فلموں کے ذریعے تاریخ کا مطالعہ ایک انتہائی آسان اور مفید طریقہ ہے۔ ایک طرف فلم دیکھنے کا مزہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے اور ساتھ ہی آپ کو تاریخ سیکھنے اور جاننے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ ہم ان کالموں میں جنوبی ایشیا کی پسماندگی، جنگی صورتحال اور دیگر مشکلات کا ذکر کر رہے ہیں۔ بھارت میں چونکہ دنیا بھر کی سب سے زیادہ فلمیں بنتی ہیں تو بعض اوقات وہاں اپنی تاریخ کے چھپے ہوئے یا چھپائے گئے رازوں سے متعلق بھی فلمیں بنائی جاتی ہیں؛ اگرچہ ان کی تعدا بہت کم ہے۔ اس لیے نہ صرف بھارت بلکہ دیگر ممالک‘ بالخصوص پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی ایسی فلمیں بنانی چاہئیں۔ جنوبی ایشیا کو بظاہر تو آزادی مل چکی ہے مگر تا حال اس خطے میں برطانیہ اور امریکہ کا کردار نہایت واضح ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج بھی مغرب اپنی پالیسیوں کے تحت اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ جاری رکھے ہوئے ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اس خطے میں بیرونی طاقتیں بہت ساری حکومتوں کوبنانے اور گرانے کا کام کرتی آئی ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اب یہ دھندہ بند ہو چکا ہے تو یہ محض اس کی غلط فہمی ہے۔ اس بات کی گواہی خفیہ ایجنسیوں (بشمول را، کے جی بی، سی آئی اے ) کے سابق افسران اپنے انٹرویوز اور کتابوں میں دے چکے ہیں۔
بات شروع ہو ئی فلموں سے تو ''اِندو سرکار‘‘ ایک ایسی بھارتی فلم ہے جو بھارت کی خاندانی جمہوریت کا ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے کہ اس کو دیکھنے کے بعد آپ پر نہرو خاندان کی بھارتی حکومت پر آمرانہ گرفت کی تصویر سفید اور سیاہ رنگوں کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ اس فلم میں بھارت میں اندراگاندھی کے دور میں مارشل لا کی طرز پر لگنے والی ایمرجنسی کا تفصیل کے ساتھ تجزیہ کیا گیا ہے۔ اندرا گاندھی نے جون 1975ء میں ریاست الہ آباد کی ہائیکورٹ کی جانب سے اپنے خلاف ایک فیصلہ آنے پر ایمرجنسی لگائی تھی۔ ہائیکورٹ نے نہ صرف اندرا گاندھی کواپنی جیتی ہوئی نشست پرسرکاری مشینری اور دیگر ذرائع استعمال کرنے پر مجرم قرار دیا گیا بلکہ پانچ سالوں کیلئے نااہل بھی قرار دے دیا۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بجائے ملک میں ایمرجنسی لگا کر اپنی پارٹی کے لوگوں سمیت پوری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا گیا۔ ریڈیو پر وزیراعظم کے خطاب کے لیے انتہائی احتیاط کے ساتھ جو پیغام نشر کیا گیا وہ یہ تھا کہ ''ملک میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے، لیکن تشویش کی کوئی بات نہیں‘‘۔ اس فیصلے میں فیصلہ ساز کردار اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی نے ادا کیا تھا جو اس ایمرجنسی کے بعد ایک طاقتور شخص کے طور پر سامنے آئے۔
یاد رہے 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی کو‘ جون کے مہینے میں سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر فوجی آپریشن کرنے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ 1966ء میں لال بہادر شاستری کے مبینہ قتل کے بعد بھارت کی تاریخ کا دوسرا بڑا مگر کھلے عام پہلا قتل تھا۔ واضح رہے کہ لال بہادر شاستری‘ جو بھارت کے دوسرے وزیر اعظم تھے اور نہرو کے انتقال کے بعد 1964ء میں وزیر اعظم بنے تھے‘ 11 جنوری 1966ء کو دورۂ روس کے دوران 1965ء کی جنگ کے حوالے سے معاہدۂ تاشقند پر دستخط کرنے کے بعد اسی رات کو اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔ ان کے قتل کے بعد ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم تک نہیں ہونے دیا گیا۔ بھارت میں آج تک اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ ان کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ یہ ایک قتل تھا۔ اس حوالے سے آپ کو ''تاشقند فائلز‘‘ نامی فلم دیکھنی چاہیے جس میں شاستری کی موت پر بحث کی گئی ہے اور اس حوالے سے ساری تھیوریوں‘ مفروضوں اور حقائق کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اس فلم کا خلاصہ یہی ہے کہ شاستری کو راستے سے ہٹایا گیا تھا۔ اس ''قتل‘‘ کا ذکر اس لیے یہاں آگیا کہ شاستری کے بعد ہی اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنی تھیں۔ اس سے قبل جواہر لال نہرو سترہ سال تک بھارت کے وزیراعظم رہے اور ان کی موت کی وجہ سے نہرو خاندان کا جو اقتدار ختم ہوا تھا‘ وہ شاستری کی موت کے بعد‘ دو سال سے بھی کم عرصے کے وقفے سے دوبارہ شروع ہو گیا۔ اس کے بعد 1977ء سے 1980ء تک اندرا گاندھی اقتدار سے دور رہیں لیکن 1980ء میں وہ دوبارہ اقتدار میں آ گئیں جو 1984ء میں ان کے قتل پر ختم ہوا۔ نہرو سترہ سال جبکہ اندرا گاندھی پندرہ سال بھارت کی وزیر اعظم رہیں۔ اندرا گاندھی کی غیر فطری موت کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے اور پانچ سال حکومت کرنے کے بعد 1989ء میں ایک خود کش بم دھماکے میں وہ بھی ہلاک ہو گئے۔ اس طرح قیامِ بھارت کے بعد 42سالوں میں سے 37 سال تک صرف نہرو خاندان ہی بھارت میں برسرِاقتدار رہا۔
اب بات ہو جائے سکھوں کے مقدس مقام پر بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کی تو اس آپریشن میں گولڈن ٹیمپل کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا اور سکھوں کے آزادی پسند رہنما سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اس آپریشن کا بدلہ لینے کیلئے اندرا گاندھی کے اپنے ہی سکھ گارڈز نے ان پر گولیوں کی برسات کر دی تھی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت کے دارالحکومت دہلی میں سکھوں کا قتل عام ہوا جو یکم نومبر کو شروع ہو کر اگلے کئی دن تک مسلسل جاری رہا۔ اس وقت بھارت کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے لیکن نہ صرف گیانی ذیل سنگھ کو آپریشن بلیو سٹار سے بے خبر رکھا گیا بلکہ سکھوں کے قتل عام کے وقت جب انہوں نے یہ کہا کہ دہلی میں ہونے والے سکھوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے آرمی بلائی جائے تو ان کو جواب دیا گیا کہ فوج کب اور کہاں بلانی ہے اس کا فیصلہ وزیر اعظم راجیو گاندھی کریں گے۔ سکھوں نے نہ صرف متعدد فلمیں بلکہ ڈاکیومینٹریز کے ذریعے بھی اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو انتہائی مؤثر طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اندرا گاندھی کو قتل کرنے والے سکھ نوجوانوں پر ''مٹی دے ہیرے‘‘نامی فلم بنا کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سکھوں کے مقدس مقام پر ہونے والے آپریشن کے بعد لوگوں کے جذبات کتنے مجروح ہوئے تھے اور اسی دبائو کی وجہ سے دو نوجوانوں نے اندرا گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ اسی طرح سکھ کمیونٹی اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا ذکر واضح طور پر اور بین السطور گاہے گاہے پنجابی فلموں میں بھی کرتی رہتی ہے۔ حال ہی میں ایک فلم ''یوگی‘‘ ریلیز کی گئی جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جیلوں سے مجرموں کو نکال کر انہیں باقاعدہ طور پر پیسے دیے گئے کہ وہ سکھوں کو قتل کریں اور ان کی املاک لوٹ لیں۔ پولیس کو بھی منع کر دیا گیا کہ تین دن تک کسی بھی تھانے میں کوئی ایف آر درج نہیں کی جائے گی۔ دیکھا جائے تو 2002ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں بھی ایسی ہی پلاننگ کی گئی تھی۔
اب ذکر یکم نومبر 1970ء کو پاکستان میں ہونے والے ایک قتل کا‘ مشرقی یورپی ملک پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ کو کراچی ایئر پورٹ پر ہلاک کیا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ نشانہ پولینڈ کے اس وقت کے صدر تھے جو اُن لوگوں میں کھڑے تھے جن پر ایک ٹرک چڑھ دوڑا تھا۔ اس وقت سوویت یونین اور امریکہ میں سرد جنگ جاری تھی اور پولینڈ کمیونسٹ بلاک یعنی روس کا اتحادی تھا۔ واضح رہے کہ پولینڈ اپنی مرضی کے بجائے سوویت طاقت کے زیرِ اثر اتحادی بنا تھا۔ اصل ٹارگٹ پولینڈ کے صدر تھے لیکن ان کی پہچان واضح نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچ گئے لیکن نائب وزیر خارجہ Zygfryd Wolniak اس ٹرک کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے۔ اس قتل کے بعد ٹرک ڈرائیور نے 'سوشل ازم مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بغیر کسی مزاحمت کے گرفتاری دے دی۔ بھٹو صاحب نے اس قتل کو ایک بین الاقوامی سازش قرار دیا۔ یہ قتل‘ بھارت کے لال بہادر شاستری کے بعد‘ ایسا دوسرا قتل تھا جو کسی غیر ملک میں ہوا۔ شاستری کے قتل کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اگرچہ یہ روس میں ہوا لیکن اس میں مغربی ہاتھ ملوث تھے اور مقصد بھارت اور روس کے تعلقات کو خراب کرنا تھا۔ پولینڈ کے صدر پر حملے اور نائب وزیر خارجہ کی ہلاکت کی تفصیل آئندہ پیش کی جائے گی کہ کس طرح روس اور امریکہ کی سرد جنگ کا میدان جنوبی ایشیا بنا۔ (جاری)