آج لکھنے کے لیے موضوعات کا پی ڈی ایم سا بن گیا ہے اس لیے صحیح سمجھ نہیں آرہا کہ ڈونلڈ لُو کے ساتھ اس کی اپنی کانگریس میں جو بہت بری ہوئی‘ وہاں سے شروع کروں یا Congoکے آدم خود قبیلے کی دانش مندی سے۔ پاکستان کی ہڈ بیتی پہلے لکھوں یا مادام آئی ایم ایف کی بے لوث محبت کا تذکرہ کروں۔ شور باز گورننس اور شبانہ روز محنت کس نمبر پہ آئے گی‘ یہ بھی پتا نہیں چل رہا۔ چونکہ امریکہ بہادر لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سے ہمارا اَٹوٹ انگ ہے اس لیے پہلے امریکی کانگریس کی طرف چلتے ہیں جہاں ڈونلڈ لُو پر رجیم چینج اور پاکستانی الیکشن مینڈیٹ چوری کی 2024ء ماڈل واردات زیر بحث ہے۔ گانگریشنل کمیٹی کے چیئرمین نے سائفر کے اصلی تے وڈّے خالق و مالک ڈونلڈ لُو سے ممبرانِ کانگریس کی طرف سے یہ سوال کیا:
امریکی کانگریس ممبرز: کیا آپ کو لگتا ہے پاکستان کے الیکشن فری اینڈ فیئر ہوئے تھے؟
ڈونلڈ لُو: ہم نے کبھی بھی ان الیکشنز کے لیے فری اور فیئر کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔
امریکہ بہادر نے ہمیں عشروں پہلے اَٹوٹ انگ ہونے کی راہداری ''نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ کے الفاظ میں لکھ کر دے رکھی ہے۔ اس لیے ہمیں مکمل آزادی ہے کہ ڈونلڈ لُو نے جتنے سچ بولے‘ ہم ان سب پہ اسے شاباش دیں‘ بلکہ شاباش دینے کی آزادی دینے پر ڈونلڈ لُو کا شکریہ ادا کریں اور ساتھ ہی ان امریکی شہریوں کی پُرزور اجتماعی مذمت بھی کر ڈالیں جنہوں نے ڈونلڈ لُو کو لائیو نشریاتی پارلیمانی سیشن کے دوران جھوٹا‘ مکار‘ فریبی اور حلف اُٹھا کر غلط بیانی کرنے والا کہہ کر ہماری دل آزاری کی۔
ڈونلڈ لُو کے شکریے کی مکمل آزادی سے یاد آیا کہ متحدہ ہندوستان سے علیحدگی کے بعد پاکستانی عوام کو ایک عظیم اور مکمل حقیقی آزادی صرف اور صرف گائے‘ بھینس کا گوشت کھانے کی ملی ہے۔ اس آزادی کے علاوہ 1947ء کے بعد جتنے بھی دستور اور قانون بنے ان میں ہر آزادی کے حق سے پہلے قانونی‘ اخلاقی‘ عوامی اور ریاستی پابندیوں کا ذکر آتا ہے جبکہ شہری آزادیوں کی ضمانت کا تذکرہ ہر ایسی پابندی کے بعد لکھا گیا ہے۔
آزاد اور خودمختار قوم کو ڈونلڈ لُو کا ایک اور شکریہ بھی ادا کرنا بنتا ہے کہ ڈونلڈلُو نے ہماری قومی غیرت کو بالکل بھی نہیں للکارا۔ اس کا یہ بیانِ خوش الہان ہمارے بڑے بڑوں کو نہال کر گیا کہ امریکہ بہادر پاکستان کی قومی خود مختاری میں مداخلت کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ڈونلڈ لُو کا اگلا جملہ چونکہ ہمارے لیے نہیں‘ پنٹا گون کے لیے تھا‘ اس لیے اسے پڑھ کر مائنڈ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ڈونلڈ لُو نے کہا کہ جہاں تک ایران پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ کا تعلق ہے‘ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم پوری کوشش کریں گے کہ وہ کبھی مکمل نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ جب ڈونلڈ لُو ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تکمیل کا راستہ روکنے کا اعلان کر رہا تھا‘ اس نے ہماری خود مختاری میں نہ تو مداخلت کی اور نہ ہی ہماری قومی غیرت کو چیلنج کیا۔ شکر ہے ڈونلڈ لُو نے ایک اور جملہ نہیں بول دیا کہ ہم پاکستان کی خود مختاری کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دیں گے۔ اگلا شکریہ اس کا یہ بنتا ہے کہ شبانہ روز محنت کے ذریعے پاکستان کو عالمی برادری میں باعزت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ خادمِ اعظم کا وزیر خارجہ شبانہ روز لندن بیٹھا رہا۔ اس کا قیام ایک ایسی رہائش گاہ میں تھا جو نہ اس کی ہے‘ نہ اس کے سمدھی کی‘ نہ سمدھی کی بیٹی کی اور نہ ہی اس کے بیٹوں کی۔ وہاں سے وہ شبانہ روز محنت کرتا رہا کہ اسے برطانوی سیکرٹری خارجہ لارڈ ڈیوڈ کیمرون سیلوٹ مارنے کے لیے بلوا لے مگر کوئی تدبیر‘ کوئی حربہ کارگر ثابت نہ ہوا۔
رواں ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ کے آٹھ میں سے چھ فاضل ججز نے جو خط لکھا ہے اس پر بھی شبانہ روز محنت چل رہی ہے۔ پی ڈی ایم سیزن ٹو‘ چونکہ آزاد بھی ہے اور خودمختار بھی اس لیے اس نے عہدوں پر موجود ججز کی شکایت کی تفتیش کرنے کے لیے ایک ریٹائرڈ جج کو چننے کا فیصلہ کیا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ریٹائرڈ جج کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔ اسی لیے اس سے پہلے بھی ماڈل ٹاؤن کمیشن جیسی کارروائیوں کے کور اَپ کے لیے جن کو لگایا گیا‘ انہوں نے بلاخوف و خطر اس تفتیش کو کیبنٹ ڈویژن کی اُسی سیف میں بند کیا جس میں سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کے خلاف ہونے والی تفتیش پر مبنی حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ محفوظ پڑی ہے۔ اس رپورٹ کو آج تک کسی میلی آنکھ نے نہیں دیکھا‘ کہنے کا مطلب ہے پاکستان میں۔کیونکہ بھارت یہ رپورٹ بہت عرصہ پہلے لیک کر چکا ہے۔ پی ڈی ایم کی موجودہ خود مختار حکومت کے وزیر خزانہ نے سیزن وَن میں آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی تھی۔ تب سے اب تک پورے پاکستان کے غریب لوگ‘ ورکنگ کلاس‘ مڈل کلاس آئی ایم ایف کی جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ کل ہی 85 ارب 30 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ بجلی کے بِلوں میں مزید ڈالا گیا۔
جمعرات کے دن مجھے فیصل آباد انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونا پڑا جہاں سے عمر ایوب اور شبلی فراز کی 5‘ 5مقدما ت میں ضمانت قبل اَز گرفتاری منظور کرائی۔ ایک سابق لیفٹیننٹ جنرلATCکمپلیکس میں ملنے کے لیے آگئے۔ بتانے لگے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ جو 70فیصد سے زیادہ بجٹ کھاتا ہے‘ وہ ایک دفتر میں بند ہے جسے کہتے ہیں debt servicing cell یعنی قرضوں کی واپسی کا اڈّا۔ ریٹائرڈ سپرسولجر نے قرضوں کی واپسی کا آزمودہ نسخہ بتایا۔ کہنے لگے کہ 1960ء میں فرانس نے کانگو کو آزاد کیا۔ بعد میں اس نے اپنا سفیر وہاں تعینات کر دیا۔ ایک مرتبہ فرانسیسی سفیر صاحب شکار کی تلاش میں کانگو کے جنگلات نکل گیا۔ جنگل میں چلتے چلتے سفیر کو دور سے کچھ لوگ نظر آئے۔ وہ سمجھا شاید میرے استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک آدم خور قبیلہ ہے۔ انہوں نے فرانسیسی سفیر کو پکڑ کر ذبح کیا۔ اس کی کڑاہی بنائی اور سفید گوشت کے خوب مزے اڑائے۔ فرانس اس واقعے پر سخت برہم ہوا اور کانگو سے مطالبہ کیا کہ وہ سفیر کے ورثا کو (کئی) ملین ڈالر خون بہا ادا کرے۔ کانگو کی حکومت سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ خزانہ خالی تھا‘ ملک میں غربت و قحط سالی تھی۔ بہرحال کانگو کی حکومت نے فرانس کو ایک خط لکھا جس کی عبارت کچھ یوں تھی: ''کانگو کی حکومت محترم سفیر کے ساتھ پیش آئے واقعے پر سخت نادم ہے‘ چونکہ ہمارا ملک خون بہا ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا لہٰذا غور و فکر کے بعد ہم آپ کے سامنے یہ تجویز رکھتے ہیں کہ ہمارا جو سفیر آپ کے پاس ہے‘ آپ بدلے میں اُسے کھا لیں‘‘۔
پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھے جس کا مضمون کچھ یوں ہونا چاہیے کہ ''پچھلے پچھتر برسوں میں ہماری اشرافیہ نے جو قرضے لیے ہیں‘ وہ آپ ہی کے بینکوں میں پڑے ہیں‘ ہم آپ کے قرضے تو واپس نہیں کر سکتے لہٰذا گزارش ہے کہ ہماری اشرافیہ کے بینک بیلنس‘ اثاثے اور بچے مغربی ممالک میں ہیں‘ بدلے میں آپ وہ رکھ لیں‘‘۔