قیدی نمبر 804 پردے کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ایک ایسا آہنی پردہ جہاں چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی۔ چاہے وہ ریڈیائی ہو‘ میڈیائی ہو‘ نشریاتی یا ملاقاتی۔ درِ زنداں کے دوسرے کنارے پر چار عدد سیاسیاتی مقدمات میں تصوراتی فیئر ٹرائل کی بنیاد پر جنّاتی رفتار سے چلنے والے مقدموں میں وہ مردِ جری‘ جس کا نام نہ تحریر میں لکھا جا سکتا ہے نہ تقریر میں بولا جا سکتا ہے اور نہ تشہیر میں پڑھا جا سکتا ہے‘ اُس دیو مالائی قیدی کو ان چاروں من گھڑت مقدموں میں کل ملا کر 34 سال مشقت سے بھرپور قیدِ تنہائی سنا دی گئی۔ قیدی نمبر 804 کے لیے راج سنگھاسن اور طاقت کے دربار کا حکم ہے‘ اسے 34 سال مزید جینا ہو گا۔ یہ قیدکی سزا ہے یا قیدی نمبر 804 کے لیے سال 2054ء تک کی نئی لائف لائن؟ اس سوال کا جواب نوشتۂ دیوار ہے۔ جسے مفاد‘ عناد اور شکم پرساد کی عینک اُتار کر دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
اگر ہم چند لمحوں کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو ہمیں عزیزِ مصر کے دربار سے ذلیل ترین‘ گھٹیا ترین‘ سوچے سمجھے اور بیمار ذہنیت کی بدترین مثال ملتی ہے۔ جہاں یوسفِ کنعان پر اسفل السافلین ‘ گرے ہوئے ذہن کا ایجاد کردہ اخلاقی الزام ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے اللہ کے سچے بندے کو قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ یہ جیل مصر کے دارالخلافہ قاہرہ کے قریب صحرا میں زیر زمین بنائی گئی تھی‘ جو اَب انٹرنیٹ پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں سیدنا یوسفؑ کو زیر زمین تیسرے طبق یعنی تھرڈ فلور بیسمنٹ میں قید رکھا گیا تھا‘ وہ ایک بستی کے نام پر ہے جسے ال شیخ العبادہ قید خانہ کہا جاتا ہے۔ پھر مالکِ ارض و سما کا ازلی قانون حرکت میں آ گیا۔ جس کے نتیجے میں جھوٹ رخصت ہوا‘ سچ غالب آیا اور حق ظاہر و باہر دکھائی دیا۔ تب دھوکے باز برادرانِ یوسف ہاتھ مل کر کہتے تھے‘ ہم سے بڑی غلطی ہوئی۔ اے کاش! ہم نے یوسف کو کنویں میں پھینکنے کے بجائے اپنے ساتھ لگا لیا ہوتا تو ہمارا یہ برادر کبھی مصر کا بادشاہ ہرگز نہ بن پاتا۔
مسلم دنیا کے نابغۂ روزگار آئیکون اور عالمی رہنما مہاتیر محمد صاحب کے ساتھ جب میری تیسری ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں انہوں نے اپنی عمر 93 سال بتائی۔ یہ تقریباً تین سال پہلے کی بات ہے۔ استاد مہاتیر محمد آج بھی مسلم اُمہ سمیت دنیا بھر کے آزاد جمہوری معاشروں میں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس دوران ان کے ملک ملائیشیا میں مالی اور معاشرتی جرائم کے کئی سزا یافتہ مجرم برسر اقتدار آتے رہے۔ قیدی نمبر 804 کی مخلوط حکومت کے خلاف رجیم چینج کے عالمی آپریشن کی طرز پر استاد مہاتیر محمد کی آخری مخلوط حکومت اسی عشرے میں رجیم چینج آپریشن کا شکار بنائی گئی۔ مگر موت و حیات‘ عزت و ذلت‘ رزق کی تنگی و فراخی قدرتِ کاملہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس لیے مہاتیر محمد ہر حال میں مہاتیر محمد ہی ہیں۔ بالکل قیدی نمبر 804 کی طرح جو جہاں بھی ہو‘ چاہے جس فیلڈ میں‘ اُس کا پاپولر ترین کپتان ہونا قدرت نے اُس کا مقدر کر دیا۔ قیدی نمبر 804 کو آخری سزا ایک انتہائی متنازع‘ بے بنیاد اور کمزور الزام میں دی گئی۔ جسے لگانے والا اسی ملک میں رہا مگر چھ سال تک اُس کے ضمیر نے اُس کی غیرت کو اپنی گود میں سلائے رکھا۔ آپ جانتے ہی ہیں اس طرح کے گواہوں کی غیرت سوفٹ ویئر اَپ ڈیٹ سے جاگتی ہے؛ چنانچہ ہمیشہ کی طرح ویسا ہی ہوا۔ آپ زیادہ تفصیل میں نہ بھی جائیں‘ صرف آخری مقدمہ کے تین نکات پہ ہلکی سی نظر ڈالیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ قیدی نمبر 804 سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب کے ریمارکس کے مطابق واقعی معصوم ہے۔ مگر ایک بات جو سب کومعلوم ہے وہ یہ کہ رجیم چینج کے بعد سے آج دن تک جس حمام نے سب کو ننگا کر ڈالا اُس کا نام الیکشن 2024ء ہے۔ جس کے جانے پہچانے چہروں میں تین طرح کی شکلیں دور سے نظر آ رہی ہیں۔ پہلی وہ جس کی ڈیوٹی بانی پی ٹی آئی‘ بشریٰ بیگم اور علیمہ خان کی کردار کُشی ہے۔ ان بیچاروں کی سانس پھولی ہوئی ہے بول بول کر‘ اور ہاتھ سوجے ہوئے ہیں لکھ لکھ کر۔ مگر پاکستان کے لوگ ہیں کہ قیدی نمبر 804 کو Following‘ حمایت‘ امداد‘ سپورٹ اور اب پیار کے درجے پر لے آئے ہیں۔ ریڈ لائن تو بڑی پرانی بات ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو نوٹوں کی بوریوں سے‘ پولیس کے ڈالوں کی قطاروں سے‘ ہر طرح کے ہتھکنڈوں اور ہتھیاروں سے الیکشن کی لیول پلینگ فیلڈ میں مصروف ہیں۔ عدت کیس فیصلے سے انتہائی خوفناک سماجی اور ازدواجی تنازعات پیدا ہوں گے۔ اس کے باقی پہلوئوں پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہے۔ آئیے! اسی تناظر میں سنگین تنازعات کا بنیادی پہلو یہاں دیکھ لیں۔
1973ء کے دستور کے آرٹیکل 227 کے مطابق: کوئی قانون سازی یا عدالتی فیصلہ اسلامی شرعی قوانین سے متصادم نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم اور سنتِ رسول کریمﷺ اس کے بنیادی ماخذ ہیں؛ چنانچہ ملک کی دو عدالتیں اس کیٹیگری کے مقدمات سنتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 203 D کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق فیڈرل شریعت کورٹ‘ جبکہ دی مسلم فیملی لاز آرڈیننس مجریہ 1961ء کے تحت خاندانی تنازعات‘ میاں بیوی‘ بچوں‘ شادی‘ عدت‘ طلاق اور خلع سمیت ایسے سارے مقدمات کے لیے فیملی کورٹس ایکٹ 1964ء کے نیچے صرف اور صرف فیملی کورٹ سن سکتی ہے۔ ان مقدمات کو چلانے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے اپنے رُولز ہیں‘ جبکہ فیملی کورٹ وہ واحد ضلعی عدالت ہے جس کے اپنے رُولز ہیں۔ باقی ضلعی عدالتیں ضابطہ فوجداری یا ضابطہ دیوانی کے تحت مقدمے چلاتی ہیں۔ فیملی کورٹ کو قانون اجازت دیتا ہے کہ وہ مقدمہ چلانے کے لیے خود طریقہ کار وضع کر لے۔ وہ بھی کیس ٹو کیس فیملی تنازع کے واقعات دیکھ کر۔ عدت کیس سیکشن 30 کے ایک فوجداری مجسٹریٹ نے چلایا۔ اس مجسٹریٹ کو تنسیخ نکاح‘ جسے قانونی زبان میں Jactitation of marriage کہتے ہیں‘ کا کوئی اختیار نہیں۔ مجسٹریٹ نے لکھا کہ عمران خان اور بشریٰ ایک دوسرے کے لیے نامحرم ہیں۔ پاکستان کی کسی بھی عدالت کے کسی جج کو اپنی طرف سے شادی توڑنے اور طلاق کا اعلان کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ خواہ وہ سپریم کورٹ ہی کیوں نہ ہو۔ اس جج کے پاس صرف اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار ہے۔
30 جولائی 2018ء کے روز خاور مانیکا نے ایک لیڈی ٹی وی اینکر کو پرائیوٹ چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ''میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ بشریٰ سے زیادہ کوئی پاکباز بی بی موجود نہیں ہے‘‘۔وڈیو موجود!یہ وڈیو عدالتی ریکارڈ میں بھی رکھی گئی ہے۔ اسی لیے ہر سزا ملنے پر خان نے پہلے سے بڑا قہقہہ لگایا۔ قید اُس کی جدوجہد میں لائف لائن ہے سزا نہیں۔