میں اُتارا گیا تھا‘ ان کی لانچنگ بری طرح سے فیل ہو گئی ہے۔ آج جب یہ وکالت نامہ آپ پڑھ رہے ہوں گے تو الیکشن میں 16 دن باقی بچے ہوں گے۔ 17واں دن الیکشن والا ہے جس سے دو دن پہلے قانونی طور پر انتخابی مہم بند ہو جائے گی۔ اس طرح عملی طور پر میاں نواز شریف اگر روزانہ بھی جلسہ کریں‘ تب بھی وہ پنجاب کے 41 اضلاع میں پاکستان تحریکِ انصاف کا ایک ووٹ بھی نہیں توڑ سکتے۔ ابھی تک مسلم لیگ (ن) کے پاس عمران خان کے خلاف زبانی پٹاخے چھوڑنے کے علاوہ نہ کوئی قومی ایجنڈا ہے‘ نہ کوئی انتخابی منشور اور نہ ہی کوئی معاشی پلان‘ جس کے ذریعے عام ووٹر کو متاثر کیا کم از کم متوجہ کیا جا سکے۔ لندن سے واپسی کے بعد میاں نواز شریف کا سیاسی منترا کسی طرح سے بھی انتخابی بیانیہ نہیں بن پا رہا۔ یہ تو صرف پنجاب کی بات تھی۔ سندھ کے 29اضلاع ایسے ہیں جہاں میاں نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم شروع کرنی ہے۔ بلوچستان کے صوبے میں 36 اضلاع اور آٹھ ڈویژن ہیں۔ میاں نواز شریف کی انتخابی مہم جس رفتار سے چل رہی ہے اس کے پیشِ نظر انہیں یہ علاقے کَور کرنے کے لیے پانچ سال لگیں گے۔ خیبر پختونخوا کے 34 اضلاع بھی سرکاری پروٹوکول بردوش‘ بزعمِ خود وزیراعظم کے دیدار کے منتظر ہیں۔ سوال یہ ہے اگر میاں نواز شریف کو یقین ہوتا کہ وزیر اعظم وہی ہیں تو کم از کم دو تہائی اکثریت کے نمبرز پورے کرنے والے امیدوار تو میدان میں اُتارتے۔
رخصتی کا دوسرابڑا اشارہ: یقینا آپ سیدھی سی بات سوچ رہے ہوں گے۔ میاں نواز شریف کی انتخابی مہم کے آغاز پر شہباز شریف اور حمزہ شریف کہاں گئے؟ اس کا جواب تین باتوں میں نظر آتا ہے۔ پہلے یہ کہ اگر ان دونوں کو یقین ہو کہ میاں نواز شریف اگلا وزیراعظم ہے تو وہ ماضی کی طرح نواز شریف کے ساتھ اگلی صف میں کھڑے ہوں گے۔ دوسرے‘ دونوں باپ بیٹے نے الیکشن مہم کے ٹرائلز کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کے پیشِ نظر دونوں نے اپنی گھریلو سیٹیں بچانے پر سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ تیسرے‘ پنچاب میں (ن)لیگ کے انتہائی پسندیدہ اینکرز جو سروے نشر کر چکے ہیں‘ ان میں پچاس سے ساٹھ فیصد تک ووٹرز کی حمایت قیدی نمبر804 کے امیدواروں کو حاصل ہے جن کو بوتل‘ جوتا‘ ڈھول اور بینگن جیسے انتخابی نشان بڑی محنت اور مہارت کے ساتھ الاٹ کروائے گئے۔ یہ دنیا کی تاریخ کا واحد الیکشن ہے جس میں خوف‘ مایوسی اور گرفتاریاں تو ہو رہی ہیں لیکن ریلی‘ جلسہ‘ جلوس اور اجتماع نہیں ہو سکتا۔ میرے قبیلے کے عزیزم احمد ندیم قاسمی نے یہ سنیریو عشروں پہلے لکھ چھوڑا تھا:
زندگی کے جتنے دروازے ہیں‘ مجھ پہ بند ہیں
دیکھنا‘ حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا ‘اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے‘ کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے خداوندانِ ایوانِ عقائد!
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے