ایک پروفیسر کی تحقیق کے مطابق لاہور جیسے تمام آلودہ شہروں میں رہنے والوں کی اوسط عمر پانچ سال کم ہوسکتی ہے۔ اوسط عمر کی اصطلاح آپ نے یقینا سنی ہوگی۔ مختلف خطوں کے عوام کی اوسط عمر مختلف ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اوسط عمر 65سال بیان کی جاتی ہے جبکہ جاپان میں اوسط عمر85 سال تک پہنچ چکی ہے۔ اوسط عمر کا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ملک یا علاقے کا فرد‘ وہاں کے ماحول میں‘ اگر کوئی حادثہ نہ پیش آئے تو‘ اندازاً کتنے سال تک جیے گا یا جی سکتا ہے۔ گو کہ پاکستان میں 2021 ء کی رپورٹ کے مطابق اوسط عمر 67 سال ہے مگر مختلف علاقوں میں یہ عمر مختلف ہے۔ ہنزہ جیسے علاقوں میں لوگوں کی اوسط عمر لگ بھگ سو سال ہے مگر شہری علاقوں میں یہ بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ آپ یہ بات مزید بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کسی سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ کی حد ساٹھ سال ہے لیکن یورپ کے زیادہ تر ممالک میں اس حد کو بڑھا کر 65سے67سال تک کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس سلسلے میں گاہے گاہے تعلیم اور صحت کے شعبوں‘یعنی اساتذہ اور ڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی حد بڑھانے کی بات کی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں پیشوں سے وابستہ لوگوں کی مہارت عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور ان کے ریٹائر ہو جانے سے ایک بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کو بے شک انتظامی عہدہ نہ دیا جائے مگر ان کے تجربے سے ضرور فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ لیکن یہ جو عجیب خبر آئی ہے کہ پاکستان کے آلودہ شہروں میں مستقل طور پر رہائش پذیر لوگوں کی اوسط عمر باقی ملک سے مزید پانچ سال کم ہو جاتی ہے تو اس سے ایک خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اوسط عمر کے بڑھنے یا زیادہ ہونے کا براہِ راست تعلق خوراک کی مقدار، معیار، پینے کے پانی کے معیار، طرزِ زندگی اور سب سے بڑھ کر اُس ہوا کے معیار سے ہے‘ جس میں وہ چوبیس گھنٹے سانس لیتا ہے۔ آپ کو ایک پرانے کالم کی یاد دہانی کراتے چلیں جس میں راقم نے انکشاف کیا تھا کہ لاہور شہر کی ماحولیاتی زندگی پانچ سال رہ گئی ہے۔ یہی چونکا دینے والی بات ایک ٹی وی انٹرویومیں بھی کی تو اس وقت کی وفاقی کابینہ کے ایک صاحب ملنے کے لیے تشریف لائے جو برطانیہ سے پڑھ کر آئے ہیں۔ انہوں نے اس ''پانچ سال‘‘ والی بات کی وضاحت چاہی جو میں نے قدرتی ماحول کی ابتر صورتحال ان کے سامنے بیان کر دی۔ ان سطور کے ذریعے ان سے دوبارہ گزارش ہے کہ اس ماحولیاتی آلودگی کو جنگی بنیادوں پر روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ بصورتِ دیگر ان شہروں کا ماحول‘ جو پہلے صرف بیماری کی سٹیج پر تھا‘ اب بجا طور خصوصی نگہداشت (آئی سی یو)والے مقام پر آگیا ہے۔ میں نے ان سے یہ عرض کی تھی کہ پانچ سال کے بعد یہ تو نہیں ہوگا کہ لاہور شہر میں لوگ بس نہیں سکیں گے لیکن اتنا ضرور ہوگا کہ وہ ایک ایسے ماحول میں زندہ ہوں گے جس سے دوسرے کراہت محسوس کریں گے بالکل ایسے ہی جیسے شہر میں بہنے والے کسی گندے نالے کے کنارے لوگ آباد ہوں۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال یاد آ رہی ہے کہ2011ء میں جب اُس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما بھارت کے دورے پر آئے تو تقریباً دو دن بھارت میں گزارنے کے بعد‘ ان کے ہمراہ آئے ماہرین میں سے ایک نے کہا کہ جنابِ صدر! آپ کی زندگی کے کچھ گھنٹے کم ہو گئے ہیں۔ صدر صاحب نے حیرانی سے استفسار کیا کہ کیوں؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ انہوں دنیا کے سب سے آلودہ شہر (دہلی)میں جو وقت گزارا ہے، اس کی وجہ سے ان کی اوسط زندگی میں چند گھنٹوں کی کمی واقع ہونے کا اندیشہ لاحق ہوگیا ہے۔ بظاہر یہ ایک علامتی بات تھی مگر اس کے معنی حقیقی زندگی میں بہت اہم اور خطرناک ہیں۔ اس واقعے سے ہمیں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ دیارِ مغرب سے آنے والوں کو اس بات کا ادراک کم از کم گیارہ سال پہلے ہی ہو چکا تھاجبکہ ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ گزشتہ سال ایک صوبائی وزیر نے یہاں تک کہا تھا کہ سموگ اور آلودگی والی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ وزیر موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ آلودگی والی خبریں دینے اور پھیلانے والوں کے خلاف حکام کو کارروائی کرنی چاہیے اور ان ''غلط خبروں‘‘ کو پھیلانے والوں کو پروپیگنڈا اور فیک نیوز کے قانون کے تحت گرفتار کرنا چاہیے۔ امریکی صدر کے واقعے سے آپ کو ایک اندازہ ہوگیا ہو گا کہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے راقم اور ایک پروفیسر صاحب کا حالیہ بیان بھلے خطرناک لیکن حقیقت پر مبنی ہے۔ آپ اس حقیقت کو ایک اور سادہ مگر اہم مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جس ہوا میں آپ سانس لیتے ہیں‘ اگر وہ آلودہ ہو تو بتدریج آپ کے نظامِ تنفس کو نہ صرف خراب کرتی بلکہ آہستہ آہستہ مکمل تباہ کر دیتی ہے۔ اسی طرح سے یہ خراب ہوا آپ کو گلے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے۔ مستقل نزلہ، زکام اور پھیپھڑوں کے مسائل بھی اس سے جنم لیتے ہیں۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان سانس چوبیس گھنٹے لیتا ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی اس میں تعطل نہیں آتا۔ اس لیے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کا رہائشی علاقہ قدرے صاف ہے یا آپ گاڑی میں یا گھر اور دفتر میں ''ایئر پیوری فائر‘‘ چلا لیتے ہیں تو آپ کو ادراک ہونا چاہیے کہ دن کے کسی نہ کسی حصے میں آپ کسی ایسے علاقے میں ضرور جاتے ہوں گے جہاں آپ کا واسطہ کھلی مگر آلودہ ہوا سے پڑتا ہو گا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی‘ جو ساری دن اس آلودہ ہوا میں پھرتا ہے‘ اس کا کیا حال ہوتا ہو گا۔
اب چلتے ہیں ایک اور پہلو کی طرف۔ یہ ایک انگلش فلم کا منظر ہے اور ایک جنگ کا سین پیش کیا جا رہا ہے۔ فلم کا ہیرو جنگی علاقے کی مشکل صورتحال اور جان گنوانے کے خدشات سے متعلق نئے آنے والے فوجیوں کو آگاہ کرتا ہے کہ ''اس جنگی علاقے میں مرنے والوں کی اوسط عمر بمشکل 36سے 48 گھنٹے ہے‘‘۔ اب اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ ہمارے جیسے علاقوں کے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ جنگ اتنی شدت سے ہو رہی ہے کہ اگر جنگ می ںمرنے والے فوجیوں کی ہلاکت کا حساب لگایا جائے، تو ایک فوجی اوسطاً دو دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ پاتا۔ ظاہری بات ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی تھیں، جیسے کہ مخالف آرمی کی تعداد کا زیادہ ہونا، جنگ زدہ علاقے سے متعلق معلومات کا کم ہونا، اسلحے کی تعداد اور معیار وغیرہ۔ یہ ایسی جنگی کیفیت تھی جس میں فلم کے ہیرو کی فوج کو زیادہ سے زیادہ ہلاکتوں کا اندیشہ تھا۔ اس لیے اس نے نئے آنے والے فوجیوں کو اس کی سنگینی سے بجا طور پر آگاہ کیا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جنگ پر بننے والی کسی فلم کا ماحولیاتی آلودگی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ ذرا غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے جیسے یعنی آلودہ ممالک میں ماحولیاتی آلودگی در اصل ہماری زندگیوں کو لاحق ایک ایسا خطرہ ہے، جو کسی جنگی صورتحال سے کسی طور بھی کم نہیں۔
ماحولیاتی آلودگی ہم پر ایک جنگ کی طرح مسلط ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں ہماری زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور ہماری اوسط عمر مسلسل گھٹتی جا رہی ہے۔ اس جنگ کے محرکات آلودہ ہوا، غیر معیاری یا نقصان دہ پانی، گلیوں اور سڑکوں پر اڑتی ہوئی دھول، مٹی اور راکھ ہے جس میں بسا اوقات جانوروں کا فضلہ بھی شامل ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر کوڑے کرکٹ کے ایسے ڈھیر‘ جن میں کھانے پینے کی چیزوں کی باقیات حد درجے کا تعفن پیدا کرتی ہیں۔ کسی جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں اور ماحولیاتی آلودگی میں صرف ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ جنگ میں گولیوں اور بارود سے ہونے والی ہلاکتیں یکلخت ہوتی ہیں یا پھر لوگ شدید زخمی ہو جاتے ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والے خطرات لوگوں کو بتدریج بیمار اور لاچار کرتے ہیں۔ یہ بیماریاں سب سے پہلے انسانوں کی قوتِ مدافعت کو کمزور کرتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ اسے موت کی وادی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ لیکن ایک بات سے اتفاق بہر حال کرنا ہی پڑتا ہے کہ یہ ماحولیاتی آلودگی، خاص طور پر سموگ جیسی زہریلی اور دھندلی فضا ایک ایسی جنگی کیفیت بن چکی ہے جو ہم نے اپنے آپ پر خود مسلط کی ہے اور اس کے خلاف تاحال ہم نے لڑنا بھی شروع نہیں کیا۔