ہفتے کے دن ست رنگا موسم تھا۔ پوٹھوہار اور شہرِ اقتدار‘ ہڈیوں تک اُتر جانے والی سرد ہواؤں کی زد میں ہیں۔ یہ مسلسل ہوائیں رکنے والی نہیں بلکہ منہ زور اور روکنے والی ہیں۔ جس کا مظاہرہ دیکھنے کے لیے مجھے پشاور تک کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ تیز بارش مارگلہ کے دامن سے تخت بھائی تک ساتھ ساتھ رہی۔ چند کلومیٹر بارش تھمی رہی۔ مگر دریائے کابل کے پُل سے گزرے تو بارش نے پھر آن لیا‘ جو گورنر ہاؤس تک جاری رہی۔ یہ ملی جلی بارش تھی۔ آسمانی پانی کی بوچھاڑ اور انسانی جذبوں کی زمینی بھرمار سے بھرپور بارش۔ سفر کا مقصد اپنے بہادر دوست اور قیدی کلائنٹ علی مین گنڈاپور کی چیف منسٹری کے حلف والی تقریب میں شرکت تھا۔ اس سے ایک دفعہ پہلے میرے ایک اور کلائنٹ حیدر ہوتی نے KP صوبے کے وزیراعلیٰ کا حلف اُٹھایا تھا‘ جن کے والد سینیٹر اعظم خان ہوتی میرے قریبی بھی تھے اور کلائنٹ بھی۔ غزن ہوتی سمیت ان باپ بیٹوں کو میں نے اٹک قلعے کے ٹرائل میں ڈیفینڈ کیا تھا۔ یہ 12 اکتوبر 1999ء والا جنرل پرویز مشرف مرحوم کا مارشل لاء تھا۔ گورنر ہائوس میں ہزاروں ٹائیگرز‘ زخمی قیدی مینڈیٹ کی ریکوری پرکچھ شاد کام نظر آئے مگر پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان میں میگا مینڈیٹ کی چوری پر سخت ناراض اور پُراحتجاج بھی۔ دوسری جانب پورے پاکستان میں قیدی نمبر 804 کی کال پر جمہوریت پسند کارکن چوری شدہ مینڈیٹ کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ مینڈیٹ چوری کے خلاف یہ احتجاج درجۂ ٹریلر پر ہے جس پہ سرکاری تجزیہ کار ابھی سے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ قومی منظر نامے کی باگ ڈور مینڈیٹ چور عہدیداروں کے بجائے قیدی نمبر 804 کے ہاتھ میں ہے۔ آئیے اس منظر نامے کی دنیا میں جھانکتے ہیں۔
قومی افق پر پہلا منظر: یہ منظر قیدی نمبر 804 کے یاد دہانی مراسلے نے ترتیب دیا جو IMF کو لکھا گیا۔ اس خط نے تین سوال کھڑے کیے۔ پہلا‘ کیا کسی بیرونی ایجنسی کو سیاسی پارٹی کے لیڈر نے یہ پہلا خط لکھا ہے؟ اس کا جواب ہے: جی نہیں! ایسا ہی خط اسی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے بینک کو PPP کی سربراہ‘ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید نے بھی لکھا تھا جس میں IMF سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو دیا جانے والا قرض حقیقی عوامی مینڈیٹ والی جمہوریت کی بحالی سے مشروط کیا جائے۔ دوسرا سوال‘ کیا کسی اور پارٹی کے لیڈر کی جانب سے بین الاقوامی ادارے کو خط لکھا گیا؟ جواب ہے: جی بالکل! PMLN پنجاب کے صدر ‘سابق وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی اہلیہ کے ذریعے عالمی عدالتِ انصاف کو ANF کے مقدمے کی تھرڈ پارٹی انویسٹی گیشن لانچ کرنے کے لیے باقاعدہ درخواست بھجوائی تھی۔ تیسرا سوال یہ کہ جاری IMF پروگرام کی دو قسطوں کے اربوں ڈالر کا مہنگا قرضہ پاکستان کو مل چکا ہے۔ پہلی قسط رجیم چینج والی PDM حکومت کے سیزن ون میں آئی تھی۔ اس قرضے کی دوسری قسط کاکڑ حکومت کے نگران عہد میں پاکستان کو ملی۔ کیا شہباز شریف یا کاکڑ صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ قرض کی ان دونوں قسطوں کی رقم کس پروجیکٹ پر خرچ ہوئی؟ مقروض عوام کو اس سے کیا فائدہ پہنچا؟ IMF قرض کی یہ دونوں قسطیں مہنگائی کم کرنے‘ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ پبلک ہیلتھ‘ پبلک ایجوکیشن‘ پبلک ویلفیئر کے کس شعبے میں خرچ ہوئیں؟ یا پھر اس قرضے کے ڈالر بھی بیرونِ ملک جائیدادیں بنانے والے ایلیٹ مافیا اور ان کے خاندانوں کے کام آ گئے؟ قیدی نمبر 804 کی طرف سے یہ یاد دہانی کہ 8 فروری 2024ء کے الیکشن نتائج کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے‘ غداری ہے کیا؟ نواز شریف کی جانب سے یہ کہنا کہ ممبئی حملہ پاکستان سے ہوا تھا اورکارگِل جنگ شروع کر کے پاکستان نے زیادتی کی‘ یہ دونوں حُب الوطنی کے گولڈن سٹار ہیں گویا۔
قومی افق پر دوسرامنظر: 8 فروری 2024ء کے الیکشن کو گزرے آج 26 دن پورے ہو گئے۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نے قوم کو یہ نہیں بتایا کس سیاسی جماعت نے کتنے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ لیکن میں آپ کو بتا دیتا ہوں اگلے دو سے تین سال کے اندر 2 کروڑ نئے نوجوان ووٹرز کے ووٹ رجسٹر ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں جن کروڑوں لوگوں کا ووٹ بدل کر مینڈیٹ چوری کیا گیا‘ اُس کے نتیجے میں دو اڑھائی پارٹیوں کو ایک بار پھر جعل سازی سے آئینی عہدوں پر بٹھایا گیا جس کا نتیجہ تین طرح سے نکل رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں مینڈیٹ کی لوٹ سیل کا ریٹ اربوں روپے بتایا گیا۔ ایک صدارتی امیدوار محمود اچکزئی نے نیشنل اسمبلی فلور پر یہ الزام دہرایا ہے۔ JUIFکے مولانا کہتے ہیں: 2024ء الیکشن نے پچھلی ساری دھاندلیوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ (ن) لیگ کے سابق اراکینِ اسمبلی‘ سینیٹرز اور ہمدرد خود اپنے مینڈیٹ کو میڈیا انٹرویوز میں جعلی قرار دے رہے ہیں۔ رجیم چینج کے بعد جب قیدی نمبر 804 نے پنجاب اور KP کی منتخب اسمبلیاں توڑیں تو کہا گیا کہ پہلے معیشت ٹھیک کریں گے‘ پھر الیکشن کرائیں گے۔ آج تقریباً گیارہ ماہ بعد کیا پاکستان کی معیشت سنبھل گئی؟ کیا جن سیاسی اداکاروں نے قوم کی معیشت سنوارنے کے لیے عالمی بھکاری کا رول پرفارم کیا اُن کی دوبارہ پرانی اداکاری سے معیشت دوڑنے لگے گی؟ نیا الیکشن جمہوری استحکام لائے گا‘ کیا یہ خواب پورا ہو گیا؟ ہم سب جانتے ہیں معیشت میک اَپ اور سوٹ تبدیل کرنے سے بحالی کی راہ پر نہیں آئے گی۔ جن پر شہری عدم اعتماد ہوا وہ کوتوالِ شہر کے کہنے پر پاپولر کیسے ہوں گے؟ ایک ہی راستہ بچتا ہے۔ چور نظام رخصت کر کے قبضۂ اقتدار عوام کے حوالے کیا جائے۔ وہ عوام جن کا ووٹ بڑی جیل کے قیدی ایلیٹ مافیاکے خلاف چھوٹی جیل میں ضمیر کے قیدی کے حق میں پڑا۔
قومی افق پر تیسرا منظر: پنجاب میں حکمرانی کو تلاش کرنا ہوا تو پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد رانی جنداں کی تاریخ پڑھ لیں۔ چوری شدہ مینڈیٹ لے کر پہلے ہفتے میں سینہ زوری کا مظاہرہ لاہور پولیس نے ایسے کیا جیسے PTI کا جھنڈا پکڑنا قانونِ دہشت گردی کا سب سے بڑا جرم ہے۔ مینڈیٹ چوری سے آنے والی حکومت تصادم اور زور آزمائی پر آمادہ ہے۔ ایسے میں رجیم چینج سے آج تک پکنے والا لاوا کسی وقت بھی پھٹ پڑے گا۔ آخری بات بھی بہت قابلِ توجہ ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی ور سینیٹ کے مجموعی طورپر 960 ممبران صدرِ پاکستان کے انتخاب کے لیے الیکٹرول کالج ہوتے ہیں۔ اس وقت چار جنرل اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 78 مخصوص نشستیں خالی ہیں جبکہ سینیٹ کی11 نشستیں سینیٹرز کے قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کے حلف اٹھانے کے بعد سے خالی ہیں۔ ایسے میں سربراہِ ریاست کا الیکشن ہو رہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار الیکٹورل کالج کی 93 سیٹیں ابھی خالی ہیں۔ یہ ہے جمہوریت کا اصل محشر نامہ‘ جسے روکنے کے لیے قیدی نمبر 804 بندی خانے میں پسِ دیوار ہے۔