شاہراہِ دستور پر ملک کی چار عدد لینڈمارک عمارتیں قائم ہیں جن کے بنانے والوں کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ بیسویں صدی میں تعمیر ہوئیں۔اس سے پہلے کے کسی دورِ شہنشاہیت میں ایسی عمارت بنتی تو یقینا دومیں سے ایک وجہ کی بنیاد پر بادشاہِ سلامت اس کے معمار کو وہی کہتے جو گبھر سنگھ نے ٹھاکر سے کہا تھا کہ ''یہ ہاتھ مجھے دے دو‘‘۔
ان تین عمارتوں میں سے ایک قرض پر پلنے اور مانگ کر چلنے والے ملک کا دیسی وائٹ ہاؤس ہے۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ پاکستان کے 14 سربراہانِ مملکت میں سے کتنے اسلام آباد والے اس صدر ہاؤس میں رہائش پذیر رہے۔ وہ جتنے آدمی بھی تھے‘ ان میں سے صرف تین سے میری براہِ راست اور باقاعدہ ملاقاتیں ہوئیں۔ تینوں کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا۔ ایک صدر سے دونوں ملاقاتیں صدر ہاؤس سے باہر ہوئیں جبکہ صدر عارف الرحمن علوی اور صدر آصف علی زرداری سے صدر ہاؤس میں ملاقاتیں رہیں۔ تیسرے صدر پرویز مشرف سے دو ملاقاتوں کا احوال بھی آج شیئر کروں گا۔ صدر علوی سے تعارف کا آغاز 2013ء کے انتخابات کے بعد ہوا جب عمران خان نے مجھے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی سمیت چھوٹی میٹنگز میں ساتھ بٹھانا شروع کیا۔ اس دور میں ڈاکٹر علوی صاحب نے مجھے ملک صاحب کہہ کر مخاطب کیا اور بتایا کہ وہ اعوان قبیلے سے ہیں۔ کبھی کبھی ہلکی پھلکی گپ شپ چلتی رہی‘ وہ بھی زیادہ تر بنی گالا میں۔ وقت تیزی سے دوڑتا ہوا 2018ء کے عام انتخابات تک آن پہنچا۔
اس سے سال بھر پہلے 2017ء کے رمضان میں میری اور آصف زرداری کی F-8 والے گھر میں رات بھر کی نشست رہی۔ یہ 25 رمضان کی شب تھی۔ جب ہماری ملاقات ختم ہوئی تو 26 رمضان کی سحری کا اعلان ہو رہا تھا۔ میں نے باہر نکل کر عمران خان کو فون کیا۔ دعوت دی کہ آپ 27 رمضان کی افطاری میرے گھر کریں۔ خان صاحب کہنے لگے: Is it my long awaited dream۔ میں نے ہاں میں جواب دیا اور اگلے دن پی ٹی آئی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ عمران خان چودھری سرور‘ مرحوم نعیم الحق اور کچھ دیگر لیڈروں کے ساتھ میرے گھر آئے۔ جہاں وہ اور نعیم الحق مجھے شمولیت کی دعوت دینے کئی بار پہلے بھی آچکے تھے۔ جہانگیر خان ترین نے ملتان سے سیدھا آکر جوائن کیا۔ 28 رمضان کو خان صاحب نے مجھے کہا کہ کل میرے ساتھ سید پور گاؤں کے ایک اوپن ریسٹورنٹ میں افطاری کرو۔ یہاں ہم کافی دیر بیٹھے اور اس دوران انہوں نے ایک زبردست اور دلچسپ انکشاف کیا۔ اپنے مخصوص انداز میں دونوں ہاتھ سے ماتھا پکڑ کر کہنے لگے: توبہ توبہ... وجہ یہ بتائی کہ پی ٹی آئی کی ایک خاتون رہنما اور چار بڑے لیڈر مجھے ملنے آئے اور کہا کہ آپ بابر اعوان کو پی ٹی آئی میں مت لائیں۔ نام لکھنا مناسب نہیں لیکن دو پنجاب سے تھے۔ پھر ہنستے ہوئے کہا کہ میں نے کل ان لیڈروں کو دعوت دی تھی کہ بابر کے گھر افطاری کرنے چلتے ہیں تو انہوں نے کہا: Over our dead bodiesوقت کے ایکسلریٹر پر ایسا بھاری پاؤں پڑا کہ وہ چاروں اپنے کپتان کی گرفتاری کے بعد ٹیم پی ٹی آئی کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ صدر علوی ان میں شامل نہیں تھے۔ 2018ء کے عام انتخابات کا نتیجہ کور کمیٹی نے بنی گالا میں عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر سنا۔ اگلے دن دو میٹنگز ہوئیں۔ ایک فُل میٹنگ کہہ لیں‘ دوسری چھوٹی میٹنگ جس میں سات‘ آٹھ لوگ شامل تھے۔ بڑی میٹنگ میں حکومت بنانے کا فیصلہ ہوا جبکہ چھوٹی نشست میں صدر اور سپیکر کے عہدے کیلئے ناموں پر بحث ہوئی۔ سپیکر کیلئے دو نام تھے‘ عارف علوی اور اسد قیصر۔
میں نے ان میں سے اسد قیصر کے نام کی حمایت کی جس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی رہنے کا تجربہ اور دوسرا جرگے کی روایت کو سمجھنا۔ چونکہ پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی بڑی تعداد خیبرپختونخوا سے تھی اس لیے میری تجویز مان لی گئی۔ اسی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ڈاکٹر عارف علوی پی ٹی آئی کی طرف سے صدارتی عہدے کے امیدوار ہوں گے۔ ہماری فرینڈ شپ کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ ڈاکٹر علوی سے دوستانہ تعلق کی کچھ باتیں پھر کریں گے۔
آئیے پہلے آپ کو صدر پرویز مشرف سے دو ملاقاتوں کی شانِ نزول اور احوال بتائیں۔ میں اپوزیشن سینیٹر تھا اور محمد میاں سومرو پرویز مشرف کے چیئرمین سینیٹ۔ سینیٹ کا ایک وفد جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول جانے کیلئے ترتیب دیا گیا جس میں سومرو صاحب نے میرا نام اصرار بدرجہ ضد کرکے شامل کیا۔ سیول کانفرنس میں مختلف ریاستوں کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت نے آنا تھا۔ مگر ہوا یوں کہ عین وقت پر سومرو صاحب شدید فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو گئے۔ مجھ سے رابطہ کیا گیا اور اُنہوں نے بتایا کہ میں نے وفد کی قیادت کیلئے آپ کا نام تجویز کیا ہے‘ آپ شام کو تھوڑی دیر کیلئے گھر آجائیں۔ میں گیا تو باہر غیرمعمولی پروٹوکول تھا۔ اندر چار‘ پانچ آدمی موجود تھے جن میں سے ایک صدر پرویز مشرف تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں آپ کی مخالفانہ تقریریں سنتا ہوں مگر میرے چیئرمین آپ کو وفد کی قیادت دینا چاہتے ہیں تو کیا یہ تضاد نہیں ہوگا۔ میں نے کہا کہ میرا نام وفد سے نکال دیں تو تضاد ختم۔ اس پہ قہقہہ لگا‘ چائے پی اور تھوڑی دیر بعد میں اُٹھ آیا۔ دوسری ملاقات راولپنڈی کے ایک بڑے ہسپتال میں کرائی گئی‘ جہاں وہ مجھ سے آرٹیکل چھ کے مقدمے میں مشورہ لینا چاہتے تھے۔ اس میٹنگ میں میرا منشی چودھری شبیر بھی میرے ساتھ تھا۔ پرویز مشرف گرفتاری سے بال بال بچے تھے۔ میں نے چھوٹتے ہی کہا کہ چونکہ آپ کا نام بی بی کے مقدمے میں آیا ہے‘ اس لیے میں آپ کی وکالت نہیں کر سکتا۔ البتہ جو مشورہ پوچھنا چاہتے ہیں اُس پر رائے دے دوں گا۔ اس پہ پرویز مشرف بغلی کمرے میں گئے‘ رائٹنگ پیڈ اورقلم لے کر آئے۔ سوال و جواب کی صورت میں میری لیگل رائے اپنے ہاتھ سے لکھی۔ رائے کیا تھی‘ وہ یہاں نہ لکھنا میری پروفیشنل ذمہ داری ہے۔
علوی صاحب بحیثیت صدر بھی میرے گھر آتے رہے اور ہماری اکثر ملاقاتیں صدر ہاؤس میں بھی ہوئیں۔ اُن میں خوئے صدارت کبھی پیدا نہ ہوئی اور مشکل وقت میں وہ درست فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ انہیں فکر تھی ان کے خلاف 2014ء کے دھرنے کا ایک مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں تھا۔ میں نے مشورہ دیا کہ آپ صدارتی استثنیٰ ختم کریں‘ میرے ساتھ سینٹرل جج کی عدالت میں چلیں۔ بریت کی پٹیشن بیرسٹر عبداللہ دائر کرے گا۔ جج سے بحث کی اجازت میں لوں گا۔ اسی ہفتے وہ بغیر صدارتی پروٹوکول کے‘ خود گاڑی ڈرائیو کرکے میرے ساتھ عدالت میں آئے اور جج نے انہیں بری کر دیا۔ ایک دفعہ عمران خان نے مجھے اور دو وزیروں کو بنی گالا سے صدر علوی کے پاس بھیجا۔ ایک مشکل اور ٹاپ سیکرٹ ایشو تھا۔ دیر گئے وزیراعظم عمران خان ہماری واپسی کے منتظر تھے‘ میں اور مخدوم شاہ محمود قریشی واپس گئے اور تیسرے وزیر صاحب غائب ہو گئے۔ میں نے عمران خان کو بتایا کہ ٹاپ سیکرٹ ٹاسک لے کر میں جونہی باہر نکلا تو مجھے کال آئی کہ جس کام کیلئے آپ صدر کے پاس جا رہے ہیں‘ اس کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ اگلے دن میٹنگ میں وزیراعظم نے اُس وزیر سے پوچھا کہ تم یہاں بیٹھے ہوئے خبریں لیک کرتے ہو یا باہر نکل کر؟ اب یہ مت پوچھئے گا‘ وہ کون تھا؟